بوسنیا: سرحدی شہروں کے حکام کا مہاجرین کے حق میں مظاہرہ
27 جولائی 2018
بوسنیا میں سرحدی شہروں کے کونسلروں اور میئر حضرات نے دارالحکومت سراجیوو میں مہاجرین کے حق میں مظاہرہ کیا ہے۔ ان شہری حکام کا کہنا ہے کہ حکومت کو سرحدی علاقوں میں موجود مہاجرین کی مدد کے لیے مزید اقدامات کرنا چاہیئیں۔
اشتہار
بوسنیا کی شمال مغربی سرحد پر واقع شہروں اور دیہات کے پچاس کے قریب سول حکام نے سراجیوو میں تارکین وطن کی حمایت میں مظاہرہ کیا۔ ان مظاہرین نے ہاتھوں میں بینر اٹھا رکھے تھے جن پر ایسے الفاظ درج تھے،’’ مہاجرین کے لیے انسانیت اور شہریوں کی سلامتی‘‘۔
مقامی حکومتوں کے متعدد نمائندوں کا کہنا تھا کہ وہ اپنے علاقوں میں پناہ لیے ہوئے پانچ ہزار کے قریب تارکین وطن کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن وسائل کی کمی اُن کے آڑے آ رہی ہے۔
ان مظاہرین نے کہا کہ بہت سے تارکین وطن خراب حالت میں خستہ حال عمارتوں یا ٹینٹوں میں رہنے پر مجبور ہیں، جنہیں بعض اوقات قبرستانوں میں شب بسری کرنی پڑتی ہے اور ان افراد کو بیت الخلا اور پانی کی جیسی بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں۔
بہاچ شہر کے میئر نے اس موقع پر کہا،’’ ہم اس مسئلے سے زیادہ عرصے تک نمٹ نہیں سکیں گے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ موسم خزاں تک مہاجرین کی تعداد تیرہ ہزار تک بڑھ جائے گی اور پھر صورت حال سنبھالنی مشکل ہو جائے گی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا،’’ ہمارا مسئلہ مہاجرین نہیں بلکہ یہ ہے کہ ہمیں اس سے تنہا ہی نمٹنا پڑ رہا ہے۔ حکومت کی طرف سے کچھ خاص مدد نہیں کی جا رہی۔ سردیوں کے آنے تک یہ مہاجرین زیادہ مشکلات میں مبتلا ہو جائیں گے۔‘‘
بوسنیا کے سرحدی قصبے ویلیکا کلاڈوسا کے مضافات میں قائم ایک عارضی مہاجر کیمپ میں مقیم ایک افغان تارک وطن سلیم خان نے روئٹرز کو بتایا کہ اسے کئی بار کروشیا کی سرحد سے واپس کیا گیا ہے۔
بیس سالہ خان کا کہنا تھا،’’ آخری بار انہوں نے میرا فون اور پیسے بھی لے لیے۔ اب مجھے کچھ عرصہ اور یہاں رکنا ہو گا۔‘‘ سلیم نے بتایا کہ وہ ترکی، بلگاریہ اور سربیا کے راستے چار سال تک سفر کرنے کے بعد بوسنیا پہنچا تھا۔
حالیہ کچھ ماہ میں تارکین وطن نے سربیا کے ساتھ ہنگری کے بارڈر پر لگی باڑھ عبور کرنے کی کوششوں کی بجائے بوسنیا کے راستے سفر شروع کر رکھا ہے۔
بوسنیا سے یہ مہاجرین بہاچ شہر کے قریب سے بارڈر کراس کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر سربیا کی جانب سے مشرق کی طرف جانے کے بجائےکروشیا کے راستے شمال کی جانب سفر کرتے ہیں۔
اس کے باوجود پناہ کے متلاشی ان افراد کی زیادہ تعداد یورہی یونین کے ممالک کی طرف اپنا سفر جاری نہیں رکھتی اور یوں بوسنیا کی سرحد پر ان کے اکٹھے ہونے سے اس تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔
ص ح / ع ت / روئٹرز
سربیا میں مہاجرین سے جڑی معیشت ابھرتی ہوئی
سربیا میں مہاجرین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور مہاجرین سے جڑے کاروبار میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سربیائی باشندے مہاجر کیمپوں میں جا کر انہیں ضرورت کی اشیاء فروخت کر رہے ہیں۔ سربیا سے ڈیاگو کوپولو کی تصاویر۔
تصویر: DW/D. Cupolo
بس سروس
ٹرانسپورٹ کا کاروبار اس بلقان ملک میں انتہائی تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ تصویر میں آپ کوسووو سے تعلق رکھنے والے ایک البانوی باشندے کو دیکھ سکتے ہیں جو پریسیوو کے مہاجر کیمپ کے باہر کھڑا ہو کر کروشیا جانے کے خواہش مند مہاجرین کو پینتیس یورو کا بس ٹکٹ بیچ رہا ہے۔ بزازلی نامی اس شخص کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بارٹینڈنگ کی نوکری میں یومیہ آٹھ یورو کماتا ہے جب کہ بس ٹکٹ بیچ کر وہ یومیہ ستر یورو تک کما لیتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ایک دوسرے کی مدد
بزازلی کا تاہم کہنا ہے کہ وہ اپنے نئے کاروبار پر فخر نہیں کرتا اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ ضرورت مند مہاجرین، بالخصوص بچوں والے خاندانوں کو مفت بس سروس بھی دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے، ’’میں بھی کبھی مہاجر تھا۔ مہاجرین کے لیے بس سروس مفت ہونی چاہیے۔ یورپ مہاجرین کی مدد کے لیے سربیا کو مالی امداد دے رہا ہے، مگر ہماری حکومت کچھ زیادہ نہیں کر رہی۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
طلب و رسد
مہاجرین کے کیمپوں کے قریب دکانوں کا کاروباری وقت بھی بڑھ گیا ہے۔ روزانہ آٹھ سے دس ہزار مہاجرین سربیا آ رہے ہیں۔ پریسیوو میں اشیائے خور و نوش کی دکانیں اور ریستواران گاہکوں سے بھرے پڑے ہیں، اور بعض دکان داروں نے قیمتیں دگنی، تگنی کر دی ہیں۔ بزازلی کا کہنا ہے، ’’میں نے آج تک سربیا میں اتنا مہنگا ہیم برگر فروخت ہوتے نہیں دیکھا۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
سِم کارڈز سے لے کر ریڑھی تک
جو پہلی چیز مہاجرین یورپ آ کر خریدتے ہیں وہ موبائل فون کا سِم کارڈ ہوتی ہے۔ اس کی ضرورت انہیں اپنے وطن میں رشتہ داروں اور دوستوں سے رابطہ کرنے کے لیے پڑتی ہے۔ اس باعث مہاجرین کے کیمپوں میں ’پری پیڈ‘ سِم کارڈ بیچنے والوں کی بھیڑ لگی ہوتی ہے۔ ساتھ ہی ان افراد کی بھی جو ریڑھیاں لیے عمر رسیدہ مہاجرین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں، جیسا کہ اس تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
جوتا فروش
یورپ میں سردی تقریباً آ چکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی مہاجرین کو گرم اور مضبوط جوتوں کی اشد ضرورت پڑ گئی ہے۔ ایسے میں جوتے بیچنے والے سربیائی باشندے کہاں پیچھے رہتے!
تصویر: DW/D. Cupolo
دستاویزی ضروریات
مہاجرین کو یورپی ممالک میں رجسٹر کیا جا رہا ہے تاکہ ان کے کوائف اکھٹے کیے جا سکیں۔ پریسیوو میں موجود ایک رضاکار دانیالا گابیرئل کے مطابق بس ڈرائیور کروشیا جانے والے مہاجرین سے رجسٹریشن سے متعلق دستاویز حاصل کر لیتے ہیں جنہیں وہ بھر بعد میں ان مہاجرین کو بیچتے ہیں جو لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا نہیں چاہتے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
رشوت خوری
بزازلی تسلیم کرتا ہے کہ اس کو پریسیوو کے مہاجر کیمپ کے باہر بس ٹکٹ بیچنے کے لیے پولیس کو ہفتے کے سو یورو دینا پڑتے ہیں۔ وہ کہتا ہے، ’’ان کو اگر وہ دے دو جو وہ چاہتے ہیں تو وہ آپ کو تنگ نہیں کرتے۔‘‘ بہت سے افراد نے ٹیکسی ڈرائیوروں کو بھی پولیس کو رشوت کھلاتے دیکھا ہے۔ تاہم ایک رضاکار کا کہنا ہے، ’’اس کا مطلب یہ نہیں کہ تمام پولیس والے رشوت لیتے ہیں۔‘‘