بونیر: طالبان نے پیر بابا کے مزار کو تالا لگا دیا
11 اپریل 2009خودکش حملوں ، بم دھماکوں اورسرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے بعدعسکریت پسندوں میں موجود بعض عناصر مخصوص نظریاتی اورمذہبی سوچ پھیلانے کیلئے متحرک ہوچکے ہیں مخصوص نظریے کے حامی ان لوگوں نے ضلع بونیر میں صدیوں پرانی مذہبی شخصیت سید علی ترمذی المعروف پیر بابا کے مزار کوتالے لگواکر عوام کواس سے دور رہنے کی ہدایت کی ہے جبکہ مزار میں صدیو ں پرانے خطوط کونذرآتش کرنے کے ساتھ کلموں سے مزین بورڈ بھی اتاردیئے گئے۔
اگرچہ گزشتہ روز بونیر پر لشکر کشی کرنے والے طالبان مذاکرات کے بعد واپس سوات چلے گئے تاہم انہوں نے مقامی طالبان کو اس طرح کے اقدامات کی ہدایت کی ہے۔
مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ طالبان نے مزار کے آس پاس علاقوں سمیت سلطان کس اوربھٹی پر بھی قبضہ کررکھاہے۔ طالبان نے انہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے بونیر قومی لشکر کے مقامی سربراہ فتح خان کے گھر پر بھی قبضہ کیاہے جوانہوںنے کئی روز قبل خالی کیاتھا۔
مقامی طالبان نے لوگوں کو خبردارکیاہے کہ مزار اور اس سے ملحقہ مسجد صرف نماز کیلئے کھولےجائیں گے۔ انہوں نے خواتین کو گھروں تک محدود رہنے اور دکانداروں کو منشیات اورموسیقی کا کاروبار ترک کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔
یہ واقعات ایسے وقت میں رونماہورہے ہیں جب صوبائی حکومت تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولاناصوفی محمد کو سوات میں رہنے پرآمادہ کرنے کیلئے کوشاں ہے۔
سرحد حکومت کے ترجمان اوروزیرا طلاعات میاں افتخارحسین نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ ’’ ایسے واقعات کو روکنے کی ہرممکن کوشش کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ امن مذاکرات اورمعاہدے کی موجودگی میں مقدس مقامات کونشانہ بنانااور اسلحہ اٹھانا معایدےکےخلاف ورزی کے زمرے میں آتاہے۔ میاں افتخارحسین کا کہنا ہے کہ بونیر میں پیر بابا کے مزار تک جانیوالے طالبان واپس ہورہے ہیں تاہم وہ یہ ضرور کہیں گے کہ نظام عدل کے تحت قاضی عدالتیں شروع ہونے کے بعد اسلحہ اٹھانے کاکوئی جواز نہیں بنتا اور اگرانہوں نے اسلحہ اٹھایا ہے تو یہ ناجائز کیاہے۔
میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ ہم نے انہیں تنبیہ کی ہے کہ یہ معاہدے کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے اوراسےنظام عدل ریگولیشن پرصدر کے دستخط نہ کرنے کی راہ ہموار کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ صدر سے بھی نظام عدل ریگولیشن پردستخط کرنے کی درخواست کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ طالبان سے بھی معاہدے کی خلاف ورزی نہ کرنے کی درخواست کریں گے۔ اوراگروہ ایسا کریں گے تو حکومت پھر اس سے نمٹنے کیلئے اقدامات اٹھانے پرمجبور ہوگی۔
دوسری جانب تحریک طالبان کے ترجمان مسلم خان کاکہنا ہے کہ سوات کے طالبان نے مزار کا قبضہ قائدین کے حکم پر مقامی طالبان کودیاہے تاکہ وہاں سے شرک اوربدعت کے تمام نشان مٹائے جائیں۔
بونیر میں مدفون سید علی ترمذی مغل بادشاہ اکبر کے دور میں وسط ایشیاء کے علاقہ ترمذ سے بونیر آئے اوریہاں اسلام کی تبلیغ وترویح کیلئے کام شروع کیا۔
اس سارے عمل کے دوران بونیر کی مقامی انتظامیہ نے بھی لب سی لیے ہیں۔ عوام دبے الفاظ میں انتظامیہ پر تنقید کررہے ہیں کہ وہ غیرمحسوس طریقے سے طالبان کی برتری تسلیم کرنے کی ترغیب دیتے نظرآتی ہے۔