1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بچوں میں شدت پسندی کے انسداد کا جرمن منصوبہ

9 جنوری 2019

جرمنی میں ایسے ماں باپ کی معاونت کا ایک نیا منصوبہ شروع کیا گیا ہے، جنہیں خدشات ہیں کہ ان کے بچے شدت پسندی کی جانب راغب ہو سکتے ہیں۔

Deutschland Symbolbild Salafismus
تصویر: picture alliance/dpa/J. Stratenschulte

اس نئے آزمائشی منصوبے کا آغاز بدھ کے روز کیا گیا ہے۔ اس منصوبے میں ایسے والدین کو مشورے اور معاونت فراہم کی جائے گی، جنہیں خدشات ہیں کہ ان کے بچے شدت پسندی کی جانب مائل ہو سکتے ہیں۔ جرمنی میں یہ منصوبہ ترک کمیونٹی تنظیم ٹی جی ڈی نے شروع کیا ہے اور ابتدا میں یہ خدمات ترک اور عرب والدین کو دی جا رہی ہیں، تاہم جرمن نسل کے باشندے بھی اس پروگرام سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

جرمنی ميں ’داعش‘ نظریات کے حامل  گھرانوں کے بچے

شدت پسند مسلم بچے جرمنی کے لیے ’سنگین خطرہ‘

اس سروس کا نام ’ایمیل‘ رکھا گیا ہے، جو ایک طرف تو لفظ ’ای میل‘ اور دوسری جانب ترک نام سے عبارت ہے۔ اس منصوبے کے تحت والدین ای میل یا طے شدہ وقت میں لائیو چیٹ کے ذریعے مدد حاصل کر سکیں گے۔

اس منصوبے کے لیے جزوی طور پر سرمایہ یورپی یونین اور جرمنی کی وزارت برائے خاندان نے فراہم کیا ہے، جب کہ یہ کونسلنگ سروس رواں برس کے اختتام تک جاری رہے گی۔ تاہم سرمایہ فراہم کرنے والوں کے مطابق اس مد میں مزید سرمایہ فراہم کیا جاتا رہے گا، تاکہ یہ منصوبہ جاری ہے۔

ایک طویل عرصے سے جرمن حکام ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ جرمنی میں بچے انٹرنیٹ کی وجہ سے شدت پسندی کی جانب مائل ہو جانے کے خطرات کا شکار ہیں۔ سن 2013 تا 2017 جرمنی میں ایسے افراد جنہیں شدت پسند سمجھا جاتا ہے، ان کی تعداد سو سے بڑھ کر سولہ سو ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ دہشت گردانہ منصوبوں یا سرگرمیوں سے متعلق قریب چار باوثوق اطلاعات یومیہ بنیادوں پر موصول ہونے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

دوسری جانب جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کے شدت پسندوں کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ جرمنی میں رواں برس کے آغاز سے اب تک اسی تناظر میں ایک حملہ بھی ہو چکا ہے، جب ایک شخص نے بوٹروپ شہر میں راہ گیروں پر گاڑی چڑھا کر آٹھ افراد کو زخمی کر دیا تھا، حکام کے مطابق اس شخص کا مقصد غیرملکیوں کو نشانہ بنانا تھا۔

ع ت، الف الف (ڈی پی اے، کے این اے)

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں