بچوں سے جنسی زیادتیوں کا اسکینڈل: بچوں کی حفاظت کیسے کی جائے
28 جنوری 2020
جرمنی میں دس سال قبل بچوں سے جنسی زیادتیوں کے ایک بہت بڑے اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد سے بچوں اور نوجوانوں کو ایسے جرائم سے بچانے کے لیے بہت کچھ کیا جا چکا ہے، مگر ماہرین کے مطابق ابھی مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Kirchner
اشتہار
اس اسکینڈل کا سامنے آنا ایسے ہی تھا، جیسے کسی بہت بڑے ڈیم کا بند ٹوٹ گیا ہو۔ اٹھائیس جنوری 2010ء کے روز برلن کے بہت مشہور کانیسیئس کالج نامی جمنازیم کے ریکٹر نے اس تعلیمی ادارے کے سابق طلبہ کے نام ایک خط میں تسلیم کر لیا تھا کہ 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں کے دوران اس کیتھولک اسکول میں بہت سے بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں کی جاتی رہی تھیں۔
اس پیش رفت کے بعد چند ہی ہفتوں کے اندر اندر جرمنی بھر سے ایسے افراد اور اداروں کی طرف سے انکشافات کا ایک پورا سلسلہ شروع ہو چکا تھا کہ ان کے ساتھ بھی یا ان اداروں میں بھی جنسی زیادتی کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ ان اداروں میں کیتھولک مسیحی ادارے بھی شامل تھے۔
اس بارے میں جرمنی کی خاندانی امور کی وفاقی وزیر فرانسسکا گیفائی نے برلن میں کل پیر ستائیس جنوری کے روز Redaktionsnetzwerk نامی صحافتی ادارے کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اس اسکینڈل کے دس برس بعد ملک میں جنسی زیادتیوں یا جنسی استحصال کے واقعات سے متعلق اعداد و شمار آج بھی بہت ہوش ربا ہیں۔
بچوں کے جنسی استحصال کے روزانہ 40 واقعات
جرمن پولیس کے ڈیٹا کے مطابق صرف سال 2018ء میں جنسی زیادتیوں یا جنسی تشدد سے متاثر ہونے والے بچوں کی تعداد 14 ہزار 600 سے زائد رہی۔ اس کا مطلب ہے، ہر روز ایسے تقریباﹰ 40 واقعات، جن کی پولیس کو باقاعدہ اطلاع بھی دی جاتی ہے۔ ایسے ممکنہ واقعات اس تعداد کے علاوہ ہیں، جو پولیس کو رپورٹ نہیں کیے جاتے۔
2011ء سے جرمنی میں بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات کی چھان بین کے نگران غیر جانبدار وفاقی اہلکار یوہانس ولہیلم روئرِگ ہیںتصویر: Christine Fenzl
ماہرین کا کہنا ہے کہ جرمنی میں، جو یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، بچوں کے جنسی استحصال اور ان پر جنسی تشدد کے ملک بھر میں مجموعی واقعات کی اصل سالانہ تعداد چودہ پندرہ ہزار سے کہیں زیادہ بنتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت یا ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کے بقول جرمنی میں ایسے بچوں کی تعداد ایک ملین تک ہو سکتی ہے، جنہیں زندگی میں کسی نہ کسی صورت میں جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا یا اب تک کرنا پڑ رہا ہے۔
2010ء میں سامنے آنے والے بچوں کے جنسی استحصال کے اسکینڈل کے دس برس پورے ہونے کے موقع پر خاندانی امور کی جرمن وزیر گیفائی نے کہا کہ بچوں اور نوجوانوں کو جنسی زیادتیوں اور جنسی تشدد سے بچانے کے لیے ابھی تک بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں اور نوجوانوں کو جنسی زیادتیوں سے بچانے کے لیے معاشرے کو اجتماعی طور پر مزید اقدامات کرنا ہوں گے اور ان کے خلاف ہر کسی کو اپنا فرض ادا کرنا ہو گا۔
جرمنی کی سو شل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) سے تعلق رکھنے والی سیاستدان فرانسسکا گیفائی نے کہا، ''چاہے اسکول ہوں، کنڈر گارٹن، کلیسائی ادارے یا کھیلوں سے متعلق تنظیمیں، ہمیں اپنے بچوں کے لیے ہر جگہ پر زیادہ سے زیادہ ممکنہ حد تک تحفظ کو یقینی بنانا ہو گا۔ اس کے لیے اب تک کی جانے والی کوششوں میں مزید اضافے کی بھی ضرورت ہے۔‘‘
اسکینڈل کے بعد کیے گئے اقدامات
ٹھیک ایک عشرہ قبل جرمنی میں بچوں سے جنسی زیادتیوں کے واقعات کے بہت بڑے اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد دو ماہ کے اندر اندر وفاقی حکومت نے کئی مختلف اقدامات کیے تھے، جن میں نئی قانون سازی بھی شامل تھی۔ اس کے علاوہ خاندانی امور کی ایک سابقہ وفاقی وزیر کرسٹینے بیرگمان کو وفاقی حکومت کی ایسی خصوصی لیکن غیرجانبدار اہلکار بھی نامزد کر دیا گیا تھا، جن کا کام بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات کی چھان بین اور ان کے قصور وار افراد کے خلاف کارروائی کو یقینی بنانا تھا۔
اس کے علاوہ 2016ء سے جرمنی میں ایک ایسا غیر جانبدار کمیشن بھی کام کر رہا ہے، جس کے فرائض میں بچوں سے جنسی زیادتیوں اور ان کے استحصال کے واقعات کی چھان بین ہے۔ یہ واقعات چاہے خاندان کے اندر رونما ہوئے ہوں، کسی تعلیمی یا کلیسائی ادارے میں یا پھر کھیلوں کی کسی تنظیم میں، اب تک اس کمیشن کو ایسے ڈیڑھ ہزار واقعات کی باقاعدہ اطلاع مل چکی ہے، جن پر یہ وفاقی کمیشن اپنا کام یا تو کر چکا ہے یا اب تک کر رہا ہے۔
عالمی یوم اطفال، وعدے جو ایفا نہ ہوئے
رواں برس عالمی یوم اطفال کا نعرہ ہے ’بچوں کو آزادی چاہیے‘۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو آج یہ دن پورے جوش سے منایا جا رہا ہے، مگر دنیا کے کئی خطے ایسے ہیں، جہاں بچے شدید نوعیت کے مسائل کا شکار ہیں۔
تصویر: Mustafiz Mamun
بچوں کی جبری مشقت
بنگلہ دیش میں ساڑھے چار ملین سے زائد بچے ملازمت کرنے پر مجبور ہیں۔ جن میں سے بعض کام انتہائی خطرناک ہیں جب کہ تنخواہ بہت کم۔ مشقت کرتے یہ بچے اس ملک میں کئی مقامات پر دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Mustafiz Mamun
کھیلنے کی بجائے وزن کھینچتے بچے
جس عمر میں بچوں کو اسکول جانا چاہیے اور پرسکون زندگی گزارنا چاہیے، ایسے میں بنگلہ دیش کی اس بچی جیسے لاکھوں بچے، تعلیم کا فقط خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ لڑکی صحت اور نشوونما پر پڑھنے والے منفی اثرات سمجھے بنا کھیلنے کودنے کی عمر میں روزانہ پتھر ڈھوتی ہے۔
تصویر: Mustafiz Mamun
کام، جشن یا جدوجہد؟
عالمی یوم اطفال کا اصل مقصد بچوں کے حقوق اور تحفظ سے متعلق شعور و آگہی دینا ہے۔ بعض ممالک میں یوم اطفال یکم جون کو منایا جاتا ہے، مگر جرمنی میں یہ دن 20 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ یوم اطفال 20 نومبر کو مناتی ہے۔ اس دن سن 1989 میں عام معاہدہ برائے حقوقِ اطفال طے پایا تھا۔
تصویر: Mustafiz Mamun
مشین کے پرزوں کے لیے کھیل کا وقت کہاں
عالمی یوم اطفال کے دن بھی یہ گیارہ سالہ بچہ اس فیکٹری میں مچھروں سے بچنے والی جالی کی تیاری میں مصروف ہے۔ جنوبی بھارت میں ایسی بہت سی فیکٹریاں اور کارخانے ہیں، جہاں حفاظتی اقدامات کی حالت مخدوش ہے۔ یہاں زندگی یا جسمانی اعضاء کھو دینے کا احتمال ہمیشہ رہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER
دل چیرتا دکھ
بھارت میں انیل نامی ایک خاکروب ہلاک ہو گیا، تو اس کے بیٹے کو کم عمری میں یتیمی دیکھنا پڑی۔ شیو سنی گیارہ برس کا ہے اور یہ تصویر شائع ہو جانے کے بعد بہت سے افراد کی آنکھیں بھیگ گئیں اور اس کے لیے ساڑھے 37 ہزار یورو کے برابر امدادی رقم جمع ہوئی۔
تصویر: Twitter/Shiv Sunny
بچے اب بھی فوج میں بھرتی
بچوں کو فوج میں بھرتی کیا جانا، بچوں کے استحصال کی بدترین قسم قرار دیا جاتا ہے، تاہم یہ نوجوان جنگجو صومالیہ کی الشباب تنظیم کا رکن ہے اور اپنا زخمی ہاتھ دکھا رہا ہے۔ بہت سے بچوں کو جنسی استحصال یا غلامی یا منشیات کی فروخت کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Dahir
دیواریں اور سرحدیں
بچوں کی جبری مشقت ہی نہیں بلکہ سرحدوں اور دیواروں نے بھی بچوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایات پر میکسیکو سے امریکا میں داخل ہونے والے بچوں کو ان کے والدین سے الگ کر دیا گیا۔ بین الاقوامی تنقید کے بعد آخرکار انہوں نے یہ انتظامی حکم نامہ واپس لیا۔
تصویر: Reuters/J. Luis Gonzalez
محدود آزادی
تین پاکستانی بچیاں گدھا گاڑی چلا رہی ہیں۔ یہ وہ تجربہ ہے، جو کسی امیر ملک میں کوئی بچہ شاید موج مستی کے لیے کرتا، مگر پاکستان کے پدارنہ معاشرے میں ان تین بچیوں کی یہ ’آزادی‘ زیادہ طویل نہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/S. Seher
8 تصاویر1 | 8
مشاورتی مرکز کے بھی پاس اٹھائیس ہزار واقعات
2011ء سے جرمنی میں بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات کی چھان بین کے نگران غیر جانبدار وفاقی اہلکار یوہانس ولہیلم روئرِگ ہیں۔ ان کے مطابق اس مسئلے کے حل کے لیے قائم کیے گئے وفاقی مشاورتی مرکز کی مختلف ذیلی شاخوں کو مجموعی طور پر 28 ہزار ایسے واقعات کی اطلاع مل چکی ہے، جس کے بعد متاثرہ افراد کی سماجی نفسیاتی مشاورت یا تو مکمل ہو چکی ہے یا یہ عمل ابھی تک جاری ہے۔
یوہانس ولہیلم روئرِگ کے مطابق جرمنی میں اس سماجی مسئلے اور بچوں کے جنسی استحصال کی روک تھام کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ متاثرہ افراد کی شکایات کو توجہ سے سننے اور معاشرتی سطح پر ہر وقت آنکھیں کھلی رکھنے کی سوچ کی ترویج کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ خاص طور پر تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو بھی اس حوالے سے باقاعدہ تربیت دینے کی ضرورت ہے کہ وہ بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات کو کس طرح کے شواہد کی بنیاد پر شروع میں ہی پہچان سکتے اور ان کی روک تھام میں مدد دے سکتے ہیں۔
یہ وہ جملہ اقدامات ہیں، جو جرمنی میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران بچوں سے جنسی زیادتیوں کے واقعات کی روک تھام اور ان کے قبل از وقت تدارک کے لیے کیے جا چکے ہیں۔ روئرِگ کے مطابق ان اور ان جیسے دیگر اقدامات پر حکومتی، مقامی حکومتی اور عوامی سطحوں پر عمل کر کے ہی آج کے جرمن معاشرے میں بچوں کے جنسی استحصال اور تشدد سے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
ہیلینا کاشل (م م / ع ا)
جرمنی میں اسکول کا پہلا دن کیسا ہوتا ہے
بعض بچے انتہائی خوش تو کچھ خوفزدہ، مگر کوئی بھی بچہ اس سے بچ نہیں سکتا۔ جرمنی میں اسکول کا پہلا دن مختلف رسومات سے بھرپور ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض تو صدیوں پُرانی ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
تحائف سے بھری کون
جرمنی میں کسی بھی بچے کے اسکول کے پہلے دن کی سب سے اہم بات، ’شُول ٹیوٹے‘ یا اسکول کون ہوتی ہے۔ یہ ایک طرح کی علامت ہوتی ہے کہ اسکول میں بچے کے اگلے 12 یا 13 برسوں کا ہر ایک دن میٹھا رہے گا اور اس کے لیے تحائف لائے گا۔ یہ ایک ایسی روایت ہے جو انیسویں صدی کے آغاز سے چلی آ رہی ہے۔ مخروطی شکل کی گتے کی بنی اس بڑی سی کون میں تحفے، اسکول میں استعمال کی جانے والی چیزیں اور مٹھائیاں ہوتی ہیں۔
تصویر: imago/Kickner
ایک نئے مرحلے کا آغاز
اسکول کے پہلے سال کے پڑھائی کا آغاز اگست یا ستمبر میں ہوتا ہے اور داخلے کے لیے بچی کی عمر چھ سال ہونی چاہیے۔ ان کی اکثریت پہلے ہی ڈے کیئر سنٹر یا کنڈرگارٹن میں کچھ برس بِتا چکے ہوتے ہیں جو پبلک اسکول کا حصہ نہیں ہوتے اور نہ ہی ان میں پڑھنا لکھنا سکھایا جاتا ہے۔ جرمنی میں بہت سے بچوں اور والدین کے لیے بھی پہلا سال ایک نیا مرحلہ ہوتا ہے اور بہت مختلف بھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/S.Khan
ضرورت کے عین مطابق بستہ
اسکول کے پہلے دن سے قبل ہی والدین اپنے بچے کے لیے بیگ پیک یا کمر پر لادا جانے والا بستہ خریدتے ہیں جسے ’شول رانزن‘ کہا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر چوکور شکل کا ہوتا ہے تاکہ اس میں نہ تو کاغذ یا کتابیں مڑیں اور نہ ہی کھانے کی چیزیں پھیلیں۔ بچوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ نئے ڈیزائن اور خوبصورت ترین بیگ پیک خریدیں۔ رواں برس ’اسٹار وار‘ کے ڈیزائن والے بیگ زیادہ مقبول ہیں جبکہ سپر مین ہمیشہ سے مقبول رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اسکول کے لیے ضروری اشیاء
چوکور شکل کے بستے کی خریداری کے بعد اسکول کے پہلے روز سے قبل ہی اس میں ڈالنے کے لیے چیزوں مثلاﹰ پینسلیں، پین، فٹے اور فولڈرز وغیرہ کی خریداری کا مرحلہ آتا ہے۔ جرمنی میں نو عمر طلبہ عام طور پر اسکول میں لنچ نہیں کرتے۔ اس کی بجائے بریک کے دوران کھانے کے لیے گھر پر تیار کردہ ہلکے پھلکے کھانے پینے کی چیزیں ساتھ لے جاتے ہیں اور اس کے لیے مناسب بوُکس یا ڈبے کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gentsch
زندگی بھر یاد رہنے والا دن
دنیا بھر میں ہی تقریباﹰ ہر بچے کی اسکول کے پہلے دن تصویر ضرور اُتاری جاتی ہے۔ جرمنی میں بچے اس موقع پر اپنے ’شُول ٹیوٹے‘ کے ساتھ تصویر بنواتے ہیں، جو بعض اوقات ان کے اپنے قد سے بھی بڑا ہوتا ہے۔ مگر بچوں کے لیے عام طور پر یہ مصروفیت ان کے اسکول کے پہلے دن کی سب سے اہم بات نہیں ہوتی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Hirschberger
دعاؤں کے ساتھ آغاز
جرمنی میں اسکول کا پہلا دن دراصل اسکول سے شروع نہیں ہوتا، بلکہ ایک خصوصی تقریب سے اس کا آغاز ہوتا ہے جس میں بچوں کے والدین اور دیگر رشتہ دار بھی مدعو ہوتے ہیں۔ چرچ میں دعائیہ تقریب بھی عام طور پر اس روایت کا حصہ ہوتی ہے تاکہ نیا تعلیمی سلسلہ شروع کرنے پر بچوں کو دعاؤں سے نوازا جائے۔ بعض اسکول مسلمان بچوں کے لیے بین المذاہب تقریب کا اہمتام بھی کرتے ہیں۔ مسلمان بچوں کے لیے چرچ جانا ضروری نہیں ہوتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تجربہ کار لوگوں کی طرف سے رہنمائی
تقریب کے دوران اسکول کی بڑی کلاسوں کے طلبہ یا اساتذہ کی طرف سے نئے آنے والے بچوں کو پرفارمنس کے ذریعے یہ بتایا جاتا ہے کہ اسکول کی مصروفیات کیا ہوں گی یا اسکول میں کن چیزوں کا خیال رکھنا ہے۔ بعض اسکولوں میں ہر نئے آنے والے بچے کو تیسری یا چوتھی کلاس کا ایک بچہ اپنے ساتھ لے جا کر کلاس رُوم وغیرہ دکھاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
اسکول کی عمارت کا تعارفی دورہ
پہلے روز کی مصروفیات میں بچوں کو اسکول کی عمارت کا ایک تعارفی دورہ بھی شامل ہوتا ہے اور پہلی کلاس میں آنے والے بچوں کو ان کی کلاسیں بھی دکھائی جاتی ہیں۔ اس تصویر میں نئے آنے والے بچوں کے لیے کلاس میں خوش آمدید لکھا ہوا نظر آ رہا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/G. Kirchner
فیملی گیٹ ٹو گیدر
اسکول میں ہونے والی تقریب کے بعد خاندان اپنے طور پر اس اہم دن کو منانے کا اہتمام کرتے ہیں جس میں دادا، دادی، نانا، نانی، خاندان کے دیگر افراد اور دوستوں وغیرہ کو مدعو کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر خصوصی کھانے اور کیک وغیرہ تیار کیے جاتے ہیں۔ مہمان اور خاندان کے افراد کی طرف سے بچے کو تحائف بھی ملتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/R. Goldmann
اسکول کا دوسرا دن
اسکول کی تقریب، کیک اور خصوصی کھانوں وغیرہ اور ’شُول ٹیوٹے‘ کھولے جانے کے ساتھ ہی عموماﹰپہلا دن تمام ہوتا ہے۔ اسکول کے دوسرے دن پہلی کلاس میں آنے والے یہ بچے اپنا پہلا سبق شروع کرتے ہیں۔ جرمنی میں ایلیمنٹری اسکول پہلی سے چوتھی تک ہوتا ہے۔ جس کے بعد وہ اپنی کارکردگی کی بناء پر تین مختلف طرح کے اسکولوں میں سے کسی ایک میں چلے جاتے ہیں۔