بچت ذاتی، فائدہ سب کا: ٹرک اور ٹرالر ڈیزل نہیں گیس پر چلائیں
17 جولائی 2020
نئی تحقیق کے مطابق مال بردار گاڑیاں ڈیزل کے بجائے مائع گیس پر چلانے سے دوہرا فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یوں نجی ڈرائیور اور ٹرانسپورٹ کمپنیاں مال برداری پر اٹھنے والے اخراجات اور ماحولیاتی آلودگی دونوں کم کر سکتے ہیں۔
تصویر: DW
اشتہار
اس موضوع پر جرمنی میں کی جانے والی تحقیق اور عملی تجربات دو بڑے اداروں نے کیے۔ ان میں سے ایک جرمن آٹو موبائل کلب ADAC نامی تنظیم تھی، جس کے ارکان کی تعداد کئی ملین ہے اور دوسرا TÜV کہلانے والا وہ ادارہ جو جرمنی میں مروجہ تکنیکی معیارات پر عمل درآمد کا جائزہ لیتا ہے۔
شہر کوبلینز میں اے ڈی اے سی اور کولون میں ٹی یو وی کی طرف سے کیے گئے جامع تجربات کے بعد ان اداروں کی طرف سے جمعہ سترہ جولائی کو بتایا گیا، ''مال برداری اگر دور دراز کی منزلوں تک کی جائے، تو بڑے بڑے ٹرکوں اور ٹرالروں کو ڈیزل کے بجائے مائع قدرتی گیس یا ایل این جی پر چلا کر کارگو ٹرانسپورٹ کا کاروباری شعبہ اپنے لیے مالی بچت کرنے کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی کم کرنے میں اپنا بہت اہم کردار بھی ادا کر سکتا ہے۔‘‘
اس تحقیق کے دوران ADAC اور TÜV کے تکنیکی ماہرین نے 2017ء سے لے کر اب تک مکمل کیے گئے کم از کم دس ایسے مطالعاتی جائزوں کے نتائج کا موازنہ بھی کیا، جن میں طویل فاصلے تک مال برداری کے لیے ایندھن، گاڑیوں اور ان کے انجنوں کی قسموں سے متعلق کئی مختلف امکانات کا جائزہ لیا گیا تھا۔
جرمنی اور پولینڈ کے درمیان سرحد کے قریب ایک ہائی وے پر ٹریفک جام میں پھنسی ہوئی مال بردار گاڑیاں اور ٹرالرتصویر: picture-alliance/dpa/R. Michael
ان امکانات میں یہ پہلو بھی شامل تھے کہ بہت طویل فاصلے تک تجارتی مال براری کے لیے ٹرکوں اور ٹرالروں میں ڈیزل استعمال کرنا زیادہ بہتر ہوتا ہے یا پھر مائع قدرتی گیس اور الیکٹرک بیٹریوں جیسے توانائی کے ذرائع۔
صنعتی، پیداواری اور تکنیکی معیارات کی پاسداری کو یقیبی بنانے والے جرمن ادارے ٹی یو وی کے ماہر مارٹن ڈیلِنگر کے مطابق، ''ہم نے مالی اور ماحولیاتی پہلوؤں کو بھی پیش نظر رکھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج کے دور میں زمینی راستے سے کمرشل ٹرانسپورٹ کے لیے ڈیزال کے بجائے مائع قدرتی گیس یا LNG پر انحصار کرنے سے کافی بچت بھی کی جا سکتی ہے اور ایسی مال برداری کے ماحول کے لیے مقابلتاﹰ زیادہ نقصان دہ اثرات سے بھی بچا جا سکتا ہے۔‘‘
م م / ا ا (ڈی پی اے)
پاکستان کی پہلی خاتون ٹرک ڈرائیور
پاکستانی شہر گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والی اور راولپنڈی میں رہائش پذیر باہمت خاتون شمیم اختر پاکستان میں تجارتی مال برداری کے لیے ٹرک چلانے والی وہ پہلی خاتون ہیں، جو اس طرح اپنی روزی کماتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
تریپن سالہ شمیم اختر نے ٹرک ڈرائیونگ کا پیشہ مالی مجبوریوں کی وجہ سے اپنایا۔ وہ چار بھائیوں کی اکلوتی بہن ہیں۔ شمیم اختر نے اسلام آباد ٹریفک پولیس سے ٹریننگ لی اور عمومی سماجی روایات کو توڑتے ہوئے ٹرک چلانا شروع کر دیا، ایک ایسا پیشہ، جو قدامت پسند پاکستانی معاشرے میں اب تک خواتین کے لیے ’شجرممنوعہ‘ سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
شمیم اختر نے، جو ایک بہت سادہ سی خاتون ہیں، ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ پہلے وہ کار چلاتی تھیں۔ پھر انہوں نے لڑکیوں کو گاڑی چلانا بھی سکھائی اور اس کے بعد اپنے مالی حالات سے مجبور ہو کر ٹرک چلانا شروع کر دیا۔
تصویر: DW/I. Jabeen
انہوں نے بتایا کہ ٹرک چلاتے ہوئے ان کا پہلا سفر راولپنڈی سے آزاد جموں و کشمیر تک کا سفر تھا اور ان کے ٹرک پر سات ہزار اینٹیں لدی ہوئی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں ایک بار مال برداری کرنے کے تقریباﹰ ایک ہزار روپے تک مل جاتے ہیں۔ شمیم اختر نے کہا، ’’میری بڑی خواہش ہے کہ کبھی میرے پاس اتنے وسائل ہوں کہ میں اپنا ذاتی ٹرک خرید سکوں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ڈی ڈبلیو کے ساتھ اس خصوصی انٹرویو میں اس باہمت خاتون نے کہا کہ ٹرک چلانا بھی کوئی خاص بات ثابت ہو گی، یہ انہوں نے کبھی نہ سوچا تھا، وہ تو اسے محض اپنے لیے روزی کمانے کا ذریعہ سمجھتی تھیں۔ لیکن میڈیا اور دیگر افراد کی جانب سے انہیں بحیثیت ایک خاتون ٹرک ڈرائیور کے اتنی عزت ملے گی، یہ انہوں نے کبھی نہ سوچا تھا۔ ’’یہ میرے لیے بہت اعزاز کی بات ہے۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
آبائی طور پر ضلع گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والی اس خاتون نے بتایا کہ انہوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ ان کے پانچ بچے ہیں، جن میں سے چار بیٹیاں ہیں اور ایک بیٹا۔ بیٹا سب سے چھوٹا ہے، جو میٹرک میں پڑھتا ہے۔ شمیم اختر چاہتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم دلوا سکیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
شمیم ڈرائیونگ اپنے پیشے کو کام سے زیادہ شوق قرار دیتی ہیں۔ انہوں نے ڈرائیونگ کے مختلف کورسز کیے اور باقاعدہ ٹرک چلانا بھی سیکھا۔ انہوں نے بتایا کہ جب پہلی بار وہ ٹرک ڈرائیور کے طور پر کام لینے گئیں تو مرد ٹرک مالکان نے انہیں کام دینے میں کافی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا، ''لیکن جب میرا ٹیسٹ لیا گیا تو انہوں نے میری کافی تعریف کی۔ آج مجھے ٹرک چلاتے ہوئے قریب دو سال ہو گئے ہیں۔‘‘