بون شہر میں گندھارا نمائش
21 نومبر 2008یہ نمائش سابق جرمن دارلحکومت بون میں اکیس نومبر سن دو ہزار آٹھ سے پندرہ مارچ دو ہزار نو تک اورآئندہ سال یعنی سن دو ہزار نو میں نو اپریل سے لیکر پندرہ اگست تک موجودہ دارلحکومت برلن میں جاری رہے گی۔
ایک عرصے سے بدھ مت کے دور کا تمدن اور اس انوکھی تہذیب کو مغربی دنیا کسی حد تک بھلا بیٹھی تھی۔ سن دو ہزار ایک میں بامیان میں موجود بدھا کے دو قدآدم مجسموں کے طالبان کے ہاتھوں منحمد کیے جانے کے بعد یکایک تمام دنیاء کی توجہ افغانستان اور اور اس کی سرحدوں سے ملحقہ پاکستانی علاقوں پر مرکوز ہو گئی۔ جرمن شہر آخن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی سے منسلک جرمن ماہر اثار قدیمہ Michael Jansen اور ان کے ساتھیوں کے زہن میں یہ خیال آیا کہ مغربی دنیاء کو اس خطے میں پائے جانے والے انمول ثقافتی اور تہذیبی ورثے سے روشناس کروایا جائے۔ وہ کہتے ہیں:’’ تین سال قبل ہمارے زہن میں یہ خیال آیا اور تب سے ہم اس پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔ ہم نے سوچا کہ ثقافتی خزانے سے مالا مال اس علاقے کو جو ماضی میں شمال مغربی ہندوستان میں شامل تھاو اب پاکستان اور افغانستان کا حصہ ہے، اسے مغربی دنیا کے نزدیک لایا جائے، اسے متعارف کروایا جائے۔‘‘
گندھارا نمائش میں رکھی جانے والے اشیاء دراصل سکندر اعظم کے دور سے لے کر اس کے بعد کی افغانستان اور وسطی ایشیاء تک پھیلی ہوئی گندھارا ثقافت و تمدن کی عکاسی کر رہی ہیں۔
اس نمائش کی اہمیت پرزوردیتےہوئے میشائیل یانسن کا کہنا تھا:’’بد قسمتی سے ان دنوں پاکستان اور اس کی سرحدوں سے ملحقہ علاقے کے بارے میں ہمیں صرف اور صرف منفی خبریں ہی ملتی ہیں۔ خود کش بم حملے، دھماکے ،عدم استحکام ، بس یہی ایک تاثر پایا جاتا ہے مغرب میں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا یہ فراموش کر بیٹھی ہے کہ اس علاقے کی بہت قدیم تہذیب اور ثقافت ہے۔‘‘
گندھارا تہذیب کی نمائش کا انتظام پاکستان کے آثار قدیمہ اور عجائب گھروں کے سرکاری محکمے کے تعاون سے کیا گیا ہے۔ اسکی افتتاحی تقریب میں شامل اس محکمے کے سربراہ ڈاکٹر فضل داد کاکڑ نے اس نمائش کے انعقاد پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اس کے اثرات پر روشنی ڈالی۔
گندھارا۔ پاکستان کا بدھ ثقافتف ورثہ۔ قدیم کہانیاں، خانقاہیں اور جنت نظیر مقام۔ شہر بون کے بعد یہ نمائش برلن میں دنیاء بھر کے شائقین کے لئے مقناطیسی کشش کا باعث بنے گی۔