بون کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت اور اثرات
5 دسمبر 2011بون کانفرنس میں عدم شرکت کے پاکستانی فیصلے کے حامی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پاکستان بون کانفرنس میں شرکت نہ کر کے عالمی سطح پر اپنا احتجاج کامیابی کے ساتھ ریکارڈ کرانے میں کامیاب رہا ہے،کیونکہ پاکستان کی کمزور جمہوری حکومت کے لیے رائے عامہ کو نظر انداز کر کے اور ریاست کے ایک مضبوط ادارے کی مخالفت مول لے کر اس کانفرنس میں شرکت کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔
ان مبصرین کے مطابق اس فیصلے سے پاکستان کو دنیا کو اپنی اہمیت یاد دلانے کا موقعہ بھی ملا ہے جبکہ بعض تجزیہ نگاروں کے بقول اب امریکہ کے لیے ماضی کی طرح یک طرفہ دباؤکے ذریعے پاکستان پر اپنی مرضی نافذ کرنا آسان نہیں ہوگا۔
ایک دفاعی تجزیہ نگار کے مطابق پاکستانی حکومت نے فوج کے دباؤ کے تحت یہ فیصلہ کرکے پاکستان کے فوجی جوانوں کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ پاکستان کی حکومت ان کے دکھ کو محسوس کرتی ہے اور ان کی قربانیوں کا سودا کرنے کی بجائے امریکہ کی غلطیوں پر کمپرومائز نہیں کر رہی ہے۔ ’’اگر ایسا نہ ہوتا تہ پاک فوج کے اندر بھی مسائل پیدا ہو جاتے۔
ایک اور دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈ ئر ریٹائرڈ فاروق حمید خان نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ نیٹو حملے میں تقریبا دو درجن فوجیوں کی ہلاکت کے بعد پاکستان کے لیے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا ضروری ہو گیا تھا اور اس واقعے کے فورا بعد ہونے والی بون کانفرنس میں شرکت، کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے فیصلوں کی توہین اورعوامی امنگوں سے انحراف کے مترادف تھی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بون کانفرنس میں عدم شرکت سمیت اس احتجاج کےذریعے یہ پیغام واضح طور پر دے دیا گیا ہے کہ اگر پاکستان کی سلامتی اور آزادی کا خیال نہیں کیا جاتا تو پھرپاکستان کے لیے باقی ملکوں کے مفادات ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔
ان کے بقول پاکستان نے بون کانفرنس میں شرکت نہ کر کے ایک خود مختاراور باوقار ملک ہونےکا تاثر دیا ہے۔ ان کے مطابق اس احتجاج کے بعد پاکستان کے لیے امریکہ کے ساتھ اپنے معاملات بہتر شرائط پر طے کرنے میں مدد ملے گی۔
دوسری طرف پاکستان کی بون کانفرنس میں عدم شرکت کے فیصلے سے اتفاق نہ رکھنے والے مبصرین کا نقطہ نظر یہ ہے کہ پاکستان نے ایک موثر فورم پر اپنا نقطہ نظر دنیا کے سامنے پیش کرنے کا ایک اہم موقعہ گنوا دیا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان اپنا احتجاج ریکارڈ کروا کر اگر بون کانفرنس میں شرکت کر لیتا تو اسے کہیں زیادہ فوائد میسر آ سکتے تھے۔
امریکہ سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں پاکستان کے لیے سفارت کاری کے
فرائض سر انجام دینے والے سابق سفارت کار اقبال احمد خان کہتے ہیں کہ سفارت کاری کی دنیا میں بے لچک رویہ سود مند نہیں سمجھا جاتا، ان کے بقول سفارت کاری میں دباؤ اور بات چیت ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ ان کے مطابق امریکی صدر کے افسوس کے اظہار، شمسی ائر بیس سے نیٹو اور امریکی افواج کی بے دخلی کے بعد صورتحال کو ذمہ داری کے ساتھ غیر جذباتی انداز میں سنبھالتے ہوئے عالمی رہنماوں کی درخواستوں کو قبول کرتے ہوئے اگر بون کانفرنس میں علامتی طور پر بھی شرکت کر لی جاتی تو یہ عمل قومی مفاد میں ہوتا۔
ان کے بقول سپر پاورسے ٹکر لینا، دنیا میں اثر رسوخ رکھنے والے ملکوں کی باتیں نظرانداز کرنا اور پاکستان کو معاشی مدد فراہم کرنے والے ملکوں کو بھی اہمیت نہ دینا پاکستان کو تنہائی کی طرف لے جا سکتا ہے اس لیے بون کانفرنس میں شرکت ہی پاکستان کے قومی مفاد میں تھی۔ اقبال احمد خان کے مطابق پاکستان بون کانفرنس میں شرکت کرکے اپنا مئوقف پیش کرکے افغانستان کی صورتحال کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کر سکتا تھا۔ بون کانفرنس سیاسی، دفاعی اور معاشی اعتبار سے آنے والے دنوں میں پاکستان کے لیے بہتری کا باعث بھی بن سکتی تھی۔ ان کے بقول افغانستان کے حالات کا سب سے زیادہ اثر پاکستان پر پڑتا ہے، افغان مہاجرین کی واپسی، ڈرگ اور کلاشنکوف کلچرکے خاتمے اور افغانستان کےساتھ پرامن مستقبل کے حوالے سے پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ بون کانفرنس جیسے مواقعوں کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں قیام امن میں مدد دے تاکہ وہ افغانستان کی دلدل سے نکل کر اپنے اصلی اندرونی مسائل کی طرف توجہ دے سکے۔ ان کے بقول دنیا کی مین سٹریم (با اثر ریاستوں) سے الگ ہو کر آج کی دنیا میں کامیاب نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہےکہ پاکستان بون کانفرنس میں عدم شمولیت کے باوجود امن عمل کی حمایت کر رہا ہے اور پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے بون کانفرنس میں شمولیت ممکن نہیں تھی اور وہ اس کانفرنس میں افغانستان کے مسائل کے حل کے حوالے سے ٹھوس تجاویز چاہتا ہے۔
رپورٹ: تنویر شہزاد،لاہور
ادارت: عصمت جبیں