اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف کے مطابق وسطی امریکی ممالک سے تعلق رکھنے والے بچے جو منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ گروہوں کے تشدد سے بچ نکلتے ہیں، وہ انسانوں کے اسمگلروں کا نشانہ بن رہے ہیں۔
اشتہار
جمعرات کے روز یونیسیف کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ہزاروں بچے ایسے ہیں، جو یا تو تنہا یا پھر اپنے اہل خانہ کے ساتھ السلواڈور، ہونڈوراس اور گوئٹے مالا سے امریکا کی جانب سفر کر رہے ہیں اور انہیں میکسیکو سے گزرنا پڑتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہر برس ایسے ہزاروں بچوں کو ایک طرف منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ افراد کا سامنا ہوتا ہے تو بہت سے بچے انسانوں کے اسمگلروں کے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’خاندانوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایک طویل سفر ہے، جس میں ان معصوم بچوں کے انسانوں کے اسمگلروں یا دیگر جرائم پیشہ عناصر کے ہتھے چڑھ جانے کے خطرات موجود ہیں۔‘‘
یونیسیف کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بہت سے تارکین وطن، جنہیں مختلف ممالک کی جانب سے ملک بدر کیا گیا، وہ اپنے پیچھے چھوڑے گئے قرضوں یا جرائم پیشہ عناصر کے دائرے میں پھنس گئے۔
یونیسیف کی اس رپورٹ کے مطابق امریکا سے قریب چوبیس ہزار دو سو خواتین اور بچوں کو جنوری اور جون کے درمیانی عرصے میں ملک بدر کیا گیا اور ایسی ملک بدریوں میں میکسیکو سرفہرست تھا۔
یونیسیف کے علاقائی ڈائریکٹر خوزے بیرگوآ کے مطابق، ’’مختلف ممالک کی سرحدوں پر سخت ترین چیکنگ کی وجہ سے تارکین وطن اور مہاجرین بہ شمول بچے بہت خطرناک راستوں کا انتخاب کر رہے ہیں۔‘‘
بیدخل کیے جانے والے میکسیکن کی واپسی لیکن نئی شروعات کیسے
امریکی صدر کے حکم پر غیرقانونی میکسیکن مہاجرین کی ملک بدری کا سلسلہ جاری ہے۔ کئی واپس بھیجے جانے والے مہاجرین نصف سے زائد زندگی امریکا میں بسر کر چکے ہیں۔ ہر ہفتے ایسے مہاجرین کے تین ہوائی جہاز میکسیکو سٹی پہنچ رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Blackwell
ایک تلخ واپسی
امریکا میں مقیم غیرقانونی مہاجرین کو میکسیکو سٹی کے ہوائی اڈے پر پہنچایا جاتا ہے۔ ان کو ہتھکڑیاں پہنا کر ہوائی جہاز پر سوار کرایا جاتا ہے۔ ہوائی جہاز کے اترنے سے بیس منٹ قبل یہ ہتھکڑیاں کھول دی جاتی ہیں۔
تصویر: DW/S. Derks
غیرقانونی اجنبی
جورج نینو کو اُس وقت پتہ چلا کہ وہ امریکا میں ایک غیرقانونی مہاجر ہے، جب اُس کی عمر اٹھارہ برس کی ہوئی۔ اُسے حکام نے سوشل سکیورٹی نمبر دینے سے انکار کر دیا۔ جورج کے والدین اُسے کم عمری میں امریکا لائے تھے۔ بچپن سے امریکا میں زندگی بسر کرنے والا جورج پانچ برس قبل بیدخل کر کے میکسیکو پہنچا دیا گیا۔ وہ چونتیس برس امریکا میں رہا۔ اُس کے چار بچے جو سابقہ بیوی کے ساتھ امریکی شہر فریزنو میں رہتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Derks
ایک غیر ملک
ماریا ہیریرا ستائیس برس کی ہے، اُسے امریکی حکام نے رواں برس دس اپریل کو ڈی پورٹ کیا۔ وہ امریکا میں اپنے قیام میں توسیع کے لیے ویزے کا انتظار کر رہی تھی کہ گرفتار کر لی گئی۔ وہ تین برس کی عمر میں میکسیکو سے امریکا پہنچی تھی۔ اب امریکا کی طرح میکسیکو بھی اُس کے لیے اجنبی دیس ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
ایک نئی شروعات
ماریا کی جورج سے ملاقات ایک غیرسرکاری تنظیم نیو کومینزوس کے دفتر میں ہوئی تھی۔ یہ تنظیم غیر ملکیوں کی معاونت کرتی ہے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور اس سے بھی بےخبر تھے کہ ایک دن انہیں میکسیکو سٹی میں ایک نئی زندگی کی شروعات کرنا ہو گی۔ امریکا میں ماریا کو گرفتاری کے بعد ڈیپرشن کا بھی سامنا رہا۔ اب وہ نئی زندگی کو بہتر بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
تصویر: DW/S. Derks
گرفتاری اور ملک بدری
ڈیگو میگوئل کی عمر سینتیس برس ہے، اُس کو سابقہ گرل فرینڈ کے ساتھ لڑائی کے نتیجے میں سن 2003 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ میگوئل کو امریکی حکام نے سن 2016 میں ملک بدر کر دیا۔
تصویر: DW/S. Derks
ٹرمپ اور اُس کی دیوار
پانچ ملک بدر کیے گئے میکسیکن شہریوں کو حکومت نے مالی معاونت کی اور اب وہ چھپائی کا کام کرتے ہیں۔ ان کی تیار کردہ ٹی شرٹس اور بیگز پر ’ٹرمپ اور اُن کی دیوار‘ لکھا ہوتا ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
مددگار ہاتھ
ڈیگو کے پاس کوئی بہت بڑی تنخواہ والی نوکری نہیں لیکن اپنے محدود وسائل کے ساتھ وہ میکسیکو سٹی کے ہوائی اڈے پر ملک بدر کیے گئے ہم وطنوں کی مدد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہ ایسے افراد کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔ وہ بھی امریکا سے ملک بدر کیا گیا تھا۔ اُسے میکسیکو میں اپنا جدا ہو جانے والا بیٹا بہت یاد آتا ہے، جو اُس کی سابقہ بیوی کے ساتھ امریکا ہی میں مقیم ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
ایک نئی ابتدا ہو گئی ہے
ڈینئل سونڈوان کو رواں برس فروری میں امریکا سے بیدخل کیا گیا۔ وہ بہت مطمئن ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ امریکا میں وہ اپنے مستقبل کے بارے میں بہت کم سوچتا تھا کیونکہ کوئی بھی کام شروع کرنے سے قبل اُسے شناختی دستاویزات کی ضرورت تھی، جو اُس کے پاس نہیں تھیں لیکن اس بیدخلی کے بعد میکسیکو میں وہ ایک بہتر مستقبل تعمیر کر سکتا ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
اطمینان سے آبادکاری
ڈینئل سونڈوان ایک پرنٹ شاپ کے اوپر رہ رہا ہے۔ ایک پادری نے اُس کی ابتدائی رہائش کا بندوبست کیا تھا۔ وہ میکسیکو سٹی میں ایک پچھتر برس کی خاتون کے گھر پر دو ہفتے مقیم رہا۔ اب بیدخل کیے جانے والے افراد کی مقامی تنظیم ڈی پورٹاڈوس کے تعاون سے وہ ایک نئی رہائش گاہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
بیدخلی کا روشن پہلو
بہت سارے بیدخل کیے جانے والے اپنی ساری جمع پونجی امریکا میں ہی چھوڑ چکے ہیں۔ کئی ایسے افراد کہتے ہیں کہ جو چھن چکا ہے، وہ سب کچھ نہیں تھا۔ یہ لوگ اپنے ملک میں قانونی شہری ہیں اور وہ کسی خوف کے بغیر جی رہے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ وہ بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں گے۔
تصویر: DW/S. Derks
10 تصاویر1 | 10
انہوں نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے بات چیت میں کہا، ’’حراست سے بچنے کے لیے یہ بچے چھپ کر سفر کرتے ہیں، جہاں کوئی نہیں جانتا کہ یہ کہاں ہیں، ایسے میں جرائم پیشہ عناصر اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘‘
یونیسیف کے مطابق وسطی امریکا میں ایسے بچوں کی حتمی تعداد معلوم نہیں، جو جنسی استحصال یا جبری مشقت کا نشانہ بن چکے ہیں۔ واضح رہے کہ وسطی امریکا اور بحیرہ کیریبیین کے خطے میں بچوں کی اسمگلنگ ایک نہایت منافع بخش کاروبار میں تبدیل ہو چکی ہے، جہاں انسانوں کی ٹریفکنگ کے متاثرہ ہر پانچ افراد میں سے تین بچے ہوتے ہیں۔