1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بچوں کا استحصال اور ایرانی قانون میں سقم

23 نومبر 2018

ایک نامعلوم ایرانی نے سوشل میڈیا پر سترہ برس قبل اپنے استاد کے ہاتھوں اپنے جنسی استحصال کا ذکر کیا ہے۔ اُس کو سوشل میڈیا پر استحصال زدہ افراد کی جانب سے بھرپور حمایت حاصل ہوئی ہے۔

Iran KW35 Schulkinder
تصویر: Tasnim

اس نامعلوم ایرانی نے اپنے جنسی استحصال کا احوال سوشل میڈیا پر اُس وقت بیان کیا جب اُس نے جنوبی ایرانی شہر شوشتر میں ایک بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کا واقعہ مقامی اخبار میں پڑھا۔ شوشتر شہر میں ایک نفسیاتی مسائل کے حامل ایک باغ بان یا گارڈنر نے کئی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا ارتکاب کرنے کے بعد اُن کی تصاویر بھی بنائیں۔ ایک ایرانی میگزین نے ان متاثرہ بچوں کی تصاویر بھی شائع کر دیں ہیں۔

ایران کے بارے میں ایسا عام تاثر ہے کہ وہاں جنسی استحصال کے واقعات کو عام نہیں کیا جاتا۔ جنسی استحصال کے کسی واقعے میں اگر کوئی صاحب حیثیت ملوث ہو جائے تو وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے اس واقعے کو چھپانے یا ختم کرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

ایسی ہی ایک مثال قران کی قرأت کرنے والے ایک قاری سعید طوسی کی ہے۔ سن 2016 میں اُس پر سولہ کم عمر لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے ارتکاب کا الزام لگایا گیا۔ ان الزام لگانے والوں نے تمام شواہد کے ساتھ عدالت میں اپنا مقدمہ لڑا۔ عدالتی کارروائی کے دوران قاری طوسی کے خلاف شواہد بھی پیش کیے گئے لیکن کچھ بھی نہیں ہو سکا۔ قاری طوسی کے روابط ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰٓ علی خامنہ ای کے ساتھ ہیں۔ جنسی استحصال والے لڑکوں کا مقدمہ اعلیٰ ترین عدالت تک گیا لیکن انجام کار رواں برس فروری میں ایرانی چیف جسٹس نے اس کارروائی کو لغو قرار دے کر ختم کر دیا۔

قارف سعید طوسی اور سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ایتصویر: shefa

ایرانی چیف جسٹس کے نمائندے کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا کہ مغربی ممالک کی طرح ایران میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں تسلسل نہیں ہے اور اس ملک میں چند واقعات کے رونما ہونے کو ثقافتی اور مذہبی رویوں کے تناظر میں لیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک مبہم سا بیان ہے اور اس کے جواب میں ایرانی پارلیمانی رکن محمود صادقی نے ٹوئٹ کیا کہ طوسی کے مقدے کو ختم کرنا بچوں اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کو حوصلہ دینے کے مترادف ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ ایرانی عدالتی نظام میں جنسی زیادتی کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دینے کا ذکر ملتا ہے لیکن ایسے واقعات کو بہت قلیل تعداد میں بیان کیا جاتا ہے۔ ایک ایرانی ماہر قانون محمد محبی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایرانی قانون شریعت کے تابع ہے اور اسلامی شریعت میں کسی بچے کے ساتھ ہونے والے جنسی استحصال کے حوالے سے وضاحت دستیاب نہیں۔ اسی تناظر میں ایران کی اپوزیشن نے ملکی پارلیمنٹ سے بحوں کو جنسی استنحصال سے محفوظ رکھنے کی قانون سازی کا مطالبہ کیا ہے۔

شبنم فان ہائن (عابد حسین)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں