بِہار میں بچوں کو نقل کراتے والدین
20 مارچ 2015کھڑکیوں کے باہر موجود لوگ دراصل امتحان دینے والے اپنے بچوں تک نقل پہنچانے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان تصاویر نے ایک طرح سے بھارت کی مشرقی ریاست بِہار میں تعلیم نظام میں موجود خامیوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔ بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز نے جمعرات کے روز ایک تصویر شائع کی جس میں درجنوں افراد چار منزلہ عمارت کی کھڑکیوں کے باہر سے حل شدہ پرچے کی نقول مختلف طرح سے اندر پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اخبار کے مطابق ایسے پرچوں کے جہاز بنا کر بھی کمرہ امتحان میں پھینکے گئے۔
’’کیا ہم ان لوگوں کو گولی مار دیں؟‘‘ یہ سوال تھا ریاست بِہار کے وزیر تعلیم پرشانت کمار شاہی کا جو ٹیلی وژن پر اس واقعے کی خبریں چلنے کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ شاہی کا مزید کہنا تھا، ’’اوسطاﹰ چار سے پانچ افراد ایک طالب علم کی غلط طریقوں سے مدد کر رہے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اگر والدین ہی نقل کرنے کے لیے اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کریں گے تو اس پر قابو پانا ناممکن ہے۔
بہار اسکول ایگزامینیشن بورڈ (BSEB) کی جانب سے اسکول کی تعلیم کے اختتام پر لیے جانے والے ان امتحانات کو ایسے لاکھوں بچوں کی مستقبل کا فیصلہ سمجھا جاتا ہے، جو غربت میں رہتے ہوئے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ بہار میں اس برس 1,217 مختلف امتحانی مراکز میں 14 لاکھ طالب علم امتحانات دے رہے ہیں۔
روئٹرز کے مطابق سپروائزر خاص طور پر ایسے امتحانی مراکز پر اپنی ڈیوٹی لگوانے کی کوشش کرتے ہیں جو نقل کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔ اس کا مقصد ایسے والدین سے پیسے کمانا ہوتا ہے جو اپنے بچوں کو نقل کرانا چاہتے ہیں۔
بھارتی ریاست بِہار میں نقل کا رجحان میں اس وقت سے خاص طور پر اضافہ ہوا ہے جب ریاستی حکومت نے کمتر سمجھنی جانے والی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے ایسے بچوں کے لیے 10 ہزار بھارتی روپے کے انعام کا اعلان کیا جو امتحانی پرچے کے نصف سوالات کے جواب دیں گے۔
رواں برس اب تک تین دنوں کے دوران ایک ہزار سے زائد طلبہ کو نقل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا جا چکا ہے اور انہیں امتحانات سے نکال دیا گیا ہے۔ یہ امتحانات 24 مارچ کو ختم ہوں گے۔