1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بچہ ضدی اور نافرمان ہے یا ہم نے کیا ہے؟

4 مارچ 2021

ہمارے معاشرے میں ’والدین کے عہدے‘ پر حادثاتی طور پر فائز ہونے کے بعد اس اہم ذمہ داری کے لیے کسی بھی تربیت کی قطعی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔

DW Urdu Blogerin Tahira Syed
تصویر: Privat

''میرا بیٹا بہت ضدی ہوگیا ہے۔ کھانا کھانے میں بہت تنگ کرتا ہے۔‘‘ ، ''میری بیٹی جھوٹ بہت بولنے لگی ہے ہر بات پر ضد کرتی ہے۔‘‘، ''میرے بچے بہت بد تمیز ہو گئے ہیں ایک جگہ ٹک کر نہیں بیٹھتے۔‘‘

اکثر اوقات ہمیں ایسے شکوے سننے کو ملتے ہیں یا پھر ہم کسی کے بچوں کو دیکھ کر تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں کہ ان کہ بچے بہت بدتمیز ہو گئے ہیں۔ اگر ان والدین سے اس کی وجہ پوچھی جائے تو نہایت حیرانی سے فرمائیں گے،'' پتا نہیں یہ سب کہاں سے سیکھ رہے ہیں؟ ہم نے تو ایسی تربیت نہیں کی تھی۔‘‘

یہ جملہ دراصل ایک دھوکا ہے جو والدین اپنے دل کی تسلی کے لیے اپنے آپ کو دیتے ہیں۔

ہم نے ہمیشہ بچوں کی تربیت کے حوالے سے تو بہت کچھ پڑھا اور سنا ہے لیکن والدین کی تربیت کے حوالے سے بہت کم بات کی جاتی ہے۔ کسی بھی پروفیشن میں جانے کے لیے مختلف طرح کی تربیت یا کوئی سرٹیفکیٹ ضروری ہے۔ لیکن والدین بننے کی پوسٹ ہمارے حصے میں خود بخود آجاتی ہے۔

حادثاتی طور پر اس عہدے پر فائز ہونے کے بعد اس اہم ذمہ داری کے لیے کسی بھی تربیت کی قطعی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ صرف بزرگوں کے تجربات سے فیض یاب ہونا ہی کافی ہوتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص خود کو بہت ہی بہترین والدین کی کیٹیگری میں گردانتا ہے جبکہ بچوں کی غلط عادات پر والدین کا تبصرہ ہوتا ہے کہ یہ تو شروع سے ہی ایسا ہے۔ یعنی یہ  اس خرابی کے ساتھ ہی یہ انہیں ملا تھا۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی غلطی تلاش کرنے کی کبھی کوشش نہیں کرتے۔

یہ بھی پڑھیے:رویوں میں بدلاؤ کی ضرورت، بچوں کو یا والدین کو؟

ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ بچے کی تربیت کا آغاز رحمِ مادر سے ہی ہو جاتا ہے۔ شاید ہی کوئی گھرانہ ایسا ہو جہاں بچے کی تربیت کا انتظام اس مرحلے پر کیا جاتا ہو۔ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے، جب عورت کو خوش رکھنا اور اسے اچھا ماحول، اچھی خوراک فراہم کرنا بچے کی صحت کی بنیادی شرط ہوتی ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ ایک چھوٹا بچہ اپنے احساسات کے اظہار کے لیے صرف ایک ہی طریقہ جانتا ہے کہ وہ رونا شروع کر دیتا ہے۔ والدین اس کے رونے سے ہی اس کی ضرورت کو سمجھ جاتے ہیں لیکن جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے ہم اس کے احساسات سمجھنے کی کوشش چھوڑ کر اسے ہماری ہدایات پر چلنے والا ایک روبوٹ بنانا چاہتے ہیں۔

ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ روبوٹ نہیں بکہ ایک جیتا جاگتا انسان ہے، جس کی اپنی ایک سوچ، پسند اور نا پسند ہے۔ جو اس دنیا کے طور طریقے سیکھ کر نہیں آیا بلکہ ہمیں دیکھ کر سیکھ رہا ہے۔ بچہ سن کر نہیں سیکھتا، ہمیں دیکھ کر سیکھتا ہے۔ ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ ہم بچے کو نصیحتوں کے لیے انبار لگا دیں۔

پھر یہ شکوہ کہ بچے تو ہماری سنتے ہی نہیں۔ ایک خاتون جب اپنے بڑے بچوں پر چیختی چلاتی ہے تو گود میں پڑا بچہ اسے ریکارڈ کر لیتا ہے۔ جب ایک شوہر گھر میں گھستے ہی اپنی بیوی پر چلانا شروع کر دیتا ہے تو یہ رویہ بھی بچے اپنے ذہن میں ریکارڈ کر  لیتے ہیں۔

شوہر نے کھانے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ بیگم نے شوہر کی لائی ہوئی چیز رد کر دی۔ گھر کے کاموں کے لیے مددگار خاتون سے کیا گیا برتاؤ یا رشتے داروں کے حوالے سے کی گئی نفرت انگیز اور شرانگیز گفتگو بھی اس ننھے سے ذہن میں ریکارڈ ہوجاتی ہے۔

جیسے جیسے بچے کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کرنے کے طریقے سیکھ لیتا ہے۔ اس مرحلے پر بھی ہم بچے کے جذبات کو سمجھنے کے بجائے اسے ضدی یا بدتمیز ہونے کا ٹائٹل دے دیتے ہیں۔

ایک بچہ اگر مارکیٹ میں اپنی پسندیدہ چیز کے لیے ضد کرتا ہے تو عموماً والدہ سب کے سامنے اسے جھڑک کر اپنی ضد سے باز رہنے کے لیے کہتی ہے، جس پر بچہ مزید رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے چیخنا چلانا یا رونا دھونا شروع کر دیتا ہے۔ اس مرحلے پر اگر والدہ بچے کو یہ بات سمجھا دیں کہ ہم پہلے ہی اپنے بجٹ سے زیادہ شاپنگ کر چکے ہیں۔ لیکن میں وعدہ کرتی ہوں کہ اگلے مہینے آپ کو آپ کی پسندیدہ چیز دلا دی جائے گی۔ یا اگر وہ چیز اس کے لیے غیر موزوں ہے تو بھی اسے کہا جائے کہ ہم گھر چل کر اس پر بات کریں گے۔ اگر آپ پھر بھی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ چیز آپ کو لینا چاہیے تو میں آپ کو دلا دوں گی۔

لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ہمارے والدین کے پاس بچوں سے بات کرنے کا وقت ہی نہیں ہوتا  اور اکثر اوقات والدین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے بچوں کے سامنے بجٹ نہ ہونے کی بات کی تو کہیں ان کے بچوں میں احساس محرومی نہ آجائے۔ اس لیے ان کی ہر جائز ناجائز بات مان لی جاتی ہے اور اگر کبھی بات ماننا ممکن نہ ہو تو پھر زور زبردستی سے روکا جاتا ہے۔ لیکن بچوں سے بات چیت کرکے ان کے مسائل کا حل تلاش کرنے میں ان کی مدد کرنے کا کوئی رواج نہیں ہے۔

والدین کے قول و فعل کا تضاد بھی بچوں کو الجھن میں ڈال دیتا ہے۔ مثلا بچے کو سختی سے سچ بولنے کی تلقین کرتے رہنا اور خود بچے کے سامنے فون پر کسی بھی متوقع مہمان کو سہولت سے منع کر دینا کہ ٫ہم تو آج گھر پہ نہیں ہیں‘۔

اسی طرح اگر بچے نے اپنے سے سرزد ہونے والی غلطی سچائی سے بتا دی تو فورا جذبات سے مغلوب ہو کر بچے کو ایک تھپڑ رسید کر دیا جائے گا۔ یہ سوچے بغیر کہ یہ تھپڑ بچے کے لیے ایک سبق بن جائے گا کہ کبھی سچ نہیں بولنا۔

1۔ بچوں کی تربیت کا سب سے پہلا اور سنہرا اصول یہ ہے کہ گھر کے اصول و ضوابط ہر چھوٹے بڑے کو بخوبی معلوم ہوں۔ اور تمام افراد اس پر پوری طرح سے عمل پیرا ہوں۔

2 ۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ بچے کی محسوسات کو قبول کریں۔ اسے بتائیں کہ آپ اس کے جذبات کو سمجھ رہے ہیں۔ اس کی پوری بات تسلی سے سنیں۔ پھر اس کو کہیں کہ میں نے تمہاری بات اچھی طرح سے سمجھ لی ہے لیکن اس وقت یہ ممکن نہیں ہوگا۔ لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم سننے سے زیادہ سنانے پر یقین رکھتے ہیں۔ بچے نے ابھی بات بھی پوری نہیں کی ہوتی کہ ہم نصیحت کا فٹبال اس کی جانب اچھال دیتے ہیں۔

3 ۔ تیسری اور اہم بات یہ ہے کہ کبھی بھی بچے پر الزام تراشی نہ کریں اور بچے کی بے عزتی کبھی نہ کریں مثلاً گھر کی کوئی چیز ٹوٹنے پر بغیر تصدیق کیے سب سے شرارتی بچے کے سر اس کا الزام ڈال دینا وغیرہ ۔

4 ۔ اکثر اوقات بچے پر طنزیہ انداز میں تنقید بھی کی جاتی ہے۔ مثلا چوٹ لگنے پر یہ کہنا کہ بہت اچھا ہوا تمہارے ساتھ تو ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔

5- سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ اکثر والدین بچے کے بارے میں پیشن گوئی کر دیتے ہیں کہ تم نے تو یقینا بڑے ہو کر ہمارا نام ہی ڈبونا ہے، تم کبھی اچھے انسان نہیں بن سکتے۔

یہ بھی پڑھیے: بچے پرتشدد کیوں ہو جاتے ہیں؟

ہم سب یہ رویہ شعوری یا لاشعوری طور پر اپنائے ہوئے ہوتے ہیں، یقیناً والدین کبھی بھی اپنے بچوں کا برا نہیں چاہتے لیکن ہمیں اپنی خامیوں کا محاسبہ کرنے کی عادت نہیں ہے اور نہ ہی ہم اپنے بچوں کی تربیت میں اس پہلو کو اہمیت دیتے ہیں۔ بچوں سے اپنی بات منوانا ہے تو خود کو بچوں کی جگہ پر رکھ کر سوچیں اور انہیں اپنے عمل سے زندگی گزارنے کے گر سکھائیں۔ اسی طرح آئندہ نسل اس اپنی اور اس دنیا کہ بہتری کے لیے فعال کردار ادا کر سکیں گے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں