بون کانفرنس: ’پاکستان کا جرمنی سے کوئی اختلاف نہیں‘
5 دسمبر 2011بون کانفرنس سے وابستہ کی جانے والی توقعات کے موضوع پر ڈوئچے ویلے ریڈیو کے شعبہء اردو کے ایک خصوصی پروگرام میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے ان صحافیوں کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے کانفرنس کے بائیکاٹ کا فیصلہ صرف اور صرف نیٹو کی اُس فضائی کارروائی پر احتجاج کرتے ہوئے کیا گیا ہے، جس میں پاک افغان سرحد پر واقع دو پاکستانی چوکیوں پر موجود چوبیس پاکستانی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔
جیو ٹی وی کے مشہور پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ کے میزبان اور ممتاز کالم نگار حامد میر نے کہا کہ پاکستانی فوجی قیادت کے خیال میں یہ حملہ جان بوجھ کر کیا گیا، جس کا مقصد پاکستان سے اپنی مخصوص شرائط منوانا تھا اور بون کانفرنس میں عدم شرکت کا مقصد امریکہ کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان اِس دباؤ کو تسلیم نہیں کرے گا۔
ٹھیک دَس سال پہلے افغانستان میں امریکی پیشقدمی اور طالبان حکومت کے خاتمے کے فوراً بعد دسمبر 2001ء میں بھی بون کے قریب پیٹرزبرگ ہی کے مقام پر ایک بڑی بین الاقوامی افغانستان کانفرنس منعقد کی گئی تھی۔ اُس کانفرنس کے نتیجے میں افغانستان میں ہزارہا غیر ملکی فوجیوں پر مشتمل بین الاقوامی محافظ دستہ آئی سیف تعینات کیا گیا تھا۔ اب دَس برس بعد افغانستان سے ان ہزاروں فوجیوں کے انخلاء کے پروگرام بن رہے ہیں۔
تاہم پاکستان ٹیلی وژن سے وابستہ صحافی سلطان محمود حالی نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن کوششوں کے حوالے سے ایک اہم فریق ہے اور بون کانفرنس میں اُس کی غیر موجودگی سے خطّے میں امن کوششوں کو لازمی طور پر دھچکہ پہنچے گا۔
ٹیلی وژن ہی کے لیے کام کرنے والے ممتاز صحافی شوکت محمود پراچہ نے کہا کہ مغربی دُنیا دَس سال کی جنگی کارروائیوں کے بعد جان گئی ہے کہ اِس تنازعے کا حل جنگ کے ذریعے نہیں بلکہ صرف مذاکرات ہی کے ذریعے ممکن ہے۔
ان صحافیوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب تک افغانستان میں امریکہ کے فوجی اڈے موجود رہیں گے، وہاں امن قائم نہیں ہو سکے گا۔ مزید یہ کہ پاکستان بلاشبہ چند ایک طالبان عناصر کے ساتھ رابطے میں ہے اور اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں دیرپا امن کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: افسر اعوان