1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بين الاقوامی سطح پر کرنسی جنگ کا خطرہ

15 اکتوبر 2010

دنيا کے بڑے ممالک اپنی برآمدی مصنوعات کو سستا رکھنے کے لئے اپنی کرنسی کی قيمتوں کو کم رکھنے کی کوششوں کے طور پر کئی مختلف طريقے استعمال کرتے ہيں

برسلز ميں يورپی يونين چينی سربراہ کانفرنستصویر: AP

چين اپنی کرنسی کی قيمت يا شرح تبادلہ کو براہ راست طور پر گھٹانے کے بجائے يہ طريقہ اختيار کرتا ہے کہ وہ اُس کی قيمت کو بڑھنے ہی نہيں ديتا۔ يہ چين کا سياسی ہدف ہے۔ خصوصاً امريکی ڈالر کے مقابلے ميں چينی کرنسی کی شرح تبادلہ مقرر کرنا چينی حکومت ہی کے ہاتھ ميں ہے۔

جرمنی کے ڈيکا بينک کے ماہر اقتصاديات ہولگر بار کہتے ہیں: ’’چين نے امريکی ڈالر کے مقابلے ميں اپنی کرنسی کی ايک پکی شرح تبادلہ مقرر کر دی ہے اور اس وجہ سے اس شرح ميں بہت ہی کم اتار چڑھاؤ ہوتا ہے۔‘‘

اگرچہ چينی کرنسی کی شرح ميں ايک معمولی سا ماہانہ اضافہ ہوتا ہے ليکن بالآخر اس کا فيصلہ چينی حکومت، يعنی بیجنگ میں وزارت ماليات ہی کرتی ہے اور اس کو چين کا رياستی مرکزی بينک عملی شکل ديتا ہے۔ ہولگر بار کے مطابق: ’’چين، امريکہ کے رياستی بونڈز کی خريد يا فروخت کے ذريعے اپنی کرنسی اور امريکی ڈالر کی شرح تبادلہ پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور اس شرح کو خود اپنی مقرر کردہ سطح پر قائم رکھ سکتا ہے۔‘‘

اس طرح چين نے اپنی کرنسی کی قيمت کو اُس شرح سے 20 تا 30 فيصد کم رکھا ہوا ہے، جو يوآن کو عالمی مالياتی منڈیوں ميں کھلا چھوڑ دينے کی صورت ميں خود بخود دیکھنے میں آتی۔‘‘

چينی امريکی تجارتی بات چيتتصویر: AP

شرح تبادلہ کی اپنی اسی پاليسی کی باعث ہی چين اپنی کرنسی کی قيمت کو کم رکھے ہوئے ہے اور اس کے نتيجے ميں اُس کی اشيائے تجارت عالمی منڈيوں ميں سستی ہيں، جو اُس کی برآمدات کے لئے بہت اچھا ہے۔

امريکہ کو يہ شکايت ہے کہ چينی مصنوعات اس قدر سستی ہيں کہ امريکی تاجر اور صنعتکار منڈيوں ميں اُن کا مقابلہ نہيں کر پا رہے۔ اس لئے امريکہ بھی وہی راستہ اختيار کر رہا ہے جو چين کا ہے، يعنی امريکہ بھی ڈالر کی قيمت کم کر رہا ہے۔ ليکن وہ ايسا ڈالر کی شرح تبادلہ کم کرنے کے ذريعے نہيں کر رہا بلکہ وہ بينکوں کی مدد کرتے ہوئے قرضوں کو سستا کر رہا ہے، جس کے نتيجے ميں قومی بجٹ کا خسارہ بڑھتا ہے اور رياستی بينک کو زيادہ نوٹ چھاپنا پڑتے ہيں۔

جب يہ ہوتا ہے تو اس کا لازمی نتيجہ کرنسی کی قيمت ميں کمی کی صورت ميں نکلتا ہے۔ جرمنی کے BHF بينک کے ماہر اقتصاديات اشٹيفن ريکے کا کہنا ہے کہ امريکہ کی خاصی جارحانہ مالياتی پاليسی کا مقصد امريکہ ميں ملازمتوں کے مواقع ميں اضافہ اور اقتصادی نمو ہے ليکن اس وجہ سے امريکی ڈالر کی شرح تبادلہ شديد طور پر متاثر ہو رہی ہے، جس سے امريکہ کے ہمسايہ ممالک اور تجارتی ساتھيوں کے لئے مسائل پيدا ہو رہے ہيں۔ اس لئے کہ ڈالر کی شرح تبادلہ ميں کمی سے دوسری کرنسياں طاقتور ہوتی جا رہی ہيں اورنتيجتاً ان ملکوں کی اشيائے تجارت کی قيمتيں بھی عالمی منڈيوں ميں بڑھ رہی ہيں۔

ايک بڑا مسئلہ يہ بھی ہے کہ امريکہ کا رياستی بينک بہت بڑی تعداد ميں جو نئے نوٹ چھاپ رہا ہے، اُن کی کہيں نہ کہيں سرمايہ کاری بھی تو کی جائے گی۔ ڈالر والے بہت سے سرمايہ کاروں نے اس کے لئے برازيل کا انتخاب کيا۔ اس کے لئے اُنہيں ڈالروں کو برازيلی ريال ميں تبديل کرنا پڑا، جس سے ريال کی قيمت بہت بڑھ گئی۔ برازيل کی حکومت نے اسے کم کرنے کے لئے غير ممالک سے سرمايہ کاری کرنے والوں پر ٹيکس لگا دئے۔ اپنی کرنسی کی قيمت کو کم رکھنے کا ايک طريقہ يہ بھی ہے۔

تاہم اپنی کرنسی کی قيمت کم رکھنے کے لئے زرمبادلہ کی منڈی ميں اُسے بڑی مقدار ميں فروخت کرنا ہی بہت عام يا روايتی طريقہ ہے۔ سوئٹزرلينڈ اور جاپان نے اسی طرح اپنی کرنسيوں کی قيمت ميں کمی کی، جو اس قدر بڑھ گئی تھی کہ دونوں ملکوں کی حکومتوں اور رياستی بينکوں کو برآمدات ميں نقصان کا خطرہ ہو گيا تھا۔

امريکی وزيرخارجہ ہليری کلنٹن اور چينی صدر ہو جن تاؤتصویر: AP

جرمنی يورو کرنسی زون ميں شامل ہے۔ يورو کی اونچی قيمت کے باوجود جرمنی کو اپنی برآمدات ميں کمی کا خطرہ نہيں ہے۔ اس کی وجہ يہ ہے کہ جرمن مصنوعات اتنی خاص اور اتنے اعلیٰ معيار کی ہوتی ہيں کہ دوسرے ممالک کے خريدار اُنہيں خريدنے کو بہت زيادہ ترجيح ديتے ہيں۔ جرمنی کے ڈی زيڈ بينک کے ماہر اقتصاديات ٹوماس مائسنر کے بقول: ’’جرمنی کو، خاص طور پر مشينوں اور پلانٹس کے ميدان ميں ايک آرام دہ پوزيشن حاصل ہے کيونکہ اس کی برآمدی مصنوعات کا معيار بہت اچھا ہے اور کيونکہ ان مشينوں کی مانگ اور قيمتيں تقريباً مستقل رہتی ہيں۔‘‘

کرنسيوں کی شرح تبادلہ ميں اتار چڑھاؤ کی صورت ميں پر سکون رہنے کے لئے يہ ضروری ہے کہ ملک اقتصادی طور پر نسبتاً مضبوط حالت ميں ہو۔ جن ملکوں ميں ايسا نہيں، وہاں کی حکومتيں دوسرے راستوں کے بارے ميں سوچنے لگتی ہيں۔ مثلاً امريکہ نے چين کو دھمکی دے دی ہے کہ اگر اُس نے اپنی کرنسی يوآن کی قيمت نہيں بڑھائی، تو امريکہ چينی مصنوعات پربھاری محصولات لگا دے گا۔

يہ دھمکی قومی اقتصاديات کے ماہرين کی نظروں ميں بہت خطرناک ہے۔ ڈيکا بينک کے ماہر اقتصاديات ہولگر بار نے کہا: ’’اس سے تنازعے ميں مزيد شدت پيدا ہوگی۔ جو آزاد تجارت اور اس طرح عالمگيريت کے لئے خطرہ پيدا کرتا ہے، وہ اس تجارت کو ديرپا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ يہ عالمی معيشت کے لئے قابل برداشت نہیں ہو گا۔‘‘

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں