بچوں کے رسالوں کی وجہ سے ہی ہم بہنوں کی اردو اپنے ہم جماعتوں سے کئی گنا بہتر تھی۔ وہ اردو کی کلاس میں سبق پڑھتے ہوئے اٹکا کرتے اور ایک ہی روز میں اردو کی کتاب پوری پڑھ چکے ہوتے تھے۔ تحریم عظیم کا بلاگ
اشتہار
میرے بچپن کی کچھ اچھی یادوں میں سے ایک یاد بچوں کے رسائل کی ہے۔ میری امی ہر مہینے اخبار والے سے ہم بہنوں کے لیے تعلیم و تربیت، پھول، بچوں کا باغ اور بچوں کی دنیا لیا کرتی تھیں۔ جس دن رسالے آتے، اس دن ہماری عید ہو جاتی تھی۔ ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر رسالے پکڑ کر بیٹھ جاتے تھے۔ نہ کھانے کا ہوش اور نہ کام کی فکر۔ بس ہم ہوتے تھے اور رسالے ہوتے تھے۔ امی کہتی تھیں کہ بس رات کو سوتے ہوئے پڑھا کرو، روز کی ایک کہانی۔ پر ہم کہاں اتنے صابر۔
ان رسالوں کی وجہ سے ہی ہم بہنوں کی اردو اپنے ہم جماعتوں سے کئی گنا بہتر تھی۔ وہ اردو کی کلاس میں سبق پڑھتے ہوئے اٹکا کرتے اور ہمارا یہ حال تھا کہ جس دن کورس کی کتابیں آتیں، اس کے اگلے روز اردو کی کتاب پوری پڑھ چکے ہوتے تھے۔
میرا پسندیدہ رسالہ تعلیم و تربیت تھا۔ یہ فیروز سنز کے زیرِ اہتمام 1940ء سے شائع ہو رہا ہے۔ مجھے اس کی ڈیزائننگ بہت اچھی لگتی تھی۔ میں سب سے پہلے یہی پڑھا کرتی تھی۔ میری بہن کو نوائے وقت کا پھول پسند تھا۔ مجھے وہ قدرے مشکل لگتا تھا۔ اس کی وجہ اس کی اردو نہیں بلکہ ڈیزائننگ تھی۔ ایسے لگتا تھا جیسے بہت سا مواد ایک ہی پیج پر موجود ہے۔ تاہم پڑھا پھر بھی کرتی تھی۔
پھول کا دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ اس کے پہلے صفحے پر ایک چھوٹا سا عہد نامہ ہوتا تھا۔
میرا نام ۔۔۔۔۔۔۔ ہے
اور یہ میرا پیارا پھول ہے
اسے پڑھنے سے مجھے خیال رہتا ہے کہ
نماز کی ادائیگی میں دیر نہ ہو رہی ہو۔
آج کا ہوم ورک مکمل ہو گیا ہو۔
ابو، امی نے جو کام کہے تھے وہ وہ گئے ہوں۔
میرا یہ حال تھا کہ جس دن رسالے آتے، اس دن سارے کام دھندے چھوڑ کر رسالے لے کر بیٹھ جانا ہے اور جب تک ہر رسالہ پڑھ نہ لیا جائے تب تک اٹھنا نہیں ہے حالانکہ اس کے پہلے ہی صفحے پر اتنا بھاری عہد نامہ موجود ہوتا تھا۔ مدیر بے شک ہماری چوری چیک نہیں کر سکتے تھے مگر رسالہ پڑھتے ہوئے گلٹ کا احساس دل میں ضرور رہتا تھا۔
بچوں کی دنیا اور بچوں کے باغ تقریباً ایک جیسے رسالے تھے۔ ایک سا سائز، ایک سا لے آؤٹ۔ آج دیکھا تو دونوں کے مختلف پبلشرز ہیں۔ تاہم، ان کی کہانیاں آج بھی وہی ہیں جو سالوں پہلے ہوا کرتی تھیں۔ ایک بادشاہ اور ایک ملکہ جو سالوں سے اللہ سے اولاد مانگ رہے ہیں۔ ایک دن اس ملک میں ایک فقیر آتا ہے۔ کسی نہ کسی طرح بادشاہ کا اس سے آمنا سامنا ہو جاتا ہے۔ فقیر بادشاہ کی نیکی سے متاثر ہو کر اسے اولاد حاصل کرنے کا نسخہ بتاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ایک مشکل بھی بتا دیتا ہے مثلاً اولاد ہوگی پر بیس سال بعد مر جائے گی۔ اسے زندہ رکھنے کے لیے جنگل میں بھیج دینا وغیرہ وغیرہ۔ ہم ایسی کہانیاں بھی پورے شوق سے پڑھا کرتے تھے پر آج کل کے بچے ہمارے جیسے معصوم نہیں ہیں۔
ہماری اور ہم سے پہلے کی نسلوں میں کتب بینی کا رجحان بھی ان ہی رسالوں کی بدولت پیدا ہوا۔ ایک کتاب کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر پڑھنے کا مزہ ہی اور تھا۔ آہستہ آہستہ کتاب کی جگہ موبائل فون اور کِنڈل نے لے لی۔ جو کتاب کے رسیا ہیں وہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں کتاب ضرور پڑھتے ہیں۔
ان رسائل کے بارے میں چند دن پہلے ٹویٹ کی تو وہ فوراً وائرل ہو گئی۔ بہت سے لوگوں نے کہا کہ میں نے انہیں اپنی ٹویٹ سے بچپن یاد دلا دیا ہے۔ کچھ لوگوں نے میری فہرست میں مزید رسائل کا بھی اضافہ کیا جیسے کہ ہمدرد نونہال، آنکھ مچولی، اطفال اور ساتھی وغیرہ۔ کچھ لوگوں نے میری ٹویٹ کے جواب میں لکھا کہ وہ اب تک ان رسائل کو پڑھ رہے ہیں۔ کچھ بیرونِ ملک رہنے والے افراد نے بتایا کہ ان کے نانا یا دادا انہیں پاکستان سے ہر مہینے رسائل بھیجتے تھے۔ صحافی فیضان لکھانی اور جویرہ صدیقی نے بتایا کہ وہ ان رسائل میں لکھا بھی کرتے تھے۔
بچوں کے ان رسائل نے ہماری کئی نسلوں کو اردو پڑھنا اور لکھنا سکھایا ہے۔ ان کا یہ مشن آج بھی جاری و ساری ہے۔ پہلے یہ پرنٹ فارم میں آتے تھے۔ اب یہ ای میگزین کی صورت میں بھی شائع ہوتے ہیں۔ آپ چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں رہتے ہوں ایک کلک پر ان رسائل کو پڑھ سکتے ہیں۔ تاہم، ان کے معیار کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
میری بڑی بہن جو اب ایک امی جان بن چکی ہیں، ایک ماہ سے اپنے اڑھائی سالہ بیٹے کو بچوں کی دنیا اور بچوں کا باغ سے بادشاہ اور ملکہ کی کہانیاں پڑھ کر سنا رہی ہیں۔ اس نے چار کہانیاں سننے کے بعد پوچھا کہ ان بادشاہوں کے بچے کیوں نہیں ہوتے تھے۔ جو پلاٹ ہم سالوں نہیں پکڑ سکے اس اڑھائی سال کے بچے نے چار کہانیاں سننے کے بعد ہی پکڑ لیا۔
اس نسل کے لیے کوئی نیا رسالہ تو جاری نہیں ہو رہا، تاہم،اگر انہی رسائل کا مواد بہتر ہو جائے تو یہ بھی ان سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ہمارے بچپن اور آج کے بچوں کے بچپن میں بہت فرق ہے۔ ان کا دور سائنس کا ہے۔ انہیں دیو مالائی کہانیوں کی جگہ ربوٹ کے قصے سننے میں دلچسپی ہے۔ ان رسائل کو چاہیے کہ اپنے مواد کو آج کے دور کے مطابق ڈھالیں تاکہ آج کے بچے بھی ان میں اتنی ہی دلچسپی لیں جتنی ہم لیا کرتے تھے۔
بچوں کی کتابوں کا عالمی دن، دَس جرمن شاہکار
بچوں کے لیے کتابیں بے شمار ہیں، ہر عمر کے لیے اور دنیا کے ہر ملک سے آئی ہوئی لیکن ہر ماں باپ اور اپنے بچپن کو یاد کرنے والے ہر شخص کو پتہ ہوتا ہے کہ کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں، جو ہر صورت میں بچوں کے کمرے میں ہونی چاہییں۔
تصویر: DW/G. Reucher
مقبول تصوراتی کردار
جرمن مصنف مشائیل اَینڈے کی شاہکار کتاب ’نہ ختم ہونے والی داستان‘ اب تک کئی ملین کی تعداد میں فروخت ہو چکی ہے اور متعدد انعامات کی حقدار ٹھہری ہے۔ یہ کتاب دنیا کی درجنوں زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے اور شاید ہی کوئی جرمن بچہ ایسا ہو گا، جس کے پاس یہ کتاب نہیں ہو گی۔ یہ کہانی نو عمر لڑکے باستیان کی ہے، جو فینٹیسی لینڈ میں نت نئی مہمات سر کرتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
چڑیلیں، ڈاکو اور جادوگر
’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چھوٹی سی چڑیل ہوا کرتی تھی‘ اس کہانی میں اچھے اچھے کام کرنے کی خواہاں اس ننھی چڑیل کی عمر 127 سال ہے۔ یہ کردار بچوں کے لیے کتابیں تحریر کرنے والے اور ابھی 2013ء میں انتقال کر جانے والے جرمن مصنف اوٹفریڈ پروئسلر کی شاہکار کتاب ’ڈاکو ہوٹسن پلوٹس‘ کے مرکزی کرداروں میں سے ایک ہے۔ اس میں عجیب و غریب ناموں والے کردار ہیں مثلاً ڈاکو کا نام ہے، ’پٹروسیلیوس سواکل مان‘۔
تصویر: Thienemann Verlag
چلو پانامہ چلیں
ایک ریچھ اور ایک شیر ایک گھر میں ہنسی خوشی رہتے ہیں لیکن پھر ایک دن اُنہیں ایک ڈبہ ملتا ہے، جس پر پانامہ لکھا ہوتا ہے۔ اُس کے اندر سے کیلوں کی خوشبو آ رہی ہوتی ہے اور تب وہ دونوں اپنے خوابوں کی اس سرزمین کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی کہانی ہوئی؟ لیکن غیر منطقی ہونے کے باوجود حال ہی میں اپنی پچاسی ویں سالگرہ منانے والے جرمن مصنف یانوش کے یہ عجیب و غریب کردار بچوں میں بے حد مقبول ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Weihrauch
دلچسپ و عجیب ’اُرمل‘
بچوں کے جرمن مصنف ماکس کرُوزے کی تحریروں میں تو عجیب و غریب کرداروں کا میلہ سا لگا ہوتا ہے: پروفیسر ہاباکُوک اور اُن کے اردگرد جمع عجیب الخلقت کرداروں کو ایک روز ایک بہت بڑا انڈہ ملتا ہے، جس میں سے نکلنے والے بچے کو وہ ’اُرمل‘ کا نام دیتے ہیں۔ ہر کردار کے بولنے میں کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہوتی ہے، کوئی تتلاتا ہے تو کسی کی آواز میں لکنت ہوتی ہے اور بچوں کو اُن کی باتیں خوب مزہ دیتی ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Puchner
1933ء: مہاجرین کے مصائب
1923ء میں موجودہ جرمن دارالحکومت برلن میں جنم لینے والی برطانوی مصنفہ جُوڈِتھ کَیر کی کتاب ’جب ہٹلر نے گلابی خرگوش چرا لیا‘ کو 1974ء میں بچوں کی کتابوں کے اعلیٰ ترین جرمن انعام سے نوازا گیا تھا۔ اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ کیسے ایک نو سالہ یہودی لڑکی آنا اور اُس کا کنبہ نازی سوشلسٹوں سے بچ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تصویر: Ravensburger
انسان کے اندر موجود اچھائی
جرمن مصنف ایرِش کیسٹنر کی بچوں کے لیے تحریر کردہ کئی کتابیں مثلاً ’ایمل اور سراغرساں‘ یا پھر ’اُڑتا ہوا کمرہٴ جماعت‘ بچوں میں بے حد مقبول ہیں۔ ان مزاحیہ اور بصیرت افروز کتابوں کے دنیا کی ایک سو سے زائد زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں اور کئی ایک پر فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ یہ مشہور جملہ بھی کیسٹنر ہی کا ہے کہ ’اچھائی کا کوئی وجود نہیں ہے، بجز اس کے کہ انسان یہ (اچھائی) کرے‘۔
’ماکس اور مورِٹس‘ دو شریر بچوں کی داستان ہے، جو لازمی طور پر ہر جرمن بچے کے بُک شیلف میں ہوتی ہے۔ پہلی بار یہ شاہکار کتاب 1865ء میں شائع ہوئی تھی۔ یہ کردار شاعر اور مصور ولہیلم بُش نے تخلیق کیے تھے، جنہیں آج کل کی مزاحیہ کارٹون کہانیوں کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ اُن کی کتابوں کے کئی جملے آج کل کے جرمنی میں ضرب الامثال کا درجہ رکھتے ہیں۔
تصویر: Karikaturmuseum Wilhelm Busch
جب بچے شرارت سے باز نہ آئیں
جرمن مصنف ہائنرش ہوفمان کی کتاب ’شٹرووَل پیٹر‘ اور بھی پرانی ہے، یہ 1845ء میں شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے۔ اُن کی تمام کہانیوں کا لُبّ لُباب یہی ہے کہ جب بچے شرارتوں سے باز نہیں آتے تو اُنہیں اس کے سنگین نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔ اُن کے تخلیق کردہ کئی جملے بھی آج کل جرمن زبان میں محاورے بن چکے ہیں۔
تصویر: gemeinfrei
تصور اور حقیقت
جب ہر جانب برطانوی مصنفہ جے کے رالنگ کے کردار ہیری پوٹر کی دھوم تھی، تب جرمن مصنفہ کورنیلیا فُنکے کی تین جِلدوں پر مشتمل داستان ’ٹِنٹن ہَیرتس‘ کی پہلی جلد شائع ہوئی، بہت مقبول ہوئی اور فلمائی بھی گئی۔ یہ ایک بارہ سالہ لڑکی مَیگی کی کہانی ہے، جس کے پاس یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ کہانیوں کی کتابیں پڑھتے ہوئے اُس میں سے تصوراتی کرداروں کو باہر نکال سکتی ہے یا حقیقی کرداروں کو کہانی کے اندر بھیج سکتی ہے۔
چہرے پر خواہشوں کے نشان
جرمن بچوں میں بہت مقبول اس کردار کا نام ہے، ’زَمس‘ اور اسے تخلیق کیا ہے، جرمن ادیب پاؤل مار نے۔ یہ ایک نوعمر کردار ہے، جس کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ لڑکی ہے یا لڑکا۔ ویسے دیکھنے میں وہ لڑکا زیادہ لگتا ہے۔ اُس کے چہرے پر چھوٹے چھوٹے نقطے یا ’خواہشوں کے‘ نشان ہیں۔ کوئی چھوٹی خواہش ہو تو چہرے سے ایک نقطہ غائب ہو جاتا ہے جبکہ بڑی خواہشوں کے لیے دو یا تین نقطے بھی خرچ ہو سکتے ہیں۔