بچی کی لاش تھامے فلسطینی خاتون کی تصویر کو پریس فوٹو ایوارڈ
19 اپریل 2024فلسطینی فوٹو گرافر محمد سالم کی اس ایوارڈ یافتہ تصویر میں 36سالہ خاتون انس ابو معمر کو دیکھا جاسکتا ہے جو ہسپتال کے مردہ خانے میں کفن میں لپٹی اپنی پانچ سالہ بھانجی کو سینے سے چمٹائے شدت غم سے نڈھال ہیں اور زار و قطار رو رہی ہیں۔ یہ تصویر 17اکتوبرکو جنوبی غزہ میں خان یونس کے ناصر ہسپتال میں لی گئی تھی، جہاں فلسطینی اسرائیلی بمباری میں ہلاک ہونے والے اپنے اہل خانہ کی لاشوں کو تلاش کر رہے تھے۔
نفرت کی عکاس تصویر، انعام کی حق دار
غزہ جنگ میں اب تک نو ہزار خواتین ماری جا چکی ہیں، اقوام متحدہ
روئٹرز کے پکچر اور ویڈیوز کے گلوبل ایڈیٹر رکی راجرز نے بتایا کہ محمد سالم کو اس باوقار ایوارڈ کی خبر نہایت عاجزی کے ساتھ دی گئی کیونکہ یہ کوئی ایسی تصویر نہیں، جس پر جشن منایا جاتا۔ انہوں سالم کو ان کے کام کے لیے سراہا اور کہا کہ ان کی اس تصویر کی بدولت اس منظر کو شائع کرکے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے میں مدد ملی۔
انہوں نے کہا کہ اس ایوارڈ کے ساتھ مجھے امید ہے کہ دنیا انسانیت بالخصوص بچوں پر مرتب ہونے والے جنگ کے اثرات کے حوالے سے زیادہ باشعور ہو گی۔
غزہ میں سات امدادی کارکنوں کی ہلاکت، عالمی سطح پر مذمت
غزہ کا سب سے بڑا ہسپتال ’’ڈیتھ زون‘‘ بن چکا ہے، ڈبلیو ایچ او
39 سالہ محمد سالم 2003 سے روئٹرز کے لیے کام کر رہے ہیں اور انہوں نے 2010 میں بھی ورلڈ پریس فوٹو مقابلے میں ایک ایوارڈ جیتا تھا۔
'یہ ایک افسوس ناک لمحہ تھا'
جب یہ تصویر پہلی بار نومبر میں شائع ہوئی تھی تو اس وقت سالم نے تصویر کھینچنے کے لمحے کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ لوگ حواس باختہ تھے، اپنے پیاروں کے بارے میں جاننے کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ بھاگ دوڑ میں مصروف تھے اور ایسے موقع پر میری نظر اس عورت پر پڑی جو چھوٹی بچی کی لاش پکڑی ہوئی تھی اور اس نے وہاں سے جانے سے انکار کر دیا تھا۔
محمد سالم نے کہا، "یہ ایک غیر معمولی اور افسوس ناک لمحہ تھا اور میں نے محسوس کیا کہ یہ تصویر غزہ کی پٹی میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے وسیع تر احساس کا خلاصہ بیان کرتی ہے۔"
ایوارڈ کا فیصلہ کرنے والی جیوری کی چیئرمین فیونا شیلڈز نے کہا، ''یہ واقعی گہرا اثر ڈالنے والی تصویر ہے۔ ایک بار جب آپ اسے دیکھتے ہیں، تو یہ ایک طرح سے آپ کے ذہن پر چھا جاتی ہے۔''
انہوں نے کہا، ''یہ واقعتاً جنگوں کی ہولناکی اور لاحاصل ہونے کے بارے میں، ایک قسم کا حقیقی اور ساتھ ہی استعارے میں دیا گیا پیغام ہے۔'' شیلڈز نے مزید کہا، ''یہ امن کے لیے ایک ناقابل یقین حد تک طاقتور دلیل ہے۔
سالانہ ایوارڈز کا اعلان کرتے ہوئے ایمسٹرڈیم میں قائم ورلڈ پریس فوٹو نے کہا کہ تنازعات کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو لاحق خطرات کو پہچاننا ضروری ہے۔ تنظیم کے مطابق 7 اکتوبر کو اسرائیل کی جانب سے غزہ میں بمباری شروع کیے جانے کے بعد سے اب تک اس جنگ کی کوریج کرنے والے 99 صحافی اور میڈیا ملازمین مارے جا چکے ہیں۔
تنظیم کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر جمانا الزین خوری نے کہا کہ پچھلے سال غزہ میں مرنے والوں کی تعداد نے صحافیوں کی ہلاکتوں کی تعداد کو بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے اس لیے ضروری ہے کہ دنیا کو جنگ کے انسانیت سوز اثرات کو دکھایا جائے تاکہ وہ اس تکلیف کو محسوس کرسکیں جس سے متاثرین گزرے ہیں۔
اکسٹھ ہزار سے زائد تصویروں میں اول
جیوری نے 130 ممالک کے تین ہزار 851 فوٹوگرافروں کی 61 ہزار 62 تصاویر میں سے جیتنے والی تصاویر کا انتخاب کیا۔
جنوبی افریقہ کے جیو فوٹوگرافر لی آن اولویج نے مداغاسکر میں ڈیمنیشیا کی منظرکشی کرنے والی تصاویر کے ساتھ سال کی بہترین کہانی کی کیٹیگری میں ایوارڈ جیتا۔
طویل المدتی پروجیکٹس کی کیٹیگری میں وینیزوئلا کے الہاندرو سیگارا نے نیویارک ٹائمز اور بلوم برگ کی سیریز 'دی ٹو والز‘ کے لیے ایوارڈ جیتا۔
یوکرین کی فوٹوگرافر جولیا کوچیٹوا کو 'وار اِز پرسنل‘ کے عنوان سے اوپن فارمیٹ کی کیٹیگری میں ایوارڈ سے نوازا گیا جو ''ایک ڈائری کے ذاتی دستاویزی انداز کے ساتھ فوٹو جرنلزم کو اکٹھا کرتی ہے تاکہ دنیا کو یہ دکھایا جا سکے کہ جنگ کے ساتھ روزمرہ کی حقیقت کا سامنا کرنا اورجینا کیسا ہے۔''
ان تصاویر کو ایمسٹرڈیم میں 14 جولائی تک نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔
ج ا/ ص ز (اے ایف پی، روئٹرز)