بوسنیا: مہاجرین کے بحران سے بچنا ہے تو یورپ مل کر کام کرے
7 جون 2018
بوسنیا کے وزیر داخلہ ڈریگن میکٹچ کا کہنا ہے کہ سن 2015 اور سن 2016 کی طرز کے مہاجرین کے بحران سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ یورپی یونین ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
اشتہار
یہ بات بوسنیائی وزیر داخلہ نے آج جمعرات کے روز اپنے ملک میں مہاجرین کی بڑھتی تعداد کے موضوع پر ہوئی ایک کانفرنس سے خطاب میں کہی۔ سراجیوو میں منعقدہ اس کانفرنس میں میکٹچ کا کہنا تھا،’’ ہمیں سن 2015 کے منفی تجربات سے بچنے کے لیے ایسے بحران سے انفرادی طور پر نہیں نمٹنا چاہیے۔‘‘
مارچ سن 2016 میں ترکی اور یورپی یونین کے درمیان مہاجرین سے متعلق معاہدے سے قبل بلقان روٹ پر دس ماہ کے عرصے میں ایک ملین سے زائد تارکین وطن نے سفر کیا تھا۔
اگرچہ تارکین وطن کی آمد میں کچھ کمی بھی آئی ہے تاہم یہ شرح بہت کم ہے۔
حالیہ کچھ ماہ میں ان افراد نے سربیا کے ساتھ ہنگری کے بارڈر پر لگی باڑھ عبور کرنے کی کوششوں کی بجائے بوسنیا کے راستے سفر شروع کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/E. Omic
بوسنیا سے یہ مہاجرین بہاچ شہر کے قریب سے بارڈر کراس کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر سربیا کی جانب سے مشرق کی طرف جانے کے بجائےکروشیا کے راستے شمال کی جانب سفر کرتے ہیں۔
اس کے باوجود پناہ کے متلاشی ان افراد کی زیادہ تعداد یورہی یونین کے ممالک کی طرف اپنا سفر جاری نہیں رکھتی اور یوں بوسنیا کی سرحد پر ان کے اکٹھے ہونے سے اس تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔
ابھی تین روز قبل ہی بوسنیا کے وزیر داخلہ ڈریگن میکٹچ نے کہا تھا کہ سن 2018 میں اب تک 5100 مہاجرین کے غیر قانونی داخلے رجسٹر کیے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں تین ہزار تین سو تارکین وطن ایسے بھی تھے سربیا اور مونٹینیگرو کے مابین سرحد پر ملک میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔
ص ح/ ڈی پی اے
برسلز میں مہاجرین سے یکجہتی کے لیے انسانی ہاتھوں کی زنجیر
برسلز نارتھ اسٹیشن پر ہزاروں مقامی افراد نے حکومت کی جانب سے مہاجرین کے خلاف کارروائی پر انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنا کر تارکین وطن سے یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ مظاہرے کی تصویری جھلکیاں اس پکچر گیلری میں ملاحظہ کیجیے۔
تصویر: WD/K. H. Farooqi
آخر کہاں جائیں
میر واعظ کا تعلق افغانستان سے ہے اور گزشتہ چار سال سے اس کی درخواست پر فیصلہ نہیں ہؤا۔ واعظ کا کہنا ہے کہ افغانستان شورش زدہ علاقہ ہے اور وہ واپس افغانستان نہیں جانا چاہتا۔ میر واعظ کو خوف ہے کہ اسے ملک بدر کر دیا جائے گا۔
تصویر: WD/K. H. Farooqi
رحم کی درخواست
لیبیا کے ایک تارک وطن سمی کا کہنا ہے کہ بیلجئیم کی حکومت اُس پر رحم کرے وہ خود بیلجئیم سے برطانیہ چلا جائے گا۔
تصویر: WD/K. H. Farooqi
خوفزدہ لیکن پُرامید
لیبیا سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی یہ دونوں تارکین وطن اگرچہ اپنے مستقبل کے حوالے سے فکر مند بھی ہیں اور کیمرے کے سامنے بات کرنے سے خائف بھی، تاہم مسکراتے ہوئے اس صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔
تصویر: WD/K. H. Farooqi
بچے بھی احتجاج میں شامل
مظاہرے میں بچوں کو ساتھ لانا ضروری تھا تاکہ وہ انسانیت کی مدد اور مجبور افراد کا ساتھ دینا سیکھ سکیں۔
تصویر: WD/K. H. Farooqi
مہاجرین کے خلاف کارروائی
مہاجرین کے خلاف کارروائی کے اوّلین مرحلے میں چھ سو تارکین وطن کو اسٹیشن اور اس کے اطراف سے گرفتار کیا جا رہا ہے۔ ان مہاجرین کا تعلق زیادہ تر شام، عراق، لیبیا، سوڈان اور افغانستان سے ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ انہیں جینوا کنونشن کے تحٹ پناہ اور ملازمت فراہم کی جائے۔
تصویر: WD/K. H. Farooqi
تضحیک نہ کریں
بیلجیم کے شہریوں نے مطالبہ کیا کہ مجبور، اور جنگوں کے ستائے ہوئے مہاجرین کو تحفظ فراہم کیا جائے نہ کہ پولیس کارروائی کے ذریعے ان کی تضحیک کی جائے۔
تصویر: WD/K. H. Farooqi
معاہدہ طے پا گیا
گزشتہ ایک سال سے بیلجیم کے وزیر داخلہ جان جمبو اور سیکریٹری برائے مہاجرت و پناہ فرانکن ان مہاجرین کے خلاف کاروائی کے خواہاں تھے۔ اب مقامی بلدیہ اور وفاقی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ طے پانے کے بعد وفاقی پولیس نے مہاجرین کے خلاف کاروائی کا آغاز کردیا ھے۔
تصویر: WD/K. H. Farooqi
جامعات کے طلبا بھی سراپا احتجاج
مظاہرے میں ہزاروں افراد اپنے بچوں کے ساتھ شریک ہوئے۔ جامعات کے طلبا اور طالبات نے بھی بڑی تعداد میں اس مظاہرے میں شرکت کی۔ اس تصویر میں ایک بچی کو مہاجرین کی تصویر بناتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔