’بول‘ اب کیا ہو گا
19 مئی 2015وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کے حکام سے کہا ہے کہ وہ اس معاملے کی چھان بین کریں۔ وزارت داخلہ کے بیان کے مطابق، ’’ایف آئی اے سے کہہ دیا گیا ہے کہ وہ نیو یارک ٹائمز میں چھپنے والی رپورٹ کے بارے میں تفتیش کرے اور معلوم کرے کہ آیا یہ کمپنی اس طرح کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث رہی ہے یا نہیں۔‘‘
ایف آئی اے کے ڈائریکٹر شاہد حیات کے مطابق ایکس ایکٹ کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ مقامی ذرائع نے ایف آئی اے کی دو مختلف ٹیموں کی جانب سے ایکس ایکٹ کے کراچی اور راولپنڈی میں واقع دفاتر پر چھاپوں کی تصدیق کی ہے اور بتایا ہے کہ اس دوران کمپیوٹرز کے علاوہ بہت سی دستاویزات بھی قبضے میں لیے لی گئیں۔ رپورٹوں کے مطابق راولپنڈی کے دفتر سے اس کمپنی کے 25 ملازمین کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ایکس ایکٹ نے دنیا بھر میں جعلی ڈگریاں فروخت کر کے لاکھوں ڈالر کمائے ہیں۔ اس کمپنی نے ایسی ڈگریاں بھی جاری کیں، جن پر امریکی محکمہ خارجہ کے امتیازی نشانات اور وزیر خارجہ جان کیری تک کے دستخط موجود ہیں۔ مزید یہ کہ ایکس ایکٹ ’کولمبیانا‘ اور ’بارکلے‘ جیسے ناموں سے مختلف جامعات کی ایسی 370 ویب سائٹس بھی چلا رہی ہے، جو جعلی تعلیمی اسناد جاری کرنے میں اس کمپنی کی مدد کرتی ہیں۔
ایکس ایکٹ بہت جلد ہی ’بول‘ کے نام سے پاکستان کا سب سے بڑا ٹی وی چینل بھی شروع کرنے والی ہے۔ اس سلسلے میں ’بول‘ نے پڑے پیمانے پر بھرتیاں بھی کر رکھی ہیں اور ان میں پاکستانی صحافتی شعبے کے بڑے بڑے نام شامل ہیں۔ ایکس ایکٹ اور اس کے سی ای او شعیب احمد شیخ سے جب ان الزامات کے بارے میں رابطہ کیا گیا تو ان کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہ آیا۔ تاہم ایکس ایکٹ کی ویب سائٹ پر جاری کردہ ایک بیان میں ایسے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ ’بول‘ کے مطابق نیو یارک ٹائمز کی اس رپورٹ کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
ایف آئی اے کے ایک اہلکار نے اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ نیو یارک ٹائمز کی جانب سے لگائے جانے والے یہ الزامات پاکستانی قوانین کے مطابق جرم ہیں اور یہ جرم ثابت ہونے پر سات سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔