1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بچے، جنگی جرائم کا فراموش کر دیے جانے والے شکار

18 ستمبر 2022

اس وقت دنیا بھر میں 452 ملین سے زائد بچے جنگ زدہ ممالک و خطوں ميں رہتے ہيں۔ ان کے زخموں اور اموات کی بہت کم تحقیقات کی جاتی ہیں اور ان کے خلاف جرائم کی سزا شاذ و نادر ہی دی جاتی ہے۔

Kinder als Kriegsopfer im Ukraine-Krieg | Mädchen
تصویر: Dimitar Dilkoff/AFP/Getty Images

یوکرینی شہر ونیتسیا کی رہائشی چار سالہ لیزا اپنی والدہ کے ساتھ اسپیچ تھراپی کے لیے جا رہی تھی کہ ان کے شہر پر روسی راکٹ گرے۔ اس حملے کے فوری بعد ایک ویڈیو آن لائن پھیل گئی جس میں وہ خالی سٹرولر دکھایا گیا تھا، جس میں حملے کے وقت لیزا بیٹھی ہوئی تھی۔ لیزا اور اس کا ٹیڈی بیئر اس خالی سٹرولرکے ساتھ زمین پر پڑے تھے۔ وہ مر چکی تھی۔ جولائی میں کیے گئے اس  روسی حملے میں تین بچون سمیت23 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ لیزا مرنے والے بچوں میں سے ایک تھی۔

روس دو لاکھ بچوں کو زبردستی اٹھا لے گیا، یوکرینی صدر

یوکرین میں روسی حملے کے بعد سے 23 بچے ہلاک ہو چکے ہیںتصویر: Sergey Bobok/AFP/Getty Images

بچوں کے تحفظ کی بین الاقوامی تنظیم 'سیوو دا چلڈرن‘ کی ایڈووکیسی آفیسر اوریلی لامازیرے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یوکرین میں جنگ اس بات کی افسوسناک یاد دہانی ہے کہ بچے بار بار سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اکثر جنگ کا فراموش کر دیا گیا شکار ہوتے ہیں۔‘‘ اقوام متحدہ کے مطابق یوکرین جنگ میں سرکاری طور پر 5827 شہری ہلاک ہوئے ہیں جن میں 375 بچے بھی شامل ہیں۔ یوکرین اور اس کے مغربی شراکت داروں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے فوجیوں کے کسی بھی جرم کے لیے روس کا احتساب کریں گے لیکن امکان ہے کہ یہ ایک طویل اور مشکل عمل ہوگا جس کا غیر یقینی نتیجہ نکلے گا۔

یوکرین میں جنگ ختم کریں، پوپ فرانسس کی اپیل

لامازیرے نے کہا کہ قانونی طور پر بچوں کو اکثر فراموش کر دیا جاتا ہے۔ نابالغ بچوں کے خلاف جنگی جرائم کو شاذ و نادر ہی  دستاویزی شکل دی جاتی ہے، تفتیش کی جاتی ہے یا سزا دی جاتی ہے۔  مثال کے طور پر یورپی مرکز برائے آئین اور انسانی حقوق کے تحت آفاقی دائرہ اختیار کا اصول 'بین الاقوامی قوانین کے خلاف جرائم پر کسی بھی ریاست کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ ایکشن لے بے شک  متاثرہ شخص یا  مجرم اس ریاست کے شہری نہ بھی ہوں۔ یہ اصول تیسرے ممالک کی قومی عدالتوں کو بیرون ملک ہونے والے بین الاقوامی جرائم سے نمٹنے، مجرموں کو مجرمانہ طور پر ذمہ دار ٹھہرانے اور سزا سے بچنے کی روک تھام کی اجازت دیتا ہے۔

بہت سے روسی بچے جنگ کی وجہ سے بے گھر ہو چکے ہیںتصویر: DW

اس کا مطلب یہ ہے کہ جرمن عدالت یوکرین میں ہونے والے جنگی جرائم کا مقدمہ چلا سکتی ہے، جن میں بے شک غیر جرمن افراد ہی ملوث ہوں گے۔ جرمن  وفاقی فوجداری پولیس کا دفتر (بی کے اے) یوکرین میں ممکنہ روسی جنگی جرائم کے شواہد اکٹھا کر رہا ہے۔ بی کے اے کے صدر ہولگر منچ نے حال ہی میں اخبار 'ویلٹ ام زونٹاگ‘ کو بتایا کہ اس ضمن میں اب تک 300 سے زائد شواہد اکٹھے کیے جا چکے ہیں۔

یہ واضح نہیں ہے کہ کیا بی کے اے ان مقدمات کی پیروی کر رہا ہے جس میں بچوں کے خلاف جرائم شامل ہیں۔ سیوو دا چلڈرن کی لامازیرے نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ نوجوان متاثرین کو اس بار انصاف ملے گا۔

یوکرین بحران:  لاکھوں یوکرینی بچوں کو شدید خطرات کا سامنا

این جی اوز کے مطابق یوکرین میں یہ بچے تقریباﹰ 30 ممالک یا جنگ زدہ علاقوں  میں رہنے والے 452 ملین نابالغ بچوں میں شامل ہیں۔ یہ تعداد  20 سال قبل جنگ سے متاثرہ بچوں کی تعداد کے مقابلے میں دگنی ہے۔

جرمنی، قانونی احتساب کا 'چیمپئن‘

2021 ء میں ایک جرمن عدالت اس وقت بین الاقوامی سرخیوں میں آئی جب اس نے داعش کے ایک سابق رکن کو عراق میں یزیدی اقلیت سے تعلق رکھنے والی 5 سالہ بچی ریدا کے قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی۔ اس یزیدی  بچی اور اس کی ماں کو غلامی میں فروخت کیا گیا تھا۔ پھر انہیں باقاعدگی سے بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس مقدمے میں ایک عراقی شہری اور اس کی 30 سالہ جرمن بیوی کو بھی سزا سنائی گئی۔ لامازیرے نے کہا، ٫٫جرمنی نے اس وقت دکھایا تھا کہ انصاف غالب آ سکتا ہے۔‘‘

جرمن حکومت کی انسانی حقوق کے کمشنر لوئیس وون ایمٹسبرگ نے کہا کہ جرمن حکومت بچوں کے حقوق اور تحفظات کو مستحکم کرنے پر زور دے رہی ہے۔ اس میں جنگی صدمات کے بعد بہتر جسمانی اور نفسیاتی دیکھ بھال فراہم کرنا بھی شامل ہے۔انہوں نے کہا، ''ایسا کرنے کے ليے ہمیں مزید رقم اور این جی اوز کے ساتھ قریبی تعاون کی ضرورت ہے۔‘‘

لامازیرےکا کہنا ہے کہ یوکرین میں جنگ حالات کو بہتر بنانے کا موقع ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ اس نے اس مسئلے پر عالمی توجہ دلائی ہے۔ انہوں نے کہا، ''یوکرین بچوں کے خلاف جنگی جرائم کا ٹیسٹ کیس ہو سکتا ہے۔‘‘

بنجمن نائٹ (ش ر ⁄ ع ص)

 

کییف کے بم شیلٹرز میں بچوں کی پیدائش

02:48

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں