1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
صحتجرمنی

بچوں میں سانس کی بیماریاں، جرمن ہسپتالوں میں گنجائش ختم

4 دسمبر 2022

ایک سروے نتائج کے مطابق 110 میں سے 43 ہسپتالوں کے عام وارڈز میں بچوں کے لیے بستر خالی نہیں ہیں۔ مریضوں میں اضافے کی وجہ ناک، گلے اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کا سبب بننے والے آر ایس وی وائرس کا پھیلاؤ ہے۔

Kinder Virus Surge
تصویر: Matej Kastelic/Zoonar/picture alliance

جرمن ڈاکٹروں نے خبردار کیا ہے کہ بچوں کے انفیکشن میں اضافے اور عملے کی کمی کی وجہ سے ملک میں بچوں کے لیے انتہائی نگہداشت کے بستروں کی شدید کمی ہے۔ نظام تنفس کے سنسیشیئل وائرس(آر ایس وی) کی وجہ سے خاص طور پر سانس کی بیماریاں بڑے پیمانے پر بڑھ گئی ہیں۔ یہ ایک انتہائی متعدی وائرس ہے، جو بڑے اور چھوٹے بچوں کو متاثر کرتا ہے۔

کرونا لاک ڈاؤن کی پابندیوں کی وجہ سے آر ایس وی وائرس کے پھیلاؤ میں جو کمی آئی تھی، وہ ان پابندیوں کے ختم ہونے کے بعد تیرزی سے دوبارہ پھیلنا شروع ہو گیاتصویر: CDC via AP/picture alliance

ہیلتھ ورکرز کیوں پریشان ہیں؟

یہ انتباہ جرمن انٹر ڈسپلنری ایسوسی ایشن فار انٹینسیو کیئر اینڈ ایمرجنسی میڈیسن (ڈیوی) نے ایک سروے کے بعد بستروں کی کمی کی حد تک سامنے آنے کے بعد جاری کیا ہے۔ بچوں کی انتہائی نگہداشت کے یونٹوں میں فی ہسپتال اوسطاً صرف 0.75  بستر تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ مریض بچوں کے لیے ایک سے بھی کم بستر دستیاب ہے۔

جن 110 ہسپتالوں کا سروے کیا گیا ان میں سے 43 ہسپتالوں میں ان کے عام وارڈز میں بچوں کے لیے بستر خالی نہیں تھے۔ سروے میں شامل دو ہسپتالوں میں سے ایک نے کہا کہ انہیں ایمبولینس سروس یا ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ کی درخواست کے بعد گزشتہ 24 گھنٹوں میں ایک بچے کو واپس بھجوانا پڑا۔

ڈیوی کے جنرل سیکرٹری فلوریان ہوفمان نے کہا، ''یہ ایک تباہ کن صورتحال ہے۔ اس کو بیان کرنے کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے۔ اس لیے ہم بچوں کے  ہسپتالوں میں کام کے حالات کو فوری طور پر بہتر کرنے، بچوں کی سہولیات کے لیے ٹیلی میڈیکل نیٹ ورکس کے قیام اور بچوں کی انتہائی نگہداشت کے خصوصی ٹرانسپورٹ سسٹم کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہمیں ابھی عمل کرنا ہے۔‘‘

جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ صحت کے شعبے کی موجودہ صورتحال میں بہتری لانے کے لیے مالی مدد کی جائے گی۔تصویر: Jean-Christophe Verhaegen/AFP/Getty Images

آر ایس وی ایک خطرہ کیوں؟

RSV ( ریسپائریٹری سنسیشیئل وائرس)  ناک، گلے اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کا سبب بننے والے بہت سے وائرس میں سے ایک ہے۔ یہ عام طور پر موسم خزاں کے آخر سے لے کر ابتدائی موسم بہار تک پھیلتا ہے۔ تقریباً تمام بچے 2 سال کی عمر سے پہلے کم از کم ایک بار اس وائرس کا شکار ہوتے ہیں اور زیادہ تر صحت مند بچوں کے لیے اس کی علامات سردی سے زیادہ شدید نہیں ہوتیں۔ تاہم، کچھ بچے آر ایس وی سے بہت بیمار ہو جاتے ہیں۔

ماسک پہننے اور جسمانی دوری کا مطلب ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران اور اس کے بعد بھی، جب کووڈ انیس کی پابندیاں سخت رہیں توآر ایس وی کے بہت کم کیسز ہوئے۔ تاہم کورونا کی پابندیوں میں نرمی کے بعد سے آر ایس وی ایک بار پھر پھیل گیا۔

یہ  ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب  وبائی بیماری کی وجہ سے بچوں کے مدافعتی نظام بیماری کو روکنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ یونیورسٹی ہسپتال ڈریسڈن میں بچوں کی انتہائی نگہداشت کے یونٹ کے سربراہ سیباسٹین برینر نے کہا، ''آر ایس وی کی لہر مسلسل بڑھ رہی ہے اور ان میں بہت سے بچوں کو سانس لینے میں مدد کے ساتھ علاج کو ضروری بناتی ہے۔‘‘

جرمن وزیر صحت کا کہنا ہے کہ حکومت اگلے دو سالوں میں بچوں کے ہسپتالوں کو اضافی 630 ملین ڈالر فراہم کرے گیتصویر: MICHELE TANTUSSI/REUTERS

وزیر صحت کا مدد کا وعدہ

جرمن وزیر صحت کارل لاؤٹرباخ نے شدید مسائل کا شکار صحت کے شعبے کے لیے امدادی اقدامات پر زور دیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ حکومت نرسوں کو پیڈیاٹرک یونٹس میں منتقل کرنا آسان بنانے کے لیے کچھ ضوابط میں نرمی کرے گی اور اگلے دو سالوں میں بچوں کے ہسپتالوں کو اضافی 630 ملین ڈالر فراہم کرے گی۔

لاؤٹرباخ کا کہنا تھا، ''بچوں کو اب ہماری پوری توجہ کی ضرورت ہے۔‘‘ لاؤٹرباخ خود بھی ایک تربیت یافتہ وبائی امراض کے ماہر ہیں، نے مزید کہا کہ یہ خبر''بہت تشویشناک ہے۔ ہمیں ایسی صورتحال کا سامنا ہے جہاںجرمنیمیں بچوں کے لیے 100 سے کم انتہائی نگہداشت کے بستر دستیاب ہیں۔‘‘

جرمن وزیر صحت نے بالغ افراد سے بھی اپیل کرتے ہوئے کہا، ''اگر آپ کو سردی کی علامات محسوس ہوتی ہیں تو براہ کرم ماسک پہنیں، خاص طور پر اگر آپ دو سال سے کم عمر کے بچوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔‘‘ آر ایس وی کی لہر ابھی ختم نہیں ہوئی تاہم لاؤٹرباخ نے کہا کہ صورتحال قابو میں ہے اور منصوبہ بند اقدامات سے اس صورتحال میں بہتری لانے کے لیے مدد کی جائے گی۔

ش ر⁄ ع ا (ڈی پی اے، روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں