بُرقینی پر پابندی ختم، فرانس کی اعلیٰ عدالت کا فیصلہ
26 اگست 2016حال ہی میں فرانس کے ساحلی علاقے ویلینیو لوبے میں پولیس اہلکاروں کی طرف سے ایک مسلمان خاتون کو بُرقینی اتارنے کا کہا گیا تھا کیوں کہ اس علاقے میں چند روز پہلے ہی مقامی حکومت کی جانب سے بُرقینی (مکمل جسم ڈھانپنے کا وہ لباس جو مسلم خواتین تیراکی کے دوران پہنتی ہیں) پہننے پر پابندی عائد کی جا چکی تھی۔ یہ تصاویر میڈیا پر آتے ہی دنیا بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
آج فرانس کی ’کونسل آف اسٹیٹ‘ کی طرف سے یہ فیصلہ خاص طور پر حالیہ عائد پابندی کے حوالے سے سنایا گیا ہے لیکن یہ قانونی فیصلہ فرانس کی ان تمام تیس ساحلی بلدیاتی حکومتوں کے لیے بھی ایک مثال ہو گا، جنہوں نے اسی طرح کے احکامات جاری کر رکھے ہیں۔
انسانی حقوق کے دو گروپوں کے وکلاء کی طرف سے بُرقینی پر عائد پابندی کے خلاف اس اعلیٰ عدالت سے رجوع کیا گیا تھا۔ ان وکلاء کا کہنا تھا کہ برقینی پر پابندی عائد کرنے سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور اس معاملے میں مئیرز نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مئیرز کو یہ اختیار ہی نہیں ہے کہ وہ خواتین کو یہ بتائیں کہ انہیں ساحل پرکیسے کپڑے پہننا چاہیئیں۔
قبل ازیں برقینی پر پابندی کے حق میں مئیرز کا کہنا تھا کہ وہ حالیہ دہشت گردانہ حملوں کے تناظر میں اور عوامی نظام کے تحفظ کے لیے ایسا کر رہے ہیں جبکہ بہت سے حکام کا کہنا تھا کہ برقینی عورتوں کے خلاف ظلم کی علامت ہے۔
آج ہیومن رائٹس لیگ کی نمائندگی کرنے والے وکیل پیٹریس سپینوس کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ فیصلہ دیگر میئرز کے لیے بھی مثال ہے اور انہیں بھی اپنے علاقوں میں عائد پابندی ختم کر دینی چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جمعے کے اس فیصلے کے بعد اب خواتین کو جرمانہ ادا کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ فرانس میں تقریبا تیس کے قریب بلدیاتی حکومتیں ساحل سمندر پر برقینی پہننے پر پابندی عائد کر چکی ہیں۔
دریں اثناء اس فیصلے کے بعد فرانس کے شمالی علاقے سِسکو کے مئیر نے کہا ہے کہ وہ اس عدالتی فیصلے کے باوجود اپنے علاقے میں برقینی پر عائد پابندی ختم نہیں کریں گے۔
فرانس میں مسلمانوں کی مرکزی تنظیم ’سی ایف سی ایم‘ نے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’عقل سلیم کی فتح‘ قرار دیا ہے۔