بچوں کی پیدائش سے متعلق ٹرمپ کی سخت پالیسی، خواتین کا مارچ
19 جنوری 2020
امریکا میں ہزاروں خواتین مختلف شہروں میں اپنے حقوق کی حمایت میں جمع ہو گئی ہیں۔ یہ خواتین حقوق کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Andersen
اشتہار
امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں حقوق کی جدوجہد میں شامل خواتین کی تعداد گزشتہ تین برسوں کے مقابلے میں قدرے کم ہے لیکن پھر بھی یہ ہزاروں میں بتائی گئی ہے۔ چند ہزار خواتین واشنگٹن کی سڑکوں پر اُس مارچ میں شریک ہوں گی، جو اب سالانہ نوعیت کا ایک ایونٹ بن گیا ہے۔
اس مارچ میں شریک ایک پچاس سالہ خاتون کا کہنا ہے کہ واشنگٹن میں بہت سردی ہے اور شریک خواتین کی تعداد بھی کم ہے لیکن یہ سب بے معنی ہے کیونکہ احتجاج کرنا بہت اہم اور ضروری ہے۔ منتظمین کے مطابق سالانہ بنیاد پر احتجاج کو منظم کرنا حقیقت میں خواتین کی اجتماعی قوت کا اظہار ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے اکھٹی ہیں۔
مارچ میں شریک خواتین کا متفقہ بیانیہ ہے کہ احتجاجی مارچ میں ایک سو عورتیں شریک ہوں یا ایک ہزار یا اس سے بھی زیادہ، اصل بات مشترکہ طور پر آواز بلند کرنا ہے۔ ان کے مطابق مختلف شہروں میں خواتین کا مارچ کے لیے نکلنا ظاہر کرتا ہے کہ امریکا میں خواتین اپنے حقوق کی جد وجہد میں پوری طرح شامل ہیں اور اس مقصد کے لیے مشترکہ کوششوں کی حامی بھی ہیں۔
ٹرمپ مخالف مظاہرے میں تین برس قبل پانچ لاکھ کے قریب لوگ شریک تھےتصویر: Getty Images/AFP/M. Ralston
امریکا کے تقریباً ایک سو اسی شہروں میں ہزار ہا خواتین سالانہ مارچ میں حصہ لیں گی۔ یہ خواتین بچوں کی پیدائش سے متعلق حقوق کے حوالے سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت پالیسی پر نکتہ چینی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹرمپ انتظامیہ کی ماحولیاتی پالیسی بھی خواتین کے سالانہ مارچ میں تنقید کی زد میں ہے۔ مارچ میں شریک خواتین مہاجرین سے متعلق سخت حکومتی اقدامات پر بھی شاکی دکھائی دیتی ہیں۔
خواتین کے مارچ میں کئی شرکاء ماحول دوست سویڈش ٹین ایجر گریٹا تھنبرگ کی مثال پیش کر رہی ہیں۔ دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ اپنے ٹوئیٹس میں تھنبرگ کو بھی نہیں بخش رہے۔ ایک ٹوئیٹ میں ٹرمپ نے سویڈش ٹین ایجر کو ایک کھلونا قرار دیتے ہوئے اُن کی کاوشوں کو چین کے حق میں قرار دیا۔ ٹرمپ کے مطابق ماحول پسند امریکی پیداواری صنعت کو بے عمل کرنے کی کوشش میں ہے۔
خواتین کے مارچ پر واشنٹگن میں حقوق کے لیے سرگرم مقامی کارکن بھی خفگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مارچ میں شریک خواتین مقامی مسائل کو نظرانداز کرتی پھرتی ہیں اور یہ صحیح نہیں ہے۔ واشنگٹن کے مقامی کارکنوں کے مطابق ملکی دارالحکومت ایک داخلی کالونی بن چکا ہے اور مارچ کے منتظمین اس کے حالات کو بہتر کرنے کی ضرورت کو تسلیم کریں۔
لوئیس زانڈرز (ع ح ⁄ ع)
امریکا: خواتین مارچ میں ہزاروں افراد کی شرکت
مختلف امریکی شہروں میں ہزاروں خواتین نے ٹرمپ انتظامیہ اور نسائی بیزاری کے خلاف مظاہرے کیے۔ ان مظاہروں کے ساتھ انسداد سامیت کے اسکینڈل کی بازگشت بھی سنائی دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Reed
خواتین کا تیسرا مارچ
اندازوں کے مطابق امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں ایک لاکھ افراد جمع ہوئے۔ یہ تمام افراد خواتین کے پہلے مارچ کی تیسری سالگرہ کے موقع پر جمع ہوئے۔ پہلے مارچ کا انتظام ڈونلڈ ٹرمپ کے منصب صدارت سنبھالنے کے اگلے دن کیا گیا تھا۔ اس مارچ کو ویتنام کی جنگ کے خلاف نکالی گئی احتجاجی ریلیوں کے بعد سب سے بڑا مارچ قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/newscom/K. Cedeno
سارے امریکا میں مارچ
ہفتہ بیس جنوری کو دیگر امریکی شہروں بشمول لاس اینجلس، سان فرانسیسکو اور ڈینور میں بھی خواتین کے مارچ کا اہتمام کیا گیا۔ مارچ میں کئی شرکاء حال ہی میں سپریم کورٹ کے جج بریٹ کاوانا کی تعیناتی کے خلاف بھی صدائے احتجاج بلند کر رہے تھے۔ کاوانا پر ایک خاتون نے اسکول کے ایام میں جنسی زیادتی کرنے کا الزام لگایا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/R. Chiu
امریکا کے علاوہ دنیا کے بعض ممالک میں بھی مظاہرے
امریکا سے باہر کی دنیا میں بھی چھوٹی نوعیت کی احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔ جن شہروں میں ایسی ریلیاں نکلیں، اُن میں کنیڈین شہر ٹورانٹو، جرمن دارالحکومت برلن اور اطالوی مرکزی شہر روم خاص طور پر نمایاں ہیں۔ لندن میں بھی ایسی ہی ایک ریلی نکالی گئی۔
تصویر: picture-alliance/Zuma
سامیت مخالف تنازعہ
امریکا میں گزشتہ نومبر سے سامیت مخالف تنازعے کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ اس کا تعلق خواتین مارچ کی بانی ٹیریزا شُوک کی اپنی تحریک کی دو خواتین پر الزامات ہیں۔ ان میں ایک لنڈا سارسُر ہیں اور دوسری ٹامیکا میلوری ہیں۔ سارسُر فلسطینی امریکی ہیں اور اسرائیل کی ناقد ہیں۔ میلوری امریکا میں لوئی فاراخان کی تحریک نیشن آف اسلام سے دوری اختیار کرنے سے انکار کر چکی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Magana
ڈیموکریٹک پارٹی کی ابھرتی لیڈر
حال ہی میں امریکی کانگریس کے ایوانِ نمائندگان کے لیے منتخب ہونے والی الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹز کو ڈیموکریٹک پارٹی کا ایک ابھرتا ستارہ قرار دیا گیا ہے۔ وہ ایوان نمائندگان کی رکنیت حاصل کرنے والی سب سے کم عمر ترین رکن ہیں۔ یہ خاتون اپنے حلقے میں اے او سی (AOC) کی عرفیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے اپنے آبائی شہر نیویارک سٹی کے مارچ میں شرکت کی۔