بچوں سے جنسی زیادتیاں: ایک اختتام اور چھوٹا سا آغاز، تبصرہ
25 فروری 2019
عالمی رائے عامہ کی نگاہیں روم میں ہونے والے اس اجلاس پر لگی تھیں، جس میں کیتھولک کلیسا کی اعلیٰ ترین قیادت شریک تھی اور جس میں نابالغ بچوں سے کی جانے والی جنسی زیادتیوں پر بحث کی جانا تھی۔ کرسٹوف شٹراک کا لکھا تبصرہ:
اشتہار
اس اجلاس کے اختتام پر پاپائے روم نے اپنا بہت اہم خطاب کیا، جس میں کلیسائی شخصیات کی طرف سے بچوں کے جنسی استحصال جیسے جرائم پر بات کی گئی، انٹرنیٹ کی ان ویب سائٹس کی بھی جو ایسے جرائم کی ترویج کے لیے استعمال ہوتی ہیں اور جنسی مقاصد کے لیے سیاحت کے مسئلے کی بھی۔ لیکن اس خطاب کے حوالے سے ایک بات میرے لیے بنیادی طور پر بے چینی کا باعث بنی۔ اس خطاب کے لیے بہترین جگہ تو اقوام متحدہ کی سطح پر بچوں کے تحفظ کے لیے منعقد کی گئی کوئی عالمی کانفرنس بھی ہو سکتی تھی۔
اطالوی دارالحکومت روم میں واقع ویٹیکن سٹی میں، کیتھولک کلیسا کے دل میں، اسی کلیسا میں جس کی دنیا کے مختلف ممالک میں موجود شاخوں میں بچوں سے جنسی زیادتیاں کی جاتی رہی تھیں، جیسا کہ پوپ فرانس نے خود بھی کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ یہ زیادتیاں ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں اور اب بھی ہو رہی ہیں، وہاں یہ تقریر مناسب تو تھی لیکن اس کے لیے منتخب کردہ جگہ شاید مناسب ترین نہیں تھی۔
پوپ فرانسس نے اپنے خطاب میں کلیسائی شخصیات کی طرف سے ایسے جرائم کو ’بہت شدید نوعیت کے جرائم‘ قرار دیا، ان جرائم کی مرتکب کلیسائی شخصیات کو ’خونخوار بھیڑیوں‘ سے تعبیر کیا اور یہ بھی کہا کہ ایسا کرنے والے ’شیطان کے آلہء کار‘ ہیں۔
پوپ کے مطابق اس رجحان کے خلاف جنگ اور کیتھولک کلیسا کو اسے درپیش عالمگیر بحران سے نکالنے کی کوششوں میں وہ ’خدا کی مخلوق‘ پر انحصار کرنا چاہیں گے۔
’خدا کی مخلوق‘ سے پوپ کی مراد کلیسا کے باعقیدہ پیروکار تھے۔ پاپائے روم کے الفاظ میں، ’’خدا کی یہی مخلوق ہمیں اس کلیسائیت سے بچائے گی، جو کئی طرح کی خوفناک، مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے زرخیز زمین بن چکی ہے۔‘‘
متاثرین اجلاس سے باہر ہی رہے
یورپ، افریقہ، ایشیا، شمالی امریکا اور جنوبی امریکا سے تعلق رکھنے والے چند درجن ایسے افراد کے سوا، جو کلیسائی نمائندوں کے ہاتھوں جنسی زیادتیوں کا شکار ہوئے تھے، ان جرائم سے متاثرہ انسانوں کی بہت بڑی اکثریت کو روم میں ہونے والے اس اجلاس کے دروازوں سے باہر ہی رکھا گیا۔ ان مظلومین کو اجلاس میں شرکت کا موقع نہ ملا، سوائے پولینڈ سے آنے والے ایک وفد کے، جس کے اتنے تعلقات تو تھے کہ اسے پاپائے روم تک رسائی حاصل ہو گئی۔ اس وفد سے ملاقات کی ایک تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح پاپائے روم نے پولستانی متاثرین میں سے ایک کا ہاتھ چوما۔ لیکن باقی سب تو ویٹیکن پہنچ ہی نہ سکے۔ ان کے لیے تاہم اس امر کی تصدیق ہو گئی تھی کہ ان کے خلاف جرائم سے متعلق ’دستاویزات تلف کر دی گئی تھیں اور مجرموں کے جرائم پر پردہ ڈال دیا گیا تھا‘۔
کم از کم جرمنی میں تو متاثرین کئی برسوں سے یہی کہہ رہے ہیں۔ حالانکہ فائلیں اور دستاویزات کوئی بھی ہوں، وہ خود بخود تو تلف نہیں ہو جاتیں۔ کلیسائی شخصیات کی طرف سے جنسی استحصال کا شکار ہونے والے افراد پاپائے روم کی تقریر پوری توجہ سے سن رہے تھے۔ اپنی تقریر شروع کرنے کے کئی منٹ بعد پوپ نے جنسی زیادتیوں کے واقعات کا ذکر کیا، تو اس کے بعد متاثرین کے لیے مالی تلافی یا ازالے کا تو کوئی ذکر ہی نہیں تھا۔
روسی قوم پرست زاروں کی واپسی کے خواہش مند
’آرتھوڈوکس عقیدہ یا موت‘ یہ ان کا نعرہ جنگ ہے۔ روس میں شاہی نظام کا حامی ایک مذہبی گروہ زاروں کے شاہی دور کو پھر زندہ کرنا چاہتا ہے اور وہ بھی آرتھوڈوکس کلیسا کی مدد سے۔ ماضی کے روسی بادشاہ ’زارِ روس‘ کہلاتے تھے۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
’سربراہ مملکت کوئی زار ہو‘
لیونڈ سیمونووچ بنیاد پرستوں کی ’یونین آف آرتھوڈوکس فلیگ کیریئرز‘ کے سربراہ ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ روسی مملکت کی سربراہی کسی زار کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے۔ یہ گروہ اپنے اجتماعات اور مظاہروں کے ذریعے اپنی سوچ دوسروں تک پہنچاتا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
کلیسا کا تعاون ضروری
لیونڈ سیمونووچ کہتے ہیں، ’’ہم بالکل ویسی ہی ایک مستحکم سلطنت کے قیام کی کوششیں کر رہے ہیں، جیسی روسی زاروں کے دور میں تھی۔‘‘ ان کے بقول ایسا کرنا صرف کلیسا کی مدد سے ہی ممکن ہے، ’’لادینیت اس کے لیے موزوں نہیں کیونکہ اس سے آمریت جنم لیتی ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
زار خاندان کا قتل
سترہ جولائی 1918ء کو زار نکولائی دوئم اور ان کے اہل خانہ کو قتل کر دیا گیا تھا۔ کہتے ہیں کہ انقلابی رہنما لینن کے کہنے پر انہیں یہ سزا دی گئی تھی۔ اس طرح روس میں تین سو سال پرانی رامانوف بادشاہت کا خاتمہ بھی ہو گیا تھا۔ زار خاندان کے قتل کے ایک سو سال پورے ہونے پر ’یونین آف آرتھوڈوکس فلیگ کیریئرز‘ نے ماسکو کے معروف اشپاسو اندرونیکوف راہب خانے کی طرف مارچ بھی کیا تھا۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
سیاہ لباس اور بینر اٹھائے ہوئے
’یونین آف آرتھوڈوکس فلیگ کیریئرز‘ صرف مطلق العنان حکومت کی بحالی کا مطالبہ ہی نہیں کرتی بلکہ وہ روسی قوم پرستی کو دوبارہ زندہ کرنے کی بات بھی کرتی ہے۔ اس تنظیم کے ارکان سیاہ لباس اور سیاہ رنگ کے جوتے پہنتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر روک موسیقی کے کسی کلب کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ ان افراد کے پاس صلیب جیسی مسیحی مذہبی علامات بھی ہوتی ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
یادگار تصاویر سے آرائش
اس گروپ کے زیادہ تر لوگ آرائش کے لیے پرانی اور یادگار تصاویر دیواروں پر لگاتے ہیں۔ پال اس گروپ کے رکن ہیں اور ان کے کمرے کی دیواروں پر اُن تمام آرتھوڈوکس مسیحی خانقاہوں اور راہب خانوں کی تصاویر آویزاں ہیں، جن کے وہ دورے کر چکے ہیں۔ اس گروپ کے کچھ ارکان کی رائے میں معاشرتی تبدیلی کے لیے طاقت کے بل پر ایک انقلاب کی ضرورت ہے جبکہ دیگر ارکان زاروں کے شاہی دور کی واپسی کی کوششوں میں ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
مقدس زار
سن 2000ء میں روسی آرتھوڈوکس کلیسا نے قتل کر دیے جانے والے زار روس نکولائی دوئم اور ان کے اہل خانہ کو سینٹ کا درجہ دے دیا تھا۔ تاہم آرتھوڈوکس کلیسا کے پیروکاروں کی ایک مختصر تعداد نے ہی زار خاندان کے ارکان کے لیے مذہبی تقدیس کے اعلان کے بعد منعقد کردہ کلیسائی تقریب کے سلسلے میں خوشیاں منائی تھیں۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
’آرتھوڈوکس مسیحی عقیدہ یا موت‘
روسی شہریوں کی ایک بہت بڑی اکثریت مسیحیت کے آرتھوڈوکس عقیدے کی پیروکار ہے۔ اس کے باوجود ’یونین آف آرتھوڈوکس فلیگ کیریئرز‘ اس لیے اس عقیدے کے پرچار کی کوشش کرتی ہے کہ اس کے نزدیک اس مسیحی فرقے کو مزید پھیلنا چاہیے۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
7 تصاویر1 | 7
زندگی بھر کے جھوٹ کا خاتمہ
روم میں ہونے والا یہ اجلاس چار روز تک جاری رہا، جو کئی لوگوں کے لیے مختلف حوالوں سے ایک تکلیف دہ عمل کا اختتام بھی تھا، خاص طور پر کلیسا کی طرف سے عمر بھر بولنے جانے والے جھوٹ کا اختتام۔ کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ کلیسائی شخصیات کی طرف سے بچوں سے جنسی زیادتیوں کے واقعات صرف دنیا کے کسی ایک خاص خطے میں ہی دیکھنے میں آئے یا آتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو، جو اس سے محفوظ رہا ہو۔ یہ بھی ثابت ہو گیا کہ کلیسائے روم کی طرف سے ایسے واقعات کو چھپانے کی کوششیں بھی ایک باقاعدہ طریقہ کار بن چکی تھیں، ایک کے بعد ایک جرم۔ اس بات میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ کلیسا نے خود کو اکثر ایسا ثابت کیا کہ وہ طاقت کے غلط استعمال کا مرکز بن چکا تھا۔
نئے آغاز سے خوف
امید کی جاتی ہے کہ ویٹیکن سٹی میں جس عمل کے اختتام کا اشارہ دیا گیا ہے، وہ ایک نئی ابتدا کی وجہ بھی بنے گا۔ اس اجلاس کی کوئی قانون سازی جیسی حیثیت تو نہیں تھی کہ جس میں کیے جانے والے فیصلوں پر عمل درآمد لازمی ہوتا، لیکن اجلاس کی کارروائی کے دوران پاپائے روم نے مشاورت کے نتیجے میں ایک ایسا پروگرام بہرحال پیش کیا، جو اکیس نکات پر مشتمل تھا۔ اب اس پروگرام پر عمل بھی کیا جائے گا، یہ امید ہی کی جا سکتی ہے اور اس اجلاس میں شریک ہر بشپ کو عملاﹰ خود کا اس کا پابند بھی محسوس کرنا ہو گا۔
کرسٹوف شٹراک / م م ، ع ا
حاجیہ صوفیہ : میوزیم، مسجد یا پھر گرجا گھر
ترک شہر استنبول میں واقع حاجیہ صوفیہ پر شدید تنازعہ پایا جاتا ہے۔ یہ ایک عجائب گھر ہے، جسے ترک قوم پرست ایک مسجد کے طور پر جبکہ مسیحی ایک مرتبہ پھر کلیسا کے طور پر استعمال کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Marius Becker
طرز تعمیر کا شاندار نمونہ
کونسٹانینوپل یا قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) میں رہنے والے رومی شہنشاہ جسٹینیان نے 532ء میں ایک شاندار کلیسا کی تعمیر کا حکم دیا۔ وہ ایک ایسا چرچ دیکھنا چاہتے ہیں، جیسا کہ ’حضرتِ آدم کے دور کے بعد سے نہ بنا ہو اور نہ ہی بعد میں تعمیر کیا جا سکے‘۔ اس حکم نامے کے 15 برس بعد ہی اس گرجا گھر کے بنیادی ڈھانچے کا افتتاح عمل میں آ گیا۔ تقریباً ایک ہزاریے تک یہ مسیحی دنیا کا سب سے بڑا کلیسا تھا۔
تصویر: imago/blickwinkel
بازنطینی سلطنت کی پہچان
شہنشاہ جسٹینیان نے قسطنطنیہ میں حاجیہ صوفیہ (ایا صوفیہ) کی تعمیر میں 150 ٹن سونے کی مالیت کے برابر پیسہ خرچ کیا گیا۔ قسطنطنیہ بازنطینی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ آبنائے باسفورس پر واقع اس شہر کا موجودہ نام استنبول ہے۔ اسے ’چرچ آف وزڈم ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ساتویں صدی کے تقریباً تمام ہی شہنشاہوں کی تاجپوشی اسی کلیسا میں ہوئی تھی۔
تصویر: Getty Images
کلیسا سے مسجد میں تبدیلی
1453ء میں کونسٹانینوپول (قسطنطنیہ) پر بازنطینی حکمرانی ختم ہو گئی۔ عثمانی دور کا آغاز ہوا اور سلطان محمد دوئم نے شہر پر قبضہ کرنے کے بعد حاجیہ صوفیہ کو ایک مسجد میں تبدیل کر دیا۔ صلیب کی جگہ ہلال نے لے لی اور مینار بھی تعمیر کیے گئے۔
تصویر: public domain
مسجد سے میوزیم تک
جدید ترکی کے بانی مصطفٰی کمال اتا ترک نے 1934ء میں حاجیہ صوفیہ کو ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا۔ پھر اس کی تزئین و آرائش کا کام بھی کیا گیا اور بازنطینی دور کے وہ نقش و نگار بھی پھر سے بحال کر دیے گئے، جنہیں عثمانی دور میں چھُپا دیا گیا تھا۔ اس بات کا بھی خاص خیال رکھا گیا کہ عثمانی دور میں اس عمارت میں کیے گئے اضافے بھی برقرار رہیں۔
تصویر: AP
اسلام اور مسیحیت ساتھ ساتھ
حاجیہ صوفیہ میں جہاں ایک طرف جگہ جگہ پیغمبر اسلام کا نام ’محمد‘ اور ’اللہ‘ لکھا نظر آتا ہے، وہاں حضرت مریم کی وہ تصویر بھی موجود ہے، جس میں وہ حضرت عیسٰی کو گود میں لیے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے گنبد میں روشنی کے لیے تعمیر کی گئی وہ چالیس کھڑکیاں بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں، جن کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ گنبد میں دراڑیں پیدا نہ ہوں۔
تصویر: Bulent Kilic/AFP/Getty Images
بازنطینی دور کی نشانیاں
حاجیہ صوفیہ کی جنوبی دیوار پر چھوٹے چھوٹے پتھروں سے بنائی گئی یہ تصویر 14 ویں صدی عیسوی کی ہے، جسے تجدید اور مرمت کے ذریعے پھر سے بحال کیا گیا ہے۔ کافی زیادہ خراب ہونے کے باوجود اس تصویر میں مختلف چہرے صاف نظر آتے ہیں۔ اس تصویر کے وسط میں حضرت عیسٰی ہیں، اُن کے بائیں جانب حضرت مریم جبکہ دائیں جانب یوحنا ہیں۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عبادات پر پابندی
آج کل حاجیہ صوفیہ میں عبادت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ 2006ء میں اُس وقت کے پاپائے روم بینیڈکٹ شانز دہم نے بھی حاجیہ صوفیہ کے دورے کے دوران اس حکم کی پابندی کی تھی۔ اناطولیہ کے کٹر قوم پرست نوجوان اسے دوبارہ مسجد میں بدلنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے 15 ملین سے زائد دستخط بھی اکھٹے کر رکھے ہیں۔
تصویر: Mustafa Ozer/AFP/Getty Images
ایک اہم علامت
حاجیہ صوفیہ کے آس پاس مسلمانوں کی تاریخی عمارات کی کمی نہیں ہے۔ سامنے ہی سلطان احمد مسجد واقع ہے، جسے بلیو یا نیلی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ ترک قوم پرستوں کا موقف ہے کہ حاجیہ صوفیہ سلطان محمد کی جانب سے قسطنطنیہ فتح کرنے کی ایک اہم علامت ہے، اسی لیے اسے مسجد میں بدل دینا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/Arco
قدامت پسند مسیحی
قدامت پسند مسیحی بھی حاجیہ صوفیہ کی ملکیت کے حوالے سے دعوے کر رہے ہیں۔ ان کا ایک طویل عرصے سے مطالبہ ہے کہ حاجیہ صوفیہ کو مسیحی عبادات کے لیے دوبارہ سے کھولا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’حاجیہ صوفیہ کو مسیحی عقیدے کی گواہی کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا ‘۔
تصویر: picture-alliance/dpa
حاجیہ صوفیہ ’فیصلہ ابھی باقی ہے‘
حاجیہ صوفیہ کے بارے میں بالآخر کیا فیصلہ ہو گا، اس بارے میں کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ ترکی میں حزب اختلاف کی قوم پرست جماعت ’MHP‘ اسے مسجد میں تبدیل کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہے اور پارلیمان میں اُس کی دو قراردادیں بھی مسترد ہو چکی ہیں۔ یونیسکو بھی اس حوالے سے فکر مند ہے کیونکہ 1985ء سے اس میوزیم کو عالمی ثقافتی ورثے کا درجہ دیا جا چکا ہے۔