بوسنیا کے لیے مہاجرین کا بوجھ ناقابل برداشت ہونے لگا
4 جون 2018
یورپ کے اقتصادی طور پر کمزور ممالک میں سے ایک ملک بوسنیا کے پاس مہاجرین کے بہاؤ سے نمٹنے کے لیے وسائل کی بے حد کمی ہے۔ امدادی کارکنان کو خدشہ ہے کہ اس باعث یہ چھوٹا سا ملک انسانی بحران کے دہانے پر پہنچ سکتا ہے۔
سن 2018 میں اب تک 5100 مہاجرین کے غیر قانونی داخلے رجسٹر کیے گئے ہیںتصویر: DW/R. Shirmohammadi
اشتہار
معاشی لحاظ سے کمزور مشرقی یورپی ملک بوسنیا میں مہاجرین کی آمد میں واضح اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ان میں زیادہ تعداد ایسے نوجوان افراد کی ہے جو بوسنیا کے پڑوسی ملک کروشیا کے راستے یورپی یونین کی حدود میں داخل ہو نا چاہتے ہیں۔
تاہم شکستہ بنیادی ڈھانچے،کمزور اداروں اور تقریباﹰ نہ ہونے کے برابر فنڈز کے ساتھ بوسنیا اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں۔
مہاجرین کے لیے کام کرنے والی امدادی تنظیموں کے ارکان کا کہنا ہے کہ اُن کے لیے بھی امدادی کاروائیاں جاری رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ امدادی تنظیم ریڈ کراس کے ایک اہلکار سلام میڈجچ کے بقول،’’یہ تھکا دینے والا ہے۔ ہم سے جو بن پڑا ہم کریں گے لیکن ہم بھی ایک حد تک ہی مدد کر سکتے ہیں۔‘‘
سلام میڈجچ کے مطابق وہ ہر روز سراجیوو سے بسوں پر سو کے قریب مہاجرین آتے دیکھ رہے ہیں۔ بوسنیا میں سلامتی کے وزیر ڈریگن میکٹچ کا کہنا ہے کہ سن 2018 میں اب تک 5100 مہاجرین کے غیر قانونی داخلے رجسٹر کیے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں تین ہزار تین سو تارکین وطن ایسے بھی تھے سربیا اور مونٹینیگرو کے مابین سرحد پر ملک میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
ان تارکین وطن میں بچے اور خاندان بھی شامل ہیں لیکن زیادہ تعداد نوجوان تارکین وطن کی ہے۔ چھبیس سالہ پاکستانی تارک وطن نواب، جو اپنا مکمل نام ظاہر نہیں کرنا چاہتا، نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ دو سال سے سفر کر رہا ہے۔ نواب نے بتایا،’’میں آج رات بارڈر پار کرنے کی کوشش کروں گا۔ پہلے میں اٹلی جاؤں گا اور پھر اسپین، جہاں میرے چچا رہتے ہیں۔‘‘ ایک اور پاکستانی مہاجر ستائیس سالہ حامد کا کہنا تھا کہ اس نے تین بار سرحد عبور کر کے کروشیا جانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔
عالمی ادارہ مہاجرت کے بوسنیا میں مشن کے سربراہ پیٹر فان ڈیئر آورائیرٹ کا کہنا ہے کہ بوسنیا میں اس وقت ڈھائی ہزار کے قرین پناہ گزین ہیں جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ زیادہ تر مہاجرین سرحد پار کر کے یورپی یونین کے رکن ممالک میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
فان ڈیئر آورائیرٹ کے مطابق مہاجرین کے حوالے سے بوسنیا میں صورت حال خراب ہو رہی ہے۔ آئی او ایم کے بوسنیا مشن کے سربراہ کے بقول،’’جب مہاجرین یہاں پہنچتے ہیں تو وہ تھکے ماندے ہوتے ہیں۔ حکومت کو ان کی رہائش کے مناسب انتظامات کرنے چاہیئں۔‘‘
ص ح/ اے ایف پی
ہجرت کا سب سے تکليف دہ پہلو، ماہ رمضان ميں اکيلے پن کا احساس
بلقان روٹ کی بندش کے بعد مہاجرين کی اکثریت ليبيا کے راستے آج کل يورپ پہنچ رہی ہے، جہاں ان کی پہلی منزل اٹلی ہوتی ہے۔ ايک نيا ملک، نئی زبان اور نيا سماج، جانيے اٹلی کے جزيرے سسلی پر مسلمان مہاجرين رمضان کيسے گزار رہے ہيں۔
تصویر: DW/D.Cupolo
انجان ملک ميں روزے رکھنا
رواں سال اب تک جتنے پناہ گزين يورپ پہنچے ہيں، ان کی پچاسی فيصد تعداد اٹلی ميں موجود ہے۔ ان میں سے اکثريت کا تعلق مسلم ممالک سے ہے اور ہزاروں کے ليے ايک انجان ملک اور معاشرے ميں يہ ان کا پہلا رمضان ہے۔ رمضان ميں مذہبی ذمہ داريوں کو پورا کرنے کے سلسلے ميں مہاجرين کو سماجی مسائل کا سامنا ہے کيونکہ يہ سب ان کے ليے بالکل نيا ہے۔ تاہم سسلی ميں کتانيا کی مسجد الرحمان بہت سوں کے ليے سکون کی آغوش ہے۔
تصویر: DW/D.Cupolo
يورپی طور طريقے سيکھنا
رمضان ميں سورج طلوع ہونے سے غروب ہونے تک کھايا، پيا نہيں جا سکتا ليکن روزے کا مقصد صرف يہی نہيں۔ مسلمان اس ماہ زيادہ سے زيادہ نيکياں کمانے کی کوشش کرتے ہيں۔ نائجيريا سے اٹلی پہنچ کر سولہ سالہ گلاڈيما کو احساس ہوا کہ يہاں کا طرز زندگی کس قدر مختلف ہے۔ اس نے کہا، ’’یورپ کے بارے ميں سب سے حيران کن بات يہ ہے کہ آپ کئی ماہ تک ان ہی افراد کو سڑکوں پر ديکھ سکتے ہيں ليکن آپ ان کے نام تک نہيں جان سکتے۔‘‘
تصویر: DW/D.Cupolo
طويل روزے
مسلم ممالک سے پہلی دفعہ يورپ ميں آنے والے ان پناہ گزينوں کے ليے ایک بڑی تبديلی يہاں کا معاشرہ ہی نہيں بلکہ يہاں کا جغرافيہ بھی ہے۔ خطِ استوا سے زيادہ فاصلے کا مطلب ہے کہ یہاں گرمیوں میں دن کا دورانيہ زيادہ طويل ہوتا ہے اور نتيجتاً روزے کا دورانيہ بھی۔ گلاڈيما کہتا ہے، ’’ميں يہ سوچ بھی نہيں سکتا تھا کہ کوئی رات تين بجے سے اگلے دن رات آٹھ بجے تک روزہ رکھے۔ اب ميں اتنا طويل روزہ رکھ رہاں ہوں۔‘‘
تصویر: DW/D.Cupolo
بڑھتی ہوئی بنگلہ ديشی برادری
براعظم افريقہ کے مختلف حصوں سے پناہ گزين يورپ پہنچنے کے ليے ليبيا کا راستہ اختيار کرتے آئے ہيں۔ اطالوی وزارت داخلہ کے مطابق اب بڑی تعداد ميں بنگلہ ديشی تارکين وطن بھی يہی راستہ اختيار کر رہے ہيں۔
تصویر: DW/D.Cupolo
مختلف زبانوں ميں قرآن دستياب
سسلی بحيرہ روم کا سب سے بڑا جزيرہ اور اٹلی کا خود مختار علاقہ ہے۔ دنيا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے مہاجرين کی آمد کے تناظر ميں وہاں مسجد الرحمان کے مولوی نے مختلف زبانوں ميں قرآن پاک کی دستيابی کو يقينی بنايا ہے۔ مراکش نژاد مولوی بتاتے ہيں کہ ان کی مسجد ميں نماز ادا کرنے کے ليے دنيا بھر سے ہر شہريت کے لوگ آتے ہيں۔
تصویر: DW/D.Cupolo
مختلف ثقافت و سماج
’’مسجد ميں ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ رمضان ہے ليکن جب ميں سڑکوں پر ہوتا ہوں، تو لگتا ہے کہ يوں ہی کوئی عام سا دن ہے،‘‘ اٹھائيس سالہ پاکستانی تارک وطن خان کہتا ہے۔ اس کے بقول يہاں کا معاشرہ بہت مختلف ہے اور بالکل اسلامی نہيں۔ وہ مزيد کہتا ہے، ’’ميں مسيحی نہيں ليکن جب تک ہم سب ايک دوسرے کے ساتھ محبت اور احترام کے ساتھ پيش آتے رہيں، اس سے کوئی فرق نہيں پڑتا کہ آپ کس مذہب کے ماننے والے ہيں۔‘‘
تصویر: DW/D.Cupolo
فراغت نہ ہونے کے برابر
جنوبی اٹلی ميں عام طور پر دکانيں شام کے وقت جلد بند ہو جاتی ہيں۔ سہ پہر کے وقت کھانے کا وقفہ بھی معمول کی بات ہے۔ اس کے برعکس بنگلہ ديشی دکان دار زيادہ دير تک کام کرتے رہتے ہيں، خواہ کوئی بھی موسم اور کوئی بھی وقت ہو۔ پچيس سالہ مومن معتوبر کہتا ہے، ’’ہم تھکے ہوئے ہوں تو بھی اپنی دکان کھلی رکھتے ہيں اور کام کاج کرتے رہتے ہيں۔ رمضان ميں بھی يہ معمول مشکل نہيں کيونکہ يہ تو ہمارا مذہب ہے۔‘‘
تصویر: DW/D.Cupolo
روايتی کھانے اور افطار
بہت سے تارکين وطن کے ليے رمضان ايک وقت بھی ہوتا ہے جب وہ اپنے آبائی علاقوں کے کھانے اور روايتی اسلامی طريقہ ہائے کار سے افطار کرنا چاہتے ہيں۔ ليکن سماجی انضمام کو فروغ دينے کے ليے کام کرنے والے اسمائيل جامع کا کہنا ہے کہ بيرون ملک رمضان کا مطلب يہ بھی ہے کہ لوگ نئے کھانے اور نئی روايات کو موقع ديں۔
تصویر: DW/D.Cupolo
برکتوں کے مہينے ميں اکيلے پن کا احساس
ليبيا کے راستے حال ہی ميں اٹلی پہنچنے والے نوجوان مالا کا کہنا ہے، ’’آج کل رمضان جاری ہے۔ جب ميں اپنے گھر کو ياد کرتا ہوں تو خود کو بہت اکيلا محسوس کرتا ہوں۔‘‘ مالا کا يہ اپنے اہل خانہ کے بغير پہلا رمضان ہے۔ وہ کہتا ہے، ’’ہم تو يہاں آمد پر ہی اجنبی ہيں ليکن اس ہجرت کا سب سے تکليف دہ پہلو اکيلے پن کا احساس ہے۔‘‘