بچوں کے بہتر تعليمی نتائج کے ليے جسمانی ورزش اہم
9 جنوری 2012اس بات کا انکشافArchives of Pediatrics and Adolescent Medicine کی شائع کردہ ايک رپورٹ ميں کيا گيا ہے، جسے بين الاقوامی جائزے کے بعد تشکيل ديا گيا ہے۔ رپورٹ ميں شامل مختلف تجزیے اس بات کی نشاندہی کرتے ہيں کہ اگر بچوں کی روزمرہ زندگی ميں جسمانی ورزش کو شامل کر دیا جائے، تو اس سے ان کی تعليمی صلاحيتوں پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ یہ تحقیقی رپورٹ ایک ایسے وقت میں جاری کی گئی ہے، جب امريکہ کے اسکولوں ميں بچوں کے ليے ورزش کے اوقات گھٹا کر پڑھائی کے اوقات بڑھائے جا رہے ہيں۔
رپورٹ کی محقق ايمسٹرڈيم کی VU University Medical Center سے تعلق رکھنے والی اميکہ سنگھ کا ماننا ہے کہ وقت آگيا ہے کہ والدين اور اساتذہ بچوں کے ليے تعليم کے ساتھ ساتھ جسمانی ورزش کو بھی ترجيح ديں۔ انہوں نے کہا، ’’ضروری نہيں کے بچے جسمانی ورزش کو باقاعدہ طور پر سيکھيں، وہ سائيکل چلا کر اسکول آسکتے ہيں، پڑھائی کے دوران کچھ دير کھڑے ہو سکتے ہيں اور اس کے علاوہ کوئی بھی ايسا کام کر سکتے ہيں، جس سے ان کا جسم حرکت ميں آئے۔‘‘ ميکا سنگھ نے اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے ہمراہ 14 مختلف جائزوں پر غور کيا اور بچوں کی ورزش کے ساتھ حساب، مختلف زبانوں اور دماغی امتحانوں کا موازنہ کيا۔ زيادہ تر نتائج نے اس بات کی نشاندہی کی کہ جسمانی ورزش سے تعليمی صلاحيت بہتر ہوتی ہے۔ اس بہتر کارکردگی کی وجہ بيان کرتے ہوئے ماہرين نے کہا ہے کہ ورزش کے باعث خون ميں روانی بڑھتی ہے، جس کا دماغ اور مزاج پر مثبت اثر مرتب ہوتا ہے۔
دوسری جانب امريکی شہر شکاگو کی يونيورسٹی آف الينوائے سے فزیکل ایجوکیشن کے شعبے میں ڈگری حاصل کرنے والی سينڈی سليٹر کا کہنا ہے، ’’ورزش کا صحت سے ایک واضح تعلق طویل بنیادوں پر استوار ہوتا ہے اور رپورٹ ميں شائع ہونے والی معلومات کے بعد لوگوں کے پاس روز مرہ زندگی ميں ورزش کی ايک اور وجہ بھی سامنے آئی ہے۔‘‘
حاليہ تحقق اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ امريکہ ميں اسکول جانے والے بچوں کی ايک بڑی تعداد ورزش نہیں کرتی۔ American Heart Association بھی اس بات کی تصديق کرتی ہے۔ ان کے مطابق ايک بچے کو ہفتہ وار اوسطا تقریبا دو گھنٹے ورزش کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ تعلیمی اداروں میں مجموعی طور پر یہ دورانیہ کہیں کم بنتا ہے۔
رپورٹ: محمد عاصم سلیم
ادارت: عاطف توقیر