’بچپن میں جنہیں اپنا آئیڈیل جانا، انہوں نے میرا ریپ کیا‘
8 اگست 2019
بحرالکاہل میں واقع امریکی علاقے گوام میں طاقتور مذہبی شخصیات دہائیوں سے بچوں کا جنسی استحصال کرتی رہیں۔ لیکن برسوں کی زبان بندی کے بعد اب جنسی زیادتی کے متاثرین انصاف کا تقاضا کر رہے ہیں۔
اشتہار
خوبصورت ساحلوں کے باعث سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے والے امریکی جزیرے گوام کی تاریخ کا ایک تاریک پہلو بھی ہے۔ بحرالکاہل میں واقع اس امریکی علاقے میں کیتھولک چرچ سے وابستہ پادری اور چرچ کے تحت بوائے اسکاؤٹنگ کی سرگرمیوں سے وابستہ کیتھولک رہنما برسوں تک بچوں کو جنسی زیادتیوں کا نشانہ بناتے رہے۔
امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس نے عدالتی دستاویزات اور کئی متاثرین کے ساتھ تفصیلی انٹرویوز کے بعد تیار کی گئی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بچوں کے جنسی استحصال کے منظم واقعات سن 1950 کی دہائی میں بھی ہوتے رہے جبکہ تازہ ترین واقعات سن 2013 میں ریکارڈ کیے گئے۔
والٹر ڈینٹن، ٹیوڈیلا اور رابی پیریز بھی ان دو سو سے زائد افراد میں شامل ہیں جنہیں ان کے بچپن میں چرچ یا چرچ کی نگرانی میں بوائے اسکاؤٹنگ کی سرگرمیوں کے دوران کیتھولک پادریوں نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
پچپن سالہ ڈینٹن کے مطابق بچپن میں وہ پادری ٹونی اپورن کو اپنا آئیڈیل سمجھتے تھے اور ان جیسا بننا چاہتے تھے۔ لیکن سن 1977 میں ایک دن اسی پادری نے ڈینٹن کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا اور اس وقت ڈینٹن کی عمر تیرہ برس تھی۔
اے پی کو دیے گئے انٹرویو میں ڈینٹن نے بتایا کہ ریپ کے بعد پاسٹر نے اسے خبردار کرتے ہوئے کہا، ''اگر تم نے کسی کو کچھ بھی بتایا تو کوئی تمہاری بات پر یقین نہیں کرے گا۔‘‘
صدمے کے شکار کم عمر ڈینٹن نے پہلے اپنی والدہ کو ریپ کے بارے میں بتایا تو اس کی والدہ نے اعتبار نہ کیا۔ ڈینٹن نے ایک دوسرے پادری کو مطلع کیا تو اس نے بھی کچھ نہ کیا بلکہ بعد میں پادری خود بچوں کا ریپ کرنے والا ایک شخص ثابت ہوا۔
یوں بچپن میں ڈینٹن کی بات نہ اس کے والدین نے سنی نہ کسی اور نے۔ خود کو بے بس پا کر وہ کئی برس خاموش رہے۔ لیکن پھر سن 2016 میں انہوں نے بالآخر طاقتور کلیسا کے بارے میں زبان کھولنے کا فیصلہ کیا۔ اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ''مجھے معلوم ہے کہ وہ بہت طاقتور شخص ہے اور اسے پورا یقین تھا کہ کوئی اسے ہاتھ تک نہیں لگا سکتا کیوں کہ وہ خود گورنر سے بھی زیادہ طاقتور سمجھتا تھا۔ لیکن میرے پاس بھی کھونے کے لیے کچھ نہیں اور میں جانتا ہوں کہ زیادتی کا شکار ہونے والوں میں میں اکیلا نہیں۔‘‘
جرمنی میں ہزاروں بچے پادریوں کی ہوس کا شکار
01:16
سن 2016 میں ڈینٹن اور دیگر متاثرہ افراد نے آرچ بشپ ٹونی اپورن کے خلاف زبان کھولی، جس کے بعد ویٹیکن نے انہیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔
اس سے پہلے تک آرچ بشپ نے مقامی سیاست دانوں کے تعاون سے چرچ کے خلاف مقدمات رکوا رکھے تھے۔ تاہم برخاستگی کے بعد 223 افراد اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں کے باعث چرچ کے خلاف مقدمات دائر کر چکے ہیں۔
پادری اپورن کی عمر اب تہتر برس ہے اور ان کے خلاف ڈینٹن کے علاوہ چھ دیگر افراد نے ریپ کے الزامات عائد کیے ہیں۔ لیکن وہ ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
تاہم ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق گزشتہ برس چرچ نے ان کے خلاف خفیہ تحقیقات کی تھیں جن میں انہیں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ اس کے بعد چرچ نے انہیں عملی طور پر گوام سے ملک بدر کر دیا تھا۔ تاہم اب بھی وہ ایک پادری ہیں اور چرچ انہیں ہر ماہ پندرہ سو ڈالر ادا کرتا ہے۔
گوام میں پینتیس پادریوں کے خلاف ریپ اور جنسی زیادتیوں کے الزامات کے تحت مقدمے درج ہیں۔ اب تک ان میں سے کسی ایک کو بھی سزا نہیں دی گئی اور نہ ہی گوام کے حکام یا چرچ اب تک ایسے پادریوں کے نام منظر عام پر لائے ہیں۔
ش ح / ش ج (اے پی)
حاجیہ صوفیہ : میوزیم، مسجد یا پھر گرجا گھر
ترک شہر استنبول میں واقع حاجیہ صوفیہ پر شدید تنازعہ پایا جاتا ہے۔ یہ ایک عجائب گھر ہے، جسے ترک قوم پرست ایک مسجد کے طور پر جبکہ مسیحی ایک مرتبہ پھر کلیسا کے طور پر استعمال کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Marius Becker
طرز تعمیر کا شاندار نمونہ
کونسٹانینوپل یا قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) میں رہنے والے رومی شہنشاہ جسٹینیان نے 532ء میں ایک شاندار کلیسا کی تعمیر کا حکم دیا۔ وہ ایک ایسا چرچ دیکھنا چاہتے ہیں، جیسا کہ ’حضرتِ آدم کے دور کے بعد سے نہ بنا ہو اور نہ ہی بعد میں تعمیر کیا جا سکے‘۔ اس حکم نامے کے 15 برس بعد ہی اس گرجا گھر کے بنیادی ڈھانچے کا افتتاح عمل میں آ گیا۔ تقریباً ایک ہزاریے تک یہ مسیحی دنیا کا سب سے بڑا کلیسا تھا۔
تصویر: imago/blickwinkel
بازنطینی سلطنت کی پہچان
شہنشاہ جسٹینیان نے قسطنطنیہ میں حاجیہ صوفیہ (ایا صوفیہ) کی تعمیر میں 150 ٹن سونے کی مالیت کے برابر پیسہ خرچ کیا گیا۔ قسطنطنیہ بازنطینی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ آبنائے باسفورس پر واقع اس شہر کا موجودہ نام استنبول ہے۔ اسے ’چرچ آف وزڈم ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ساتویں صدی کے تقریباً تمام ہی شہنشاہوں کی تاجپوشی اسی کلیسا میں ہوئی تھی۔
تصویر: Getty Images
کلیسا سے مسجد میں تبدیلی
1453ء میں کونسٹانینوپول (قسطنطنیہ) پر بازنطینی حکمرانی ختم ہو گئی۔ عثمانی دور کا آغاز ہوا اور سلطان محمد دوئم نے شہر پر قبضہ کرنے کے بعد حاجیہ صوفیہ کو ایک مسجد میں تبدیل کر دیا۔ صلیب کی جگہ ہلال نے لے لی اور مینار بھی تعمیر کیے گئے۔
تصویر: public domain
مسجد سے میوزیم تک
جدید ترکی کے بانی مصطفٰی کمال اتا ترک نے 1934ء میں حاجیہ صوفیہ کو ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا۔ پھر اس کی تزئین و آرائش کا کام بھی کیا گیا اور بازنطینی دور کے وہ نقش و نگار بھی پھر سے بحال کر دیے گئے، جنہیں عثمانی دور میں چھُپا دیا گیا تھا۔ اس بات کا بھی خاص خیال رکھا گیا کہ عثمانی دور میں اس عمارت میں کیے گئے اضافے بھی برقرار رہیں۔
تصویر: AP
اسلام اور مسیحیت ساتھ ساتھ
حاجیہ صوفیہ میں جہاں ایک طرف جگہ جگہ پیغمبر اسلام کا نام ’محمد‘ اور ’اللہ‘ لکھا نظر آتا ہے، وہاں حضرت مریم کی وہ تصویر بھی موجود ہے، جس میں وہ حضرت عیسٰی کو گود میں لیے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے گنبد میں روشنی کے لیے تعمیر کی گئی وہ چالیس کھڑکیاں بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں، جن کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ گنبد میں دراڑیں پیدا نہ ہوں۔
تصویر: Bulent Kilic/AFP/Getty Images
بازنطینی دور کی نشانیاں
حاجیہ صوفیہ کی جنوبی دیوار پر چھوٹے چھوٹے پتھروں سے بنائی گئی یہ تصویر 14 ویں صدی عیسوی کی ہے، جسے تجدید اور مرمت کے ذریعے پھر سے بحال کیا گیا ہے۔ کافی زیادہ خراب ہونے کے باوجود اس تصویر میں مختلف چہرے صاف نظر آتے ہیں۔ اس تصویر کے وسط میں حضرت عیسٰی ہیں، اُن کے بائیں جانب حضرت مریم جبکہ دائیں جانب یوحنا ہیں۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عبادات پر پابندی
آج کل حاجیہ صوفیہ میں عبادت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ 2006ء میں اُس وقت کے پاپائے روم بینیڈکٹ شانز دہم نے بھی حاجیہ صوفیہ کے دورے کے دوران اس حکم کی پابندی کی تھی۔ اناطولیہ کے کٹر قوم پرست نوجوان اسے دوبارہ مسجد میں بدلنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے 15 ملین سے زائد دستخط بھی اکھٹے کر رکھے ہیں۔
تصویر: Mustafa Ozer/AFP/Getty Images
ایک اہم علامت
حاجیہ صوفیہ کے آس پاس مسلمانوں کی تاریخی عمارات کی کمی نہیں ہے۔ سامنے ہی سلطان احمد مسجد واقع ہے، جسے بلیو یا نیلی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ ترک قوم پرستوں کا موقف ہے کہ حاجیہ صوفیہ سلطان محمد کی جانب سے قسطنطنیہ فتح کرنے کی ایک اہم علامت ہے، اسی لیے اسے مسجد میں بدل دینا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/Arco
قدامت پسند مسیحی
قدامت پسند مسیحی بھی حاجیہ صوفیہ کی ملکیت کے حوالے سے دعوے کر رہے ہیں۔ ان کا ایک طویل عرصے سے مطالبہ ہے کہ حاجیہ صوفیہ کو مسیحی عبادات کے لیے دوبارہ سے کھولا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’حاجیہ صوفیہ کو مسیحی عقیدے کی گواہی کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا ‘۔
تصویر: picture-alliance/dpa
حاجیہ صوفیہ ’فیصلہ ابھی باقی ہے‘
حاجیہ صوفیہ کے بارے میں بالآخر کیا فیصلہ ہو گا، اس بارے میں کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ ترکی میں حزب اختلاف کی قوم پرست جماعت ’MHP‘ اسے مسجد میں تبدیل کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہے اور پارلیمان میں اُس کی دو قراردادیں بھی مسترد ہو چکی ہیں۔ یونیسکو بھی اس حوالے سے فکر مند ہے کیونکہ 1985ء سے اس میوزیم کو عالمی ثقافتی ورثے کا درجہ دیا جا چکا ہے۔