بچے ہاتھ سے لکھنا بھولتے جا رہے ہیں، جرمن محققہ
17 جون 2014
جنوبی جرمن شہر نیورمبرگ کی رہنے والی اور چھوٹے بچوں کے تعلیمی اور تربیتی امور پر تحقیق کرنے والی ماہر اشٹیفانی میُولر کے مطابق آج کے جرمن معاشرے میں بچے اگر ہاتھ سے لکھنے میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں تو اس کی وجہ محض یہ نہیں کہ بچوں کی پینسل، پین یا بال پین سے لکھنے کی عادت کم ہوتی جا رہی ہے۔
اس جرمن ماہر تعلیم کے مطابق کنڈر گارٹن سے فارغ ہونے کے بعد اسکول میں داخل ہونے والے ایسے زیادہ تر بچوں کو لکھنے کے لیے کچھ بھی ہاتھ میں پکڑنے کی عادت نہیں ہوتی۔ اس کے اسباب کی وضاحت کرتے ہوئے اشٹیفانی میُولر نے بتایا کہ کسی بھی بچے کو اس قابل بنانے کے لیے کہ وہ چھوٹی عمر میں ہاتھ سے کچھ لکھ سکے، ایسے کاموں کی عادت کی ضرورت ہوتی ہے، جو وہ اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے لیکن ایک خاص طرح کی مہارت کے ساتھ انجام دے سکے۔
ماہرین اس کے لیے کسی بھی کام کو جسمانی طور پر مہارت کے ساتھ کر سکنے کی صلاحیت یا motoric abilities کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ اشٹیفانی میُولر کے بقول آج کے جدید اور پرآسائش طرز زندگی میں یہ بات اکثر دیکھنے میں آتی ہے کہ چھوٹے بچے اگر اپنے کلاس روم سے باہر کچھ لکھیں بھی تو اُس کے لیے وہ ضرورتاﹰ یا تفریحاﹰ کوئی سمارٹ فون، ٹیبلٹ یا پھر ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح لکھنا کسی کاغذ پر ہاتھ سے کچھ لکھنے سے بالکل مختلف جسمانی تجربہ ہوتا ہے کیونکہ ٹچ اسکرین یا کمپیوٹر کے کی بورڈ پر تو صرف کسی key کو انگلی لگانے سے ہی کوئی بھی حرف لکھا جا سکتا ہے لیکن کاغذ پر کچھ لکھنے کے لیے پین یا بال پین کو ایک خاص انداز میں پکڑنا اور پھر ہاتھ کو مطلوبہ تحریر کے حروف کے مطابق حرکت دینا مقابلتاﹰ ایسا پیچیدہ کام ہوتا ہے، جو ہر چھوٹا بچہ نہیں کر سکتا۔
اس کی مختلف مثالیں دیتے ہوئے اشٹیفانی میُولر کہتی ہیں کہ آج کے جرمن معاشرے میں تیسری جماعت تک کے کئی بچوں اور بچیوں کے لیے یہ کام مشکل ثابت ہوتا ہے کہ وہ سوئی میں دھاگا ڈال سکیں، اپنے جوتوں کے تسمے خود اچھی طرح باندھ سکیں یا پھر کسی سہارے کے بغیر کچھ دیر کے لیے ایک ٹانگ پر کھڑے ہو سکیں۔
اس کے علاوہ آج کل کے نوجوان والدین بھی ہاتھ سے کچھ بہت کم ہی لکھتے ہیں۔ بات زیادہ سے زیادہ کسی دستاویز پر دستخطوں تک ہی محدود رہتی ہے اور باقی کام کمپیوٹر اور پرنٹر کر دیتے ہیں۔ یوں چھوٹے بچے جب اپنے والدین کو بھی ہاتھ سے کچھ لکھتےکم ہی دیکھتے ہیں، تو وہ اس مشاہدے سے محروم رہتے ہیں جو ذاتی تجربے کی صورت میں ان کی تربیت کا کام دے سکے۔
اشٹیفانی میُولر کے بقول کسی اسمارٹ فون یا ٹیبلٹ پر کچھ لکھنے کے لیے جسمانی حرکات کی خاطر بچے زیادہ تر اپنی شہادت کی انگلی اور کلائی استعمال کرتے ہیں جبکہ کسی پینسل سے لکھنے کے لیے چاروں انگلیوں، انگوٹھے، ہتھیلی اور کلائی کی باہمی طور پر مربوط لیکن مخصوص حرکات درکار ہوتی ہیں۔
اس جرمن محققہ کے مطابق ان کے پاس تربیت کے لیے کئی ایسے نوجوان ٹیچرز بھی آتے ہیں جن کے لیے ہاتھ سے لکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جو ٹیچر خود ہاتھ سے نہیں لکھ سکتے یا بال پین غلط پکڑتے ہیں، وہ چھوٹے بچوں کو ہاتھ سے لکھنا یا قلم کو صحیح طور پر پکڑنا کیسے سکھا سکتے ہیں۔