بچوں پر جنسی حملوں، ریپ کے 160 کیس: مطلوب اطالوی ملزم گرفتار
23 اکتوبر 2020
کم عمر بچوں پر جنسی حملوں اور ان کے ریپ کے ایک سو ساٹھ کیسز میں مطلوب ایک اطالوی ملزم کو بالآخر فرانس میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس ملزم کی گرفتاری کے لیے یورپی وارنٹ جرمنی نے جاری کیے تھے۔
اشتہار
فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں پولیس نے جمعہ تیئیس اکتوبر کے روز بتایا کہ اس 54 سالہ انتہائی مطلوب اطالوی شہری کو گزشتہ جمعے کے روز جرمنی کے ساتھ سرحد کے قریب فرانسیسی شہر اسٹراس برگ کے نواح سے گرفتار کیا گیا۔
’کم عمر لڑکی کا ریپ اور قتل، پورا ارجنٹائن سڑکوں پر نکل آیا‘
ارجنٹائن میں ایک 16 سالہ لڑکی کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ اس گھناؤنے جرم کے خلاف ملک بھر میں خواتین سڑکوں پر نکل آئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Fernandez
جنسی زیادتی کے خلاف احتجاج
ارجنٹائن کی عورتیں اور مرد 16 سالہ لڑکی لوسیا پیریز کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے خلاف بڑی تعداد میں سٹرکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت نے کالے لباس پہن کر ہلاک شدہ لڑکی کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Abramovich
ہر تیس گھنٹے میں ایک عورت قتل
گزشتہ برس جون میں بھی کئی ایسے واقعات کے بعد غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا تاہم اس بار لوسیا پیریز کی ہلاکت کے بعد بہت بڑی تعداد میں ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ مظاہرین کی جانب سے اٹھائے گئے پلے کارڈز پر لکھا ہے،’’اگر تم نے ہم میں سے کسی ایک کو ہاتھ لگایا تو ہم سب مل کر جواب دیں گی۔‘‘ ایک اندازے کے مطابق ارجنٹائن میں ہر تیس گھنٹے میں ایک عورت قتل کر دی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. R. Caviano
پیریز کو کوکین دے کر نشہ کرایا گیا
لوسیا پیریز آٹھ اکتوبر کو ریپ اور تشدد کا نشانہ بننے کے بعد جانبر نہ ہوسکی تھی۔ پراسیکیوٹر ماریہ ایزابل کا کہنا ہے کہ پیریز کو کوکین دے کر نشہ کرایا گیا تھا اور ’غیر انسانی جنسی تشدد‘ کے باعث اس لڑکی کے حرکت قلب بند ہو گئی تھی۔ مجرموں نے اس کے مردہ جسم کو دھو کر صاف کر دیا تھا تاکہ یہ جرم ایک حادثہ لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Fernandez
ایک بھی زندگی کا نقصان نہیں ہونا چاہیے
پولیس کے مطابق ایک اسکول کے باہر منشیات فروخت کرنے والے دو افراد کو پولیس نے اس جرم کے شبے میں حراست میں لے لیا ہے۔ لوسیا پیریز کے بھائی ماتھیاز کا کہنا ہے کہ احتجاجی مظاہروں کے ذریعے مزید لڑکیوں کو ظلم کا شکار ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ ماتھیاز نے کہا، ’’اب ایک بھی زندگی کا نقصان نہیں ہونا چاہیے، ہمیں باہر نکل کر یہ زور زور سے بتانا ہوگا۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. R. Caviano
4 تصاویر1 | 4
پولیس ریکارڈ کے مطابق ملزم نے کم عمر بچوں پر جنسی حملوں سے لے کر ان کے ریپ تک کے مجموعی طور پر 160 جرائم کا ارتکاب 2000ء میں شروع کیا تھا، جب اس کی عمر 34 برس تھی۔
وہ قانون کی گرفت میں آئے بغیر مسلسل 14 سال تک اپنے گھناؤنے جرائم کا مرتکب ہوتا رہا تھا۔
اپنی کم سن بیٹی کے خلاف دس سال تک جنسی جرائم کا ارتکاب
فرانسیسی پولیس نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اس اطالوی شہری کے خلاف صرف جرمنی میں ہی بچوں پر جنسی حملوں اور ان کے ریپ کے 122 واقعات زیر تفتیش ہیں۔
مفرور ملزموں کو تلاش کرنے والی فرانسیسی BNRF بریگیڈ کے مطابق یہ ملزم 2000ء سے لے کر تقریباﹰ ایک دہائی تک مبینہ طور پر خود اپنی ہی بیٹی کو بھی ریپ کرتا رہا تھا۔
اس کے علاوہ ملزم پر الزام ہے کہ اسی ایک دہائی کے دوران وہ اپنی ایک دوسری گرل فرینڈ کی اس کے سابقہ شریک حیات سے پیدا ہونے والی کم عمر بچیوں کے ساتھ بھی ایسے ہی شرمناک جرائم کا مرتکب ہوتا رہا تھا۔ بی این آر ایف کی طرف سے بتایا گیا کہ ملزم نے اپنے جرائم کا زیادہ تر ارتکاب اپنے خاندانی حلقوں میں ہی مختلف سطحوں پر کیا۔
جرمنی سے فرار ہو کر فرانس
جرمن پولیس نے فرانس کی مطلوب ملزموں کو تلاش کرنے والی بریگیڈ کو اس اطالوی باشندے کے بارے میں اس مہینے کے شروع میں اس وقت خبردار کیا تھا، جب یہ ملزم اپنی گرفتاری سے بچنے کے لیے جرمنی سے فرار ہو کر مشرق فرانس چلا گیا تھا۔
ملزم کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی لیکن یہ تصدیق کر دی گئی پے کہ اسے فرانسیسی شہر اسٹراس برگ کے جنوبی مضافات میں ایک قصبے سے اس کی ایک شریک حیات کے گھر سے حراست میں لیا گیا۔
اس وقت یہ مبینہ عادی مجرم اسٹراس برگ کے نواحی شہر کولمار کی ایک جیل میں بند ہے، جہاں اس سے ضروری تفتیش کی جا رہی ہے۔ اس ابتدائی چھان بین کی تکمیل کے بعد فرانسیسی حکام اسے جرمن پولیس کے حوالے کر دیں گے۔
م م / ع ح (اے ایف پی)
عورت کس کس روپ ميں استحصال کا شکار
اس وقت دنيا بھر ميں انتيس ملين خواتين غلامی پر مجبور ہيں اور کئی صورتوں ميں خواتين کا استحصال جاری ہے۔ جبری مشقت، کم عمری ميں شادی، جنسی ہراسگی اور ديگر کئی جرائم سے سب سے زيادہ متاثرہ عورتيں ہی ہيں۔
تصویر: dapd
جدید غلامی کيا ہے؟
غير سرکاری تنظيم 'واک فری‘ کی ايک تازہ رپورٹ کے مطابق موجودہ دور ميں غلامی ايسی صورت حال کو کہا جاتا ہے، جس ميں کسی کی ذاتی آزادی کو ختم کيا جائے اور جہاں کسی کے مالی فائدے کے ليے کسی دوسرے شخص کا استعمال کيا جائے۔
تصویر: Louisa Gouliamaki/AFP/Getty Images
تشدد، جبر، جنسی ہراسگی: جدید غلامی کے انداز
اس وقت دنيا بھر ميں انتيس ملين خواتين مختلف صورتوں ميں غلامی کر رہی ہيں۔ 'واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کی رپورٹ کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت، قرض کے بدلے کام، جبری شاديوں اور ديگر صورتوں ميں وسيع پيمانے پر عورتوں کا استحصال جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
جنسی استحصال آج بھی ايک بڑا مسئلہ
غير سرکاری تنظيم 'واک فری‘ کے مطابق موجودہ دور میں جنسی استحصال کے متاثرين ميں خواتين کا تناسب ننانوے فيصد ہے۔
تصویر: Sazzad Hossain/DW
جبری مشقت: مردوں کے مقابلے ميں عورتيں زيادہ متاثر
انٹرنيشنل ليبر آرگنائزيشن اور بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت (IOM) کے تعاون سے اکھٹے کيے جانے والے 'واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کے اعداد کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت کے متاثرين ميں عورتوں کا تناسب چون فيصد ہے۔
تصویر: DW/S. Tanha
جبری شادیاں، لڑکيوں کے ليے بڑا مسئلہ
رپورٹ کے مطابق قرض کے بدلے یا جبری شاديوں کے متاثرين ميں خواتین کا تناسب چوراسی فيصد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Bouys
نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے مہم
'واک فری‘ اور اقوام متحدہ کا 'ايوری وومين، ايوری چائلڈ‘ نامی پروگرام نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے ہے۔ اس مہم کے ذريعے جبری يا کم عمری ميں شادی کے رواج کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، جو اب بھی 136 ممالک ميں قانوناً جائز ہے۔ يہ مہم کفالہ جيسے نظام کے خاتمے کی کوشش کرے گی، جس ميں ايک ملازم کو مالک سے جوڑ ديتا ہے۔