بولنے میں مشکل ڈمنشیا کی علامت ہو سکتی ہے
1 اکتوبر 2012ڈمنشیا یا خرف طب کی زبان میں ایک ایسے مرض کو کہتے ہیں جس میں یادداشت، سوچنے، گفتگو کرنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت رفتہ رفتہ متاثر ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ اس میں نقص پیدا ہو جاتا ہے۔ یعنی ایسے مریض جن میں بھول و نسیاں کی کیفیت پائی جائے اور ان میں روز مرہ کے دماغی کام انجام دینے کی صلاحیت باقی نہیں رہ جاتی انہیں ڈمنشیا یا خرف کا مریض کہا جاتا ہے ۔ تاہم طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ خرف یا ڈمنشیا کے مرض کی علامات محض بھول و نسیاں نہیں سمجھنی چاہیے بلکہ اس عارضے کی اولین علامات کا تعلق گفتگو یا بات چیت میں پیدا ہونے والےنقص سے ہے۔
چابیاں کھو دینا، دور کے کسی رشتے دار کا نام بھول جانا اور ان جیسی دیگر علامات ہی ڈمنشا یا خرف کے مرض کا پتہ نہیں دیتیں بلکہ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب کوئی شخص گفت و شنید میں حصہ لینا بند کر دے یا کسی کو بات چیت کے دوران مناسب الفاظ یاد نہ آ رہے ہوں تو یہ دراصل بھول و نسیاں کے اس مرض کی اولین علامت سمجھنا چاہیے۔
جرمن شہر آخن سے تعلق رکھنے والے ایک جرمن ماہر نفسیات پروفیسر گیورگ شُلزکا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کو ڈمنشیا کے مرض کی درست تشخیص مختلف عوامل کی بنیاد پرکرنی چاہیے۔ اُن کے بقول ڈمنشیا کے مرض کو دیگر بیماریوں سے مشخص کرنا بہت ضروری ہے۔ پروفیسر گیورگ شُلز کے مطابق زندگی کے معمول سے دلچسپی کم ہو جانے کی ایک وجہ ڈپریشن بھی ہو سکتی ہے۔
عموماٍ اس قسم کی علامات ظاہر ہونے کے بعد مریض سب سے پہلے جنرل فزیشین یا عام ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں پھر مریضوں کو ماہر نفسیات یا عصبیات دان کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ جرمن ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ جب الزائمر کی بیماری کی تشخیص ہو جائے تو سب سے پہلے مریض اور اُس کی فیملی کو مطلع کیا جانا چاہیے نیز یہ کہ مریض کو یہ اجازت ہونی چاہیے کہ وہ جسے چاہے اپنی اس بیماری کے بارے میں بتائے اور جس سے چاہے اسے چھپائے، کم از کم اس عارضے کے ابتدائی مراحل میں۔
ڈمنشیا کی علامت ظاہر ہوتے ہی گھر والوں کو چاہیے کہ اس کے بارے میں وسیع حلقہ احباب میں آ گاہی پیدا کریں اور اس طرح ایک ممکنہ نیٹ ورک تشکیل دیا جانا چاہیے،جو ایسے مریض کی دیکھ بھال میں معاونت کر یں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈمنشیا کا مرض ایک بار جنم لے لے تو پھر یہ بہت تیزی سے بڑھتا ہے اور اس کے کافی بڑھ جانے کے بعد اسے پوشیدہ رکھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ الزائمر کے مریضوں کے رشتہ داروں کو چاہیے کہ وہ ان مریضوں کے بیانات کو بار بار درست کرنے کی کوشش نہ کریں اور نہ ہی ان کے رویے کو صحیح کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اس طرح مریض کے احساسات مجروح ہوتے ہیں اور وہ مزید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر شُلز کے بقول گفتگو میں نقص یا الفاظ بھول جانے والے مریضوں کی یادداشت واپس لانے کے لیے ابتدائی طور پر وہی طریقہ کار بروئے کار لایا جانا چاہیے جو بچپن یا ابتدائی عمر میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ڈمنشیا کے مریضوں سے کبھی بھی حالیہ واقعات کے بارے میں سوالات نہیں کرنے چاہییں مثلاً ایسے مریض سے یہ نہیں پوچھنا چاہیے کہ اُس نے گزشتہ شب کیا کھایا تھا۔ کیونکہ ایسے مریضوں کی شارٹ ٹرم یا قلیل المیعاد یادداشت سب سے پہلے ختم ہو جاتی ہے۔
km/ai (dpa)