بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی: کراڈچچ کے خلاف سماعت مکمل
8 اکتوبر 2014بوسنیائی سربوں کے سابق رہنما راڈووان کراڈچچ کے خلاف بوسنیا کی جنگ کے دوران نسل کشی اور شدید نوعیت کے دیگر جنگی جرائم سے متعلق مجموعی طور پر 11 الزامات میں مقدمے کی سماعت پانچ سال تک جاری رہی۔ منگل سات اکتوبر کے روز سماعت مکمل ہونے سے قبل کراڈچچ نے آخری بار اپنے دفاع میں تفصیلی بیان دیتے ہوئے تمام الزامات کو مسترد کر دیا اور کہا کہ انہیں امید ہے کہ عدالت انہیں تمام الزامات میں بری کر دے گی۔
کراڈچچ پر دیگر باتوں کے علاوہ اس بات کا بھی الزام ہے کہ انہوں نے 1992ء سے لے کر 1995ء تک جاری رہنے والی بوسنیا کی جنگ کے دوران بوسنی سرب فوجوں کے ہاتھوں بوسنیائی مسلمانوں پر مظالم اور ان کی نسل کُشی کی منصوبہ بندی کی اور انہی کی قیادت میں ساراژیوو کا محاصرہ کیا گیا اور پھر 1995ء میں سریبرینتسا میں قریب آٹھ ہزار مسلمان مردوں اور نوجوانوں کا قتل عام کیا گیا۔
بلقان کے اس خونریز جنگی تنازعے میں قریب ایک لاکھ انسان مارے گئے تھے جبکہ ہزار ہا شہریوں کو نسلی تطہیر کے عمل کے دوران جبری طور پر ان کے آبائی علاقوں سے بے دخل بھی کر دیا گیا تھا۔
اپنے حتمی دفاعی بیان میں راڈووان کراڈچچ نے ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں سابق یوگوسلاویہ سے متعلق انٹرنیشنل ٹریبیونل کے تین ججوں پر مشتمل پینل کو بتایا کہ بوسنیائی جنگ میں پیش آنے والے حالات و واقعات ویسے نہیں تھے جیسے انہوں نے چاہا تھا۔ کراڈچچ نے کہا کہ یہ جنگ ایک ہولناک عمل تھا اور امید کی جانی چاہیے کہ یہ واقعات دہرائے نہیں جائیں گے۔
دی ہیگ میں اس مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کسی بھی فیصلے تک پہنچنے سے قبل ممکنہ طور پر کئی مہینوں تک غور و فکر کرے گی۔ کراڈچچ کے بقول انہیں امید ہے کہ عدالت انہیں بری کر دے گی۔
استغاثہ کا مطالبہ ہے کہ اس وقت 69 سالہ کراڈچچ چونکہ بوسنیائی جنگ کے دوران سربوں کے زیر قبضہ علاقوں سے مسلمانوں اور کروآٹوں کی بے دخلی اور ان کے قتل کے مجرمانہ منصوبے کے مبینہ مرکزی کردار رہے ہیں، اور انہی کے حکم پر قتل عام، خواتین سے جنسی زیادتیوں اور جنگی مظالم کا سلسلہ جاری رکھا گیا تھا، اس لیے انہیں سخت سزا سنائی جانا چاہیے۔
اس مقدمے کی سماعت 26 اکتوبر 2009ء کو شروع ہوئی تھی اور اس دوران استغاثہ اور دفاع کی طرف سے قریب 600 گواہان نے عدالت کے سامنے تفصیلی بیانات دیے۔ کسی بھی فیصلے تک پہنچنے سے قبل تین رکنی عدالت کو مادی شواہد کے طور پر عدالت کے سامنے پیش کردہ بے تحاشا مواد اور گواہوں کے بیانات کے ہزاروں صفحات پر مشتمل تحریری ریکارڈ کا بغور جائزہ لینا ہو گا۔
سریبرینتسا کے قتل عام میں مارے جانے والے قریب آٹھ ہزار مسلمان مردوں اور نوجوانوں کے پسماندگان اور ساراژیوو کے طویل محاصرے میں زندہ بچ جانے والے افراد کو امید ہے کہ راڈووان کراڈچچ کو کم از کم بھی عمر قید کی سزا سنائی جائے گی۔