بچوں سے جنسی زیادتیاں: چلی کے تمام 34 بشپس استعفوں پر تیار
18 مئی 2018
کیتھولک مسیحیوں کے کلیسائے روم کی تاریخ میں شاذ و نادر نظر آنے والی ایک پیش رفت میں بچوں سے جنسی زیادتیوں کے ایک بہت بڑے اسکینڈل کی وجہ سے چلی کے تمام چونتیس بشپس نے پاپائے روم کو اپنے استعفوں کی پیشکش کر دی ہے۔
اشتہار
جنوبی امریکی ریاست چلی میں کیتھولک چرچ کی کئی انتہائی اعلیٰ شخصیات پر الزام ہے کہ انہوں نے اس ملک میں کلیسائی اہلکاروں کی طرف سے بچوں سے جنسی زیادتیوں کے واقعات پر پردہ ڈالنے کی کوششیں کی تھیں۔ اس پر پاپائے روم فرانسس نے چلی کے ان تین درجن کے قریب بشپس کو ایک تین روزہ کانفرنس کے لیے ویٹیکن میں طلب بھی کر لیا تھا۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق چلی میں بچوں سے جنسی زیادتی کے مرتکب پادریوں کے مبینہ جرائم اور ان پر پردہ ڈالنے کی دانستہ لیکن مجرمانہ کوششوں کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد چلی کی بشپس کانفرنس کے تمام 34 ارکان نے جمعہ 18 مئی کو پوپ فرانسس کو اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کی پیشکش کر دی۔
اس بشپس کانفرنس کی طرف سے ویٹیکن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا گیا، ’’تمام بشپس اپنی اپنی ذمے داریوں کو اس وجہ سے واپس پاپائے روم کے حوالے کرنے پر تیار ہیں کہ وہ ہم میں سے ہر ایک کے بارے میں جو بھی آزادانہ فیصلہ کرنا چاہیں، کر سکیں۔‘‘
ویٹیکن سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق پاپائے روم اب یا تو استعفوں کی یہ تمام پیشکشیں فرداﹰ فرداﹰ قبول یا مسترد کر سکتے ہیں یا وہ اس بارے میں اپنا فیصلہ مؤخر بھی کر سکتے ہیں۔ چلی کے ان قریب تین درجن بشپس نے مزید کہا، ’’ہم اپنی ان بہت سنجیدہ غلطیوں اور کوتاہیوں کے لیے (جنسی زیادتیوں کا نشانہ بننے والے) متاثرین، ان کے اہل خانہ، پاپائے روم اور بطور ملک چلی کے عوام سے اس وجہ سے انہیں پہنچنے والی تکلیف پر معافی کے طلب گار ہیں۔‘‘
نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق چلی کی جن 34 انتہائی اعلیٰ کلیسائی شخصیات نے بچوں سے جنسی زیادتیوں کے بہت بڑے اسکینڈل کی وجہ سے اپنے استعفوں کی پیشکش کی ہے، ان میں سے 31 بشپ ایسے ہیں، جو ابھی تک اپنی ذمے داریاں انجام دے رہے ہیں جبکہ باقی تین بشپ ریٹائرڈ ہیں۔
اگر پوپ فرانسس نے واقعی ان بشپس کے استعفے منظور کر لیے، تو کلیسائے روم کی تاریخ میں یہ بشپس کی سطح کے مذہبی عہدیداروں کے وسیع پیمانے پر استعفوں کا اپنی نوعیت کا آج تک کا اولین واقعہ ہو گا۔
چلی میں کیتھولک کلیسا کی انتہائی اعلیٰ شخصیات کی طرف سے بچوں سے جنسی زیادتیوں کے اس وسیع تر اسکینڈل کی ایک مرکزی شخصیت خوآن باروس نامی ایک بشپ بھی ہیں، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نہ صرف ایسے بہت سے جنسی جرائم کے گواہ بھی تھے بلکہ انہوں نے ان کے مرتکب کلیسائی عہدیداروں کو بچانے کے لیے ان زیادتیوں کو نظر انداز بھی کیا تھا۔
السلط، اردن میں مذہبی ہم آہنگی کی جنت
دنیا بھر میں مسیحیوں اور مسلم دنیا کے درمیان کشیدگی اپنی جگہ مگر اردن کا السلط شہر بین المذاہب ہم آہنگی کا ایک خوب صورت گہوارہ ہے، جسے اٹلی سے تعلق رکھنے والی فوٹوگرافر فاطمہ عابدی نے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا ہے۔
تصویر: Fatima Abbadi
قدیم شہر
فوٹوگرافر فاطمہ عابدی ابوظہبی میں پیدا ہوئیں، مگر انہوں نے پڑھائی کی غرض سے دس برس اردن کے علاقے السلط میں گزارے۔ اس شہر کی بیناد تین سو قبلِ مسیح میں رکھی گئی تھی اور اب وہاں قریب نوے ہزار افراد مقیم ہیں۔ اس شہر میں بیک وقت عرب اور یورپی ثقافت پوری ہم آہنگی کے ساتھ ملتی ہے۔
تصویر: Fatima Abbadi
دیوار نہیں، تقسیم نہیں
السلط شہر کو عالمی ادارہ برائے ثقافت یونیسکو کی عالمی ورثے کے فہرست کے لیے نامزد کیا جا چکا ہے۔ اس شہر میں مسلم اکثریت اور مسیحی آبادی بغیر کسی تقسیم کے ساتھ ساتھ رہ رہے ہیں۔ اسی طرح مشرقی اور مغربی ثقافتیں بھی اس شہر میں ایک دوسرے سے ملتی نظر آتی ہیں۔
تصویر: Fatima Abbadi
سینٹ جارج سے الخضر تک
السلط کے مسیحیوں نے شہر کی ثقافتی، معاشی اور سیاسی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ السلط میں ان دونوں مذاہب کی تاریخ زبردست رنگ سے ملتی ہے۔ یہاں شہر میں سینٹ جارج نامی چرچ کے اطراف میں آرائشی پتھروں پر قرآن کی آیات بھی لکھی نظر آتی ہیں اور بائبل کے مناظر بھی۔
تصویر: Fatima Abbadi
سب کی جگہ
یہ مقدس عمارت ایک چرواہے کے اس خواب کے بعد سن 1682ء میں تعمیر کی گئی تھی، جس میں اس نے دیکھا تھا کہ سینٹ جارج نے اس کے مویشیوں کو ایک بلا سے محفوظ رہنے کے لیے چرچ تعمیر کرنے کی تاکید کی تھی۔ تب سے اب تک مسیحی اور بہت سے مسلمان اس چرچ میں آتے ہیں اور سینٹ کے حوالے سے یہاں دیپ جلاتے ہیں۔
تصویر: Fatima Abbadi
دو ہزار سال پرانی تاریخ
اردن اور مسیحیت کے درمیان تعلق قدیم ہے۔ دریائے اردن ہی کے کنارے یسوع نے بپتسمہ دیا تھا۔ بہت سے مسیحی خاندان پہلی سنِ عیسوی سے یہاں آباد ہیں اور عوامی طور پر عبادت کرتے ملتے ہیں۔ اردن میں مسیحی پارلیمان کا حصہ ہیں اور حکومتی انتظام میں بھی پیش پیش ہیں۔
تصویر: Fatima Abbadi
مظاہرے اور دعوے
شاہ عبداللہ ثانی کی جانب سے سینکڑوں برس کے پرامن ساتھ کے حوالے دیے جانے اور یہ تک کہنے کہ عرب مسیحی اس خطے کے ماضی حال اور مستقبل کا کلیدی حصہ ہیں، تاہم حالیہ کچھ برسوں میں اردن میں مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان کشیدگی کچھ زیادہ ہوئی ہے۔ اسی تناظر میں اردن میں مظاہرے بھی دیکھے گئے۔ تاہم السلط شہر میں اس کشیدگی کا کوئی اثر نہیں ملتا۔
تصویر: Fatima Abbadi
ایک زبردست اجتماع
کرسمس کے موقع پر مسلمان سب سے پہلے اپنے دروازے مسیحیوں کے ساتھ اس تہوار کو منانے کے لیے کھولتے ہیں اور اسی طرح مسلمانوں کے تہوار کے موقع پر مسیحی مہمان نوازی میں آگے آگے دکھائی دیتے ہیں۔ حالیہ انتخاب میں ایک مسیحی خاتون نے شہری کونسل کی اہم نشست پر کامیابی حاصل کی۔ السلط کی مجموعی آبادی کا 35 فیصد مسیحیوں پر مبنی ہے۔
تصویر: Fatima Abbadi
امن کا نسخہ، احترام
عابدی کی السلط کی ان تصاویر میں روایتی زرعی زندگی سے شہر میں آج کی مغربی اقدار سب دکھائی دیتی ہیں۔ عابدی کو یقین ہے کہ دنیا میں کوئی بھی واقعہ اس شہر میں لوگوں کے باہمی رشتوں کو اثرانداز نہیں کر سکتا، کیوں کہ یہاں لوگوں کے درمیان باہمی تعلق کی تاریخ نہایت قدیم ہے اور وجہ یہ ہے کہ سبھی ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور رہتے یوں ہیں، جیسا یہ کوئی شہر نہیں بلکہ ایک بڑا سا گھرانہ ہو۔
تصویر: Fatima Abbadi
8 تصاویر1 | 8
آج جمعہ 18 مئی کو ہی چلی کے ایک ٹی وی چینل نے 2,300 صفحات پر مشتمل ایک ایسی رپورٹ بھی جاری کر دی، جو برس ہا برس تک چلی میں بچوں سے ان جنسی زیادتیوں سے متعلق ویٹیکن کے اپنے تفتیشی اہلکاروں نے طویل چھان بین کے بعد تیار کی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق پوپ فرانسس نے اس وجہ سے چلی میں اعلیٰ کلیسائی انتظامیہ پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے کہ وہ نہ صرف بچوں کے تحفظ میں ناکام رہی بلکہ اس نے ایسے جرائم کی چھان بین کرنے یا کرانے کی تکلیف بھی نہین کی تھی۔
م م / ع ح / اے ایف پی، اے پی
جب یسوع مسیح کی خاطر شدید سردی برداشت کرنی پڑے
روس میں ہر سال انیس جنوری کی رات کو ظہور یسوع مسیح کی یاد میں ایک تہوار منایا جاتا ہے جسے ’ایپی فینیا‘ کا تہوار کہتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ کی آمد کا جشن منانے کے لیے عقیدت مند برفیلے پانی میں ڈبکی لگاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/I. Naymushin
پبتسمہ کی علامت
پانی میں ڈبکی لگانے کے اس عمل کو مسیحیت کی ایک بنیادی مذہبی رسم بپتسمہ کی ادائیگی کے طور پر لیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/I. Naymushin
پانی زندگی ہے
ایپی فینیا تہوار کی ایک روایت یہ ہے کہ آرتھوڈوکس مسیحی عقیدے سے تعلق رکھنے والے پادری پانی کو برکت کی دعا کے طور پر لیتے ہیں۔ پانی مسیحی مذہب کے حوالے سے کئی رسوم میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بپتسمہ بھی ان ہی میں سے ایک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Tass/A. Novoderezhkin
مقدس تثلیث
آرتھو ڈوکس رسم کے مطابق عقیدت مند کو مسیحیت کے نظریہ تثلیث کے تحت والد، بیٹے اور روح القدس کے نام پر پانی میں تین بار غوطہ لگانا ہوتا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
دیدہ زیب صلیب
سینٹ پیٹرز برگ کے دہلیز پر عقیدت مند حضرات ایک بہت متاثر کن فضا میں ایپی فینی غسل لے سکتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Maltseva
منتظمین کے لیے بھی بہت ٹھنڈ ہے
منفی پچیس ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر منجمد دریائے ینیسی میں گڑھا کھودنا آسان کام نہیں۔ مقامی انتظامیہ نے انتہائی سرد ٹمپریچر کے باعث جزوی طور پر اس رسم کی ادائیگی پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
تصویر: Reuters/I. Naymushi
ایک آرتھو ڈوکس کی خصوصیت
ایپی فینیا کا تہوار مشرقی مسیحی چرچ میں مسیحیت کے دیگر فرقوں سے مختلف ہے۔ علاوہ ازیں مشرقی چرچ کی تقویم بھی قدیمی جولین کیلنڈر پر مبنی ہے جس کے مطابق کرسمس سات جولائی کو آتا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
روسی صدر پوٹن نے بھی تہوار منایا
روسی صدر پوٹن بھی رواں ماہ آمد یسوع مسیح کے تہوار میں شرکت کرنے پادریوں اور اہم شخصیات کے جلو میں چرچ پہنچے۔ منفی پانچ ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں بالائی جسم کو ڈھانکے بغیر پوٹن نے مذہبی رسم پوری کرتے ہوئے پانی سے بپتسمہ لیا۔
تصویر: Reuters/Sputnik/Kremlin/A. Druzhinin
افراد کی تحریک، عقیدہ
گزشتہ برس دو ملین روسی باشندوں نے برف کے غسل کی مذہبی رسم میں حصہ لیا تھا۔ یہ رسم روس میں ہر سال اٹھارہ اور انیس جنوری کی درمیانی رات میں ادا کی جاتی ہے۔