بولیویا کی سابق صدر کو دس برس قید کی سزا سنا دی گئی
11 جون 2022
بولیویا کی ایک عدالت نے سابق صدر انیّز کو "آئین کے خلاف فیصلے کرنے" اور "فرائض سے غفلت برتنے" کے جرم میں قید کی سزا سنا دی۔ تاہم سابق صدر نے اپنے پیشرو کے استعفیٰ کے بعد کے اقدامات کا دفاع کیا ہے۔
اشتہار
جنوبی امریکی ملک بولیویا کی ایک عدالت نے دس مئی جمعے کے روز اپنے ایک اہم فیصلے میں ملک کی سابق صدر جینینے اینّز چاویز کو سن 2019 میں بغاوت کرنے کا قصوروار ٹھہرا تے ہوئے انہیں دس برس قید کی سزا سنا دی۔
چون سالہ سابق صدر اینّز کو "آئین کے خلاف فیصلے" کرنے اور اپنے "فرائض سے غفلت برتنے" کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔ استغاثہ کا کہنا تھا کہ محترمہ انیّز نے سن 2019 کے صدارتی انتخابات کے بعد ان ملکی اصولوں کی خلاف ورزی کی، جو "آئین اور جمہوری نظام کی ضمانت دیتے ہیں۔"
سن 2019 کے صدارتی انتخابات کے بعد جینین انیّز ملکی پارلیمنٹ کی سب سے سینیئر رکن تھیں اور اس وقت صدر ایوو موریلس کے مستعفی ہونے کے بعد وہ صدر کے عہدے پر فائز ہوئی تھیں۔
سابق صدر موریلس اس وقت تک تقریباً 14 برس تک بولیویا پر حکمرانی کر چکے تھے اور اکتوبر 2019 میں متنازعہ انتخابی نتائج کے بعد فوج اور عوام کے دباؤ کے تحت انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
انیّز 2021 سے حراست میں ہیں
سابق صدر انیّز کو مارچ 2021 میں دہشت گردی، بغاوت اور سازش جیسے الزامات کے تحت حراست میں لے لیا گیا تھا، تب سے وہ قید میں ہیں اور انہیں مقدمے کی سماعت کے دوران عدالتی کارروائی میں ذاتی طور پر شرکت کی بھی اجازت نہیں دی گئی اور وہ جیل سے ہی مقدمے کی پیروی کرتی رہیں۔
اشتہار
انیّز نے جج کے سامنے اپنے آخری بیان میں کہا، "میں نے تو صدر بننے کے لیے انگلی تک نہیں اٹھائی، لیکن اس وقت وہی کیا جو مجھے کرنا چاہیے تھا۔ میں نے آئینی ذمہ داریوں کے مطابق عہدہ صدارت سنبھالا۔"
مبصرین اس بات کے خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ اس مقدمے کا حریف جماعتوں کے درمیان سیاسی انتقام کے ایک کھیل میں تبدیل ہونے کا خطرہ لاحق رہا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ' کے ایک سینیئر محقق سیزر منوز کا کہنا تھا کہ وہ پہلے ہی سے، "اس بارے میں فکر مند تھے کہ آخر اس کیس کی پیروی کس انداز کی گئی۔"
سیزر منوز کا مزید کہنا تھا کہ وہ ملک کی، "اعلیٰ عدالتوں سے اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ عدالتی کارروائی آخر کس طرح سے کی گئی۔"
بولیویا کا سیاسی بحران
سن 2019 کے صدارتی انتخابات کے بعد بولیویا کو اس وقت بڑے مظاہروں نے ہلا کر رکھ دیا جب مظاہرین نے سوشلسٹ رہنما ایوو موریلس پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا۔ یہ ان کا چوتھی مدت کے لیے انتخاب تھا۔
بعد میں امریکی ریاستوں کی تنظیم او ایس نے تقریباً 100 صفحات پر مشتمل اپنی ایک رپورٹ میں انتخابی خلاف ورزیوں کو تفصیل سے واضح کیا تھا۔ اس وقت موریلس نے اس "سول بغاوت" کے خلاف تنقید کی تھی جس کی وجہ سے انہیں صدارتی انتخابات کے بعد استعفیٰ دینا پڑا تھا۔
قدامت پسند خیالات کی حامل انیّز اس وقت سینیٹ کی نائب صدر تھیں اور انہوں نے سابق صدر کے استعفے کے دو دن بعد خود اقتدار سنبھال لیا۔ ان کا یہ قدم آئین میں صدر کی جانشینی سے متعلق جو اصول ہیں، اس کے مطابق تھا۔ تاہم بائیں بازو کی جماعت نے اسے تسلیم نہیں کیا۔
محترمہ انیّز نے اس وقت کہا تھا کہ ان کا مقصد ملک کو نئے اور شفاف انتخابات کرانے میں مدد کرنا ہے اور وہ صدارتی انتخاب نہیں لڑیں گی۔ تاہم انہوں نے جب جنوری 2020 میں اپنی امیدواری کا اعلان کیا تو لوگ برہم ہو گئے۔
اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد ہونے والے مظاہروں پر بھی اینّز نے بڑے پیمانے پر سخت تنقید کی۔ مظاہروں کے دوران سیکورٹی فورسز بد امنی پھیلانے کے الزام میں فائرنگ کی جس میں 20 افراد ہلاک ہو گئے۔
لیکن 2020 کے انتخابات میں موریلس کی پارٹی پھر سے اقتدار میں واپس آئی اور اس نے انیّز پر موریلس کے خلاف بغاوت میں کلیدی کردار ادا کرنے کا الزام عائد کیا۔
ص ز/ ع ب (اے ایف پی، روئٹرز)
جمہوریت اور آزادی کے لیے دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج
2019ء کے دوران دنیا کے مختلف حصوں میں لوگ بدعنوانی، غربت، معاشرتی عدم مساوات، نسلی امتیاز اور تحفظ ماحول کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ تبدیلی لانے کی شدید خواہش دنیا بھر میں لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ رہی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Casarez
ہیٹی: ’ہمارے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں کیا جاتا‘
ہیٹی میں گزشتہ کئی مہینوں سے احتجاج کے دوران مظاہرین صدر جوونیل موئیز سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہیٹی کی حکومت کو بدعنوانی کے متعدد الزامات کا سامنا ہے۔ عام شہریوں کو ہسپتالوں اور تعلیم و تربیت تک رسائی نہ ہونے کے ساتھ ساتھ کم خوراکی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی اشرافیہ کے خلاف عوامی غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہیٹی مغربی کرہ کا غریب ترین ملک ہے۔
تصویر: Reuters/V. Baeriswyl
چلی: ناانصافی کے خلاف مزید برداشت نہیں‘
اکتوبر کے آخر سے چلی میں مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہرین اصلاحات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ان مظاہروں کے دوران اکثر ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Silva
بھارت: ’قانون، جو ملک کو تقسیم کر سکتا ہے‘
پھل فروش محمد انس قریشی بھارت میں شہریت کے متنازعہ ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں شریک ہیں۔ یہ قانون تین ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی مہاجرین کی بھارتی شہریت کے حصول کو آسان بناتا ہے۔ تاہم شرط یہ ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے یہ مہاجرین مسلمان نہ ہوں۔ ان مظاہروں میں اب تک بیس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
عراق: آخری دم تک ساتھ دینے کا وعدہ‘
عراق میں اکتوبر سے بدعنوانی اور ایران نواز حکومت کے خلاف جاری مظاہروں میں چھیاسٹھ سالہ ام مہدی بھی شریک ہیں۔ اب تک ان مظاہروں میں ساڑھے چار سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ وزیر اعظم عبدل عادل مہدی کا استعفی بھی اس احتجاج کی شدت کو کم نہیں کر سکا۔ مظاہرین سیاسی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
ایران: ’اقتصادی صورتحال انتہائی خراب‘
نومبر میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والے مظاہروں کے دوران ایران میں کم از کم پندرہ سو افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ احتجاج میں شریک یہ شخص اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے گولیوں کے خول ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ یہ مظاہرے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
ہانگ کانگ : ’حکومت ہمارے مطالبے تسلیم کرے‘
ہانگ کانگ میں احتجاج میں شریک یہ دونوں خود کو لبرٹی گرل اور لٹل برادر کہتے ہیں۔ چین کا خصوصی انتظامی علاقہ ہانگ کانگ آج کل شدید ترین سیاسی بحران کا شکار ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف یہ مظاہرےجون سے جاری ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
فرانس: ’صرف امیروں کا تحفظ‘
دیدیئر بیلاک فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کی تجویز کردہ اصلاحات کے خلاف مظاہروں میں شریک ہیں۔ اس احتجاج اور ہڑتال کی وجہ سے ٹرینوں اور میٹرو کی آمد و رفت خاص طور پر متاثر ہوئی ہے۔ ابھی تک اس بحران کا کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا۔ گزشتہ برس موسم سرما میں بھی ’زرد جیکٹ‘ نامی احتجاج کے دوران ماکروں کے اصلاحاتی ایجنڈے پر شدید تنقید کی جا چکی ہے۔
تصویر: Reuters/B. Tessier
بولیویا: ’حکومت ہمارے وطن کو فروخت کر رہی ہے‘
ریویرا زمپانو نے مستعفی ہونے والے ملکی صدر ایوو مورالیس کے دیگرحامیوں کے ساتھ مل کر سڑک کی ناکہ بندی کی تھی۔ مورالیس کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جانے کے خلاف کئی ہفتوں تک مظاہرے کیے گئے تھے۔ تاہم ان مظاہرین کے برعکس زمپانو کا موقف ہے کہ بولیویا کی عبوری حکومت ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
تصویر: Reuters/M. Bello
کولمبیا:’ انقلاب کے بعد ہی تبدیلی‘
اندریس فیلیپے نے دسمبر کے اوائل میں ملکی سربراہ مملکت ایوان دوکے کے خلاف ہونے میں مظاہروں میں شرکت کی۔ مظاہرین سماجی شعبے میں منصفانہ پالیسیوں، تعلیم و تربیت کے لیے مزید رقم مختص کرنے اور صحت کے بہتر نظام کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کے بہتر تحفظ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا ایک مطالبہ سابقہ فارک باغیوں کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد بھی تھا۔
تصویر: Reuters/L. Gonzalez
لبنان:’ گزشتہ تیس برسوں سے یہ ہمیں لوٹ رہے ہیں‘
اکتوبر سے لبنان میں گاہے بگاہے مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔ یہ لوگ بدعنوانی اور غلط اقتصادی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوئے۔ وزیر اعظم سعد الحریری کے مستعفی ہونے کے بعد بھی حبا غوسن جیسے شہری نئے نامزد کردہ حکومتی سربراہ حسن دیاب کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ حسن دیاب کو شیعہ تنظیم حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے۔