بوسنیا: مہاجرین کی حالت ابتر، کروشیا داخلے کی کوششیں ناکام
انفومائگرینٹس
2 اگست 2018
بوسنیا میں تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کرنے پر کروشیا کی سرحدی پولیس انہیں زدو کوب کرتی ہے۔ بوسنیا کے سرحدی قصبوں میں عارضی کیمپوں میں رہنے والے مہاجرین رہائش کی ناقص صورت حال سے بھی شاکی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/E. Omic
اشتہار
مہاجرین کے حوالے سے باخبر رکھنے والے یورپی ادارے انفو مائیگرنٹس کے مطابق رواں برس اب تک بوسنیا میں سب سے زیادہ مہاجرین کی آمد سرحدی قصبے ویلیکا کلادوسا میں ہوئی ہے۔ یہاں تارکین وطن اس امید پر آتے ہیں کہ وہ کروشیا سے، جو کہ یورپی یونین کا رکن ملک ہے، سرحد پار کر کے یورپ میں داخل ہو جائیں گے۔ لیکن کروشیا کا بارڈر پار کرنا ان افراد کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں کیوں کہ وہاں پولیس ہر وقت سرحد پر چوکس رہتی ہے۔ مہاجر کیمپ یہاں چاروں اطراف میں پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ پاکستان، افغانستان،ایران، شام، عراق اور مراکش جیسے ممالک سے تعلق رکھنے والے پانچ سو سے زائد تارکین وطن یہاں مشکل حالات میں رہنے پر مجبور ہیں۔
ایک افغان مہاجر خاتون نے جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی، انفو مائگرینٹس کو بتایا،’’ ذرا دیکھیں ہم یہاں کن حالات میں رہ رہے ہیں۔ ہر طرف کوڑا کرکٹ ہے اور بیت الخلا ء بری حالت میں ہیں۔ تین سال سے میرے بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ ہمارے لیے زندگی یہاں بہت دشوار ہو گئی ہے۔ کیا ہمارے کوئی حقوق نہیں ہیں؟‘‘
ان کیمپوں میں رہنے والے مہاجرین کی اکثریت غیر قانونی طور پر کروشیا پہنچنے کی کوشش کر چکی ہے تاہم کسی کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ کئی مہاجرین نے ایسے الزامات بھی عائد کیے ہیں کہ کروشیا کی سرحد پر وہاں تعینات سرحدی پولیس نے نہ صرف انہیں مارا پیٹا بلکہ ان سے موبائل فون اور نقد رقم بھی چھین لی اور پھر جبراﹰ واپس بوسنیا بھیج دیا۔
تصویر: picture-alliance/AA/E. Omic
ویلیکا کلادوسا کے کیمپوں میں مقیم بعض مہاجرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے کروشیا میں پناہ کی درخواستوں کے فارم بھرے تھے لیکن وہاں کی حکومت نے انہیں بطور مہاجر درج کرنے سے بظاہر انکار کرتے ہوئے واپس بوسنیا بھیج دیا۔
ایک افغان پناہ گزین عبدالعزیز نے ان رپورٹوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا،’’ جب ہم کروشیا میں داخل ہوتے ہیں تو وہ ہمیں پناہ دینے سے انکار کرتے ہیں، ہمیں مارتے ہیں اور فون بھی چھین لیتے ہیں۔ میں نے پانچ سال پہلے افغانستان چھوڑا تھا اور اب تین ماہ سے یہاں ہوں، یہاں صورت حال بہت خراب ہے۔ نہ کھانا ہے اور نہ پانی۔‘‘
تاہم کروشین پولیس نے تارکین وطن کی جانب سے عائد کیے گئے ان الزامات پر کسی قسم کے رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔
معاشی لحاظ سے کمزور مشرقی یورپی ملک بوسنیا میں مہاجرین کی آمد میں واضح اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ان میں زیادہ تعداد ایسے نوجوان افراد کی ہے جو بوسنیا کے پڑوسی ملک کروشیا کے راستے یورپی یونین کی حدود میں داخل ہو نا چاہتے ہیں۔
تاہم شکستہ بنیادی ڈھانچے،کمزور اداروں اور تقریباﹰ نہ ہونے کے برابر فنڈز کے ساتھ بوسنیا اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں۔
ص ح / ع ا / انفو مائیگرینٹس
یونان میں تارکینِ وطن کی کبھی ختم نہ ہونے والی آزمائشیں
یونان کے دوسرے بڑے شہر تھیسالونیکی کے ریلوے اسٹیشن کے قریب متروکہ ٹرین ویگنوں میں رہنے والے پناہ گزین یونان سے نکلنے کی غرض سے مال گاڑیوں میں گھسنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خطرہ مول نہ لیا تو زندگی کا کیا مزہ
نائیجیریا سے تعلق رکھنے والے اٹھارہ سالہ محمد سے جب ڈی ڈبلیو نے سوال کیا کہ چھپ چھپا کر مال گاڑیوں میں سوار ہونے کی کوشش کتنی خطرناک ہو سکتی ہے تو اُس کا جواب تھا، ’ خطرہ مول نہ لیا تو زندگی کا کیا مزہ۔‘
تصویر: DW/D. Tosidis
پیسے کب تک ساتھ دیں گے؟
الجزائر کے انور ایم اور احمد اے مال گاڑی کے ایک پرانے خالی ڈبّے میں بیٹھے اگلی مال گاڑی کا انتظار کر رہے ہیں۔ انور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ ایک جعلی پاسپورٹ 1500 یورو میں بنتا ہے اور انسانی اسمگلر پورٹ آف پترس سے اٹلی تک کے 600 یورو لیتے ہیں۔ میرے پاس صرف 25 یورو ہیں جنہیں میں سربیا کے لیے بچا کے رکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
تصویر: DW/D. Tosidis
حتمی منزل؟
الجزائر کا 29 سالہ مہاجر ذکی ایک متروک ٹرین ویگن کے اندر آرام کر رہا ہے۔ وہ نو ماہ قبل یونان پنہچا تھا۔ ذکی نے ایک ماہ زیتون کے ایک باغ میں کام بھی کیا۔ اُس نے چھ مرتبہ جرمنی جانے کی کوشش کی۔ اُس کی آخری کوشش کسی حد تک کامیاب ہو گئی اور اب وہ کم از کم بلقان میں تو موجود ہے۔
تصویر: DW/D. Tosidis
ٹرین کہیں لے کر نہیں جاتی
ایک مراکشی تارکِ وطن ایک پرانی ٹرین کے اندر بیٹھا یونان سے اپنے فرار کا منصوبہ تیار کر رہا ہے۔ اس تارکِ وطن کا کہنا ہے کہ وہ تین بار یونانی مقدونیائی سرحد پر اور ایک بار پورٹ آف پترس پر پکڑا گیا جب وہ ایک ٹرک میں چھپ کر آگے جانے کی کوشش کر رہا تھا۔
تصویر: DW/D. Tosidis
چھپنے کا وقت
سولہ سالہ جلوان 23 سال کے عبدالرحمن کو مال گاڑی کے نچلے حصے میں میں چھپنے میں مدد دے رہا ہے۔ یہ مال گاڑی ایک اسٹیشن پر انجنوں کی تبدیلی کے لیے رکی ہے۔ سکیورٹی گارڈز کے مطابق یہ وہ پہلی جگہ ہے جہاں سے مقدونین پولیس تلاش کا عمل شروع کرتی ہے۔
تصویر: DW/D. Tosidis
مہاجرین کی نامعلوم منزل
چونکہ مال برادر ریل گاڑیوں کا ٹائم ٹیبل پہلے سے طے نہیں ہوتا اس لیے ان پر سوار ہونے والے تارکینِ وطن کو یہ علم نہیں ہوتا کہ ٹرین انہیں کہاں پہنچائے گی۔ مہاجرین کی شمال میں ترجیحی سرحد کے بجائے کبھی کبھی یہ ایتھنز پہنچ جاتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
آخری ہدایات
الجزائر سے تعلق رکھنے والا ایک تارک وطن اپنے دوست کو آخری ہدایات دے رہا کہ دھات لے جانے والی مال گاڑی میں خود کو کس طرح چھپانا ہے۔
تصویر: DW/D. Tosidis
فرار کا راستہ
نوجوان تارکینِ وطن علاقے میں گشت پر مامور نجی سکیورٹی گارڈز سے چھپنے کے لیے ٹرین سے چھلانگ لگا رہے ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
اشیائے خورد و نوش کی فراہمی
تارکِ وطن محمد قریبی مہاجر کیمپ سے اپنے دوستوں کے لیے خوراک اور پانی لے کر جا رہا ہے جو پہلے سے ایک مال گاڑی میں چھپے ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
یونانی ریلوے کارکنوں نے بھی آنکھیں بند کر لیں
تھیسالونیکی کے ریلوے اسٹیشن پر مامور ریلوے کارکن دوپہر کے وقفے میں تاش کھیلتے ہیں۔ ایک ریلوے کارکن کا کہنا ہے،’’ ایک دن یہ تارکینِ وطن ٹرین میں چھپ کر جاتے ہیں اور اگلے ہی روز واپس آجاتے ہیں۔ گزشتہ موسمِ گرما سے یہ روز ہو رہا ہے۔ یہ خطرناک ہے لیکن اُن کو روکنے کے لیے ہم کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘
تصویر: DW/D. Tosidis
خطرے کا نشان
یونانی حکام نے عربی زبان میں ریلوے لائن کے اوپر سے گزرنے والی بجلی کی تاروں کے حوالے سے وارننگ سائن آویزاں کر رکھا ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایک الجیرین تارکِ وطن ٹرین پر کودنے کی کوشش میں کرنٹ لگنے سے ہلاک ہو گیا تھا۔