بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، جرمن فوجی کو آٹھ برس قید
17 مئی 2018
جرمنی کی ایک عدالت نے ایک فوجی کو جنسی زیادتی کے ایک مقدمے میں قصوروار قرار دیتے ہوئےآٹھ برس قید کی سزا سنا دی ہے۔ اس فوجی پر ایک لڑکے کے ساتھ جنسی زیادتی کا جرم ثابت ہوا تھا۔
اشتہار
جرمنی میں جنسی زیادتی کے واقعے میں فوجی کے ملوث ہونے کی اطلاعات کے بعد عوامی سطح پر شدید بحث بھی چھڑ گئی تھی۔ جرمنی کے جنوب مغربی شہر فرائی برگ کی ایک عدالت نے اس فوجی کو آٹھ برس قید کی سزا کے ساتھ ساتھ متاثرہ بچے کو ساڑھے بارہ ہزار یورو زرتلافی بھی ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ جرمن فوج کے اس 50 سالہ ماسٹر سارجنٹ کی جانب سے سزا سننے کے بعد عدالت سے استدعا کی گئی کہ اسے اس پروٹیکٹیو کسٹڈی میں رکھا جائے، تاہم عدالت نے اسے مسترد کرتے ہوئے مجرم کو جیل بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
سمندروں میں پناہ گزینوں کی تلاش اور سلامتی کی کوششیں
غیر سرکاری تنظیم ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ بحیرہ روم کے ذریعے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے پناہ گزینوں کی مدد کر رہی ہے۔ ان کا جہاز ’’ ڈگنٹی ون‘‘ بھی اب تک کئی ہزار افراد کو ڈوبنے سے بچا چکا ہے۔ ان کارروائیوں کی تصاویر
تصویر: DW/K. Zurutuza
ہر لمحہ تیار
فینیکس اور آرگوس کی طرح ڈگنٹی ون بھی ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز’ایم ایس ایف‘ کے اس بحری بیڑے کا کا حصہ ہے، جو 2015ء کے دوران بحیرہ روم میں گشت کر رہا ہے۔ پچاس میٹر لمبا یہ جہاز پانچ ہزار سے زائد افراد کو محفوظ طریقے سے خشکی پر پہنچا چکا ہے۔ یہ تینوں جہاز اب تک سترہ ہزار افراد کو لہروں کی نذر ہونے بچا چکے ہیں۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
سمندر میں در بہ در
ان چھوٹی کشتیوں کے ذریعے بحیرہ روم پار کرنے کی قمیت پانچ سو یورو تک ہوتی ہے۔ بظاہر نا توا دکھائی دینے والی ان کشتیوں پر اسمگلرز کی بڑی بڑی کشیتوں سے زیادہ بھروسا کیا جا سکتا ہے۔ سیکنڈ آفیسر ڈیوڈ برادوس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا: ’’ایسی کشتیاں ڈوبتی نہیں لیکن بڑی کشتیاں اکثر غرق ہو جاتی ہیں اور مسافر ان میں پھنس جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/K. Zurutuza
ہم کامیاب ہو گئے
’ڈگنٹی ون‘ پر سوار زیادہ تر مہاجرین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ لیبیا میں انسانی اسمگلروں نے بتایا تھا کہ انہیں ایک جہاز محفوظ طریقے سے اٹلی لے جائے گا۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق اس سال اب تک تین لاکھ سے زائد افراد سمندر کے راستے یورپ پہنچنے کا یہ پُر خطر سفر کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
خواتین اور بچے پہلے
مہاجرین کی کشتیوں میں سب سے پہلے خواتین اور بچوں کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ کسی بھی کشتی پر سوار افراد کا دس سے پندرہ فیصد تک ہوتا ہے۔ ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق اکثر کشتیوں پر تو حاملہ خواتین بھی سوار ہوتی ہیں یا نوزائیدہ بچے ان کی گود میں ہوتے ہیں۔ ان خواتین کو خصوصی توجہ اور طبی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
عرشے پر افریقہ
بلقان کے ذریعے یورپ پہنچنے والوں کی نسبت لیبیا سے بحیرہ روم کے راستے یورپ میں داخل ہونے کی خواہش رکھنے والے زیادہ تر افراد کا تعلق افریقی ممالک سے ہوتا ہے۔ لیبیا سب صحارہ ممالک کے اُن مہاجرین کا مسکن بن چکا ہے، جو یورپ آنا چاہتے ہیں۔ اس دوران بہت سے افریقیوں کے ساتھ بد سلوکی اور انہیں قتل کر دینے تک کی اطلاعات ہیں۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
غلاموں کی تجارت
سینیگال سے تعلق رکھنے والے امین جابی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا: ’’لیبیا میں ایک حراستی مرکز میں بند کرنے کے بعد وہاں موجود محافظوں نے مجھے ایک موبائل فون دیا اور کہا کہ میں اپنے اہل خانہ سے بات کروں۔ اور اگر انہوں نے تاوان ادا نہ کیا تو مجھے مار دیا جائے گا۔ مجھے تو چھوڑ دیا گیا لیکن جو لوگ رقم ادا نہیں کر پاتے انہیں غلام بنا کر تعمیراتی کمپنیوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔‘‘
تصویر: DW/K. Zurutuza
ڈراؤنے خواب کا اختتام
متعدد خواتین نے بتایا کہ انہیں لیبیا میں قائم بدنام زمانہ حراستی مراکز میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کا عملہ نفسیاتی اور طبی سہولیات مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ جہاز پر ہی ایڈز کا ٹیسٹ بھی کرتا ہے۔ اس تنظیم کی لورا پاسکیرو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ان میں سے زیادہ تر خواتین صدمے کا شکار ہوتی ہیں اور جو بات کرنے کے قابل ہوتی ہیں وہ صرف بھیانک واقعات ہی بیان کرتی ہیں‘‘۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
بے خوابی
نائجیریا سے تعلق رکھنے والی ایولین نے اپنی کہانی کچھ یوں بیان کی:’’مجھے طرابلس کے پاس پانچ ملسح افراد نے پکڑا اور وہ مجھے اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنانا چاہتے تھے لیکن وہ میرے ایام ماہواری تھے۔ یہ دیکھ کر وہ غصے میں آ گئےاور مجھے اتنا مارا کے میں بے ہوش ہو گئی۔ میرے شوہر نے یہ سارے اخراجات ادا کیے ہیں اور یہاں اٹلی میں اس کا انتظار کر رہی ہوں‘‘۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
’ڈگنٹی ون‘ سے اٹلی منتقلی
’ ڈگنٹی ون‘ گنجائش کے حوالے سے چھوٹا ہے اور اس کی رفتار بھی قدرے کم ہے۔ اس وجہ سے یہ زیادہ تر لیبیا کے ساحلوں کے قریب قائم کیے جانے والے’’ریسکیو زون‘‘ میں ہی موجود رہتا ہے۔ اس پر سوار پناہ گزینوں کو بڑی کشتیوں کے ذریعے اٹلی پہنچایا جاتا ہے، جو زیادہ تر اطالوی جزیرے سیسلی یا ریجیو کالابریا کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتی ہیں۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
بہت زیادہ توقعات
ساحل پر پہنچنے کے بعد کیا ہو گا؟ مہاجرین کی ایک بڑی تعداد اسے نظر انداز کرتی ہے۔ انہیں بعد میں شمالی اٹلی پہنچایا جاتا ہے، جہاں ایک ماہ تک ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ اس کے بعد بہت سے کام تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیوں کہ وہ آبائی ممالک میں موجود اپنے اہل خانہ کو پیسے بھیجنا چاہتے ہیں۔ اٹلی میں روزگار تلاش کرنا بہت مشکل ہے اور اس وجہ سے بہت سوں کو تو زندہ رہنے کے لیے بھیک تک مانگنا پڑتی ہے۔
اس ملزم کو گزشتہ برس اکتوبر میں اسٹراس برگ کے قریب واقع علاقے اِلکرچ گرافن شٹاڈن میں جرمن اور فرانسیسی فوجی بیرکوں سے حراست میں لیا گیا تھا۔ اس ملزم نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے ایک لڑکے کے ساتھ جنسی فعل انجام دینے کے لیے دو مرتبہ پیسے دیے تھے۔ اس نے اپنے اس فعل کی ویڈیو بنا کر دوسروں سے شیئر بھی کی تھی۔
اس مجرم کا تعلق ان آٹھ ملزمان میں سے ایک ہے، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ دو برس تک اس معاملے میں ملوث رہے۔ اس معاملے میں اس متاثرہ لڑکے کی 48 سالہ والدہ اور اس خاتون کا 39 سالہ پارٹنر بھی شامل ہیں، جنہوں نے انٹرنیٹ کے ذریعے اس نو سالہ بچے کو سیکس کے لیے پیش کیا تھا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ تیسری مرتبہ جنسی زیادتی کے لیے اس فوجی نے تمام چیزیں طے کر لی تھی، تاہم پولیس نے اس معاملے میں مداخلت کی اور اسے گرفتار کر لیا۔
’کم عمر لڑکی کا ریپ اور قتل، پورا ارجنٹائن سڑکوں پر نکل آیا‘
ارجنٹائن میں ایک 16 سالہ لڑکی کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ اس گھناؤنے جرم کے خلاف ملک بھر میں خواتین سڑکوں پر نکل آئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Fernandez
جنسی زیادتی کے خلاف احتجاج
ارجنٹائن کی عورتیں اور مرد 16 سالہ لڑکی لوسیا پیریز کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے خلاف بڑی تعداد میں سٹرکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت نے کالے لباس پہن کر ہلاک شدہ لڑکی کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Abramovich
ہر تیس گھنٹے میں ایک عورت قتل
گزشتہ برس جون میں بھی کئی ایسے واقعات کے بعد غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا تاہم اس بار لوسیا پیریز کی ہلاکت کے بعد بہت بڑی تعداد میں ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ مظاہرین کی جانب سے اٹھائے گئے پلے کارڈز پر لکھا ہے،’’اگر تم نے ہم میں سے کسی ایک کو ہاتھ لگایا تو ہم سب مل کر جواب دیں گی۔‘‘ ایک اندازے کے مطابق ارجنٹائن میں ہر تیس گھنٹے میں ایک عورت قتل کر دی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. R. Caviano
پیریز کو کوکین دے کر نشہ کرایا گیا
لوسیا پیریز آٹھ اکتوبر کو ریپ اور تشدد کا نشانہ بننے کے بعد جانبر نہ ہوسکی تھی۔ پراسیکیوٹر ماریہ ایزابل کا کہنا ہے کہ پیریز کو کوکین دے کر نشہ کرایا گیا تھا اور ’غیر انسانی جنسی تشدد‘ کے باعث اس لڑکی کے حرکت قلب بند ہو گئی تھی۔ مجرموں نے اس کے مردہ جسم کو دھو کر صاف کر دیا تھا تاکہ یہ جرم ایک حادثہ لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Fernandez
ایک بھی زندگی کا نقصان نہیں ہونا چاہیے
پولیس کے مطابق ایک اسکول کے باہر منشیات فروخت کرنے والے دو افراد کو پولیس نے اس جرم کے شبے میں حراست میں لے لیا ہے۔ لوسیا پیریز کے بھائی ماتھیاز کا کہنا ہے کہ احتجاجی مظاہروں کے ذریعے مزید لڑکیوں کو ظلم کا شکار ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ ماتھیاز نے کہا، ’’اب ایک بھی زندگی کا نقصان نہیں ہونا چاہیے، ہمیں باہر نکل کر یہ زور زور سے بتانا ہوگا۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. R. Caviano
4 تصاویر1 | 4
اس مقدمے میں یہ دوسرا ملزم ہے، جسے سزا سنائی گئی ہے۔ اس مقدمے میں ہر ملزم پر علیحدہ علیحدہ مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ اس متاثرہ بچے کی والدہ پر مقدمے کا آغاز 11 جون سے فرائی برگ شہر میں ہو گا۔ اس مقدمے میں اس سے قبل ایک 41 سالہ شخص کو دس برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
عدالت میں ثابت ہوا کہ یہ مجرم جنسی حملے، ریپ، جبری جسم فروشی، اور چائلد پرنوگرافی مواد رکھنے جیسے جرائم کا مرتکب ہوا۔ فیصلہ سناتے ہوئے جج نے کہا، ’’یہ مجرم آٹھ سال تک جیل میں رہے گا۔ ‘‘