پگھلتی برف اور سمندروں کی بلند ہوتی سطح، کیا روکنا ممکن ہے؟
19 دسمبر 2021
بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے زمین کے گلیشیئرز اور برف کی چادر پگھلتی جا رہی ہے۔ ایسی صورت میں سمندروں کی سطح کو بلند ہونے سے روکنا ضروری ہو گیا ہے اور اسی میں انسان کی بقا ہے۔
اشتہار
زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کے بعد سے منجمد براعظموں پر سے برف کی چادر نے بتدریج پگھلنا شروع کر دیا ہے۔ پگھلتی برف پانی کی صورت میں سمندروں میں پہنچ رہی ہے اور یہ عمل شہروں کے لیے زلزلوں میں سونامی کا روپ دھار سکتا ہے۔
ایسی صورت حال قیامت جیسی ہو سکتی ہے اور لاکھوں انسانی جانوں کا موت کے منہ میں جانے کا امکان بڑھ جائے گا۔ بظاہر یہ تصویر انتہائی ہیبت ناک اور ڈراؤنی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ٹریلین ٹن برف کے پگھلنے سے انہیں کوئی خطرہ لاحق نہیں تاوقتیکہ وہ کسی جزیرے کے باسی نہ ہوں یا پھر کسی سمندری ساحل کے مکین نہ ہوں۔
ماحولیاتی تبدیلیاں پہاڑوں کے لیے بھی خطرے کا باعث
گلوبل وارمنگ نے پہاڑوں کے فطرتی نظام میں اکھاڑ پچھاڑ شروع کر دی ہے۔ ان تبدیلیوں سے پانی کے بہاؤ سے لے کر زراعت، جنگلاتی حیات اور سیاحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
دنیا کے پہاڑ جہاں انتہائی سخت ہیں وہاں وہ بہت نازک بھی ہیں۔ نشیبی علاقوں میں ان کے اثرات بے بہا ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے ان پہاڑوں نے گہرے اثرات لیے ہیں۔ پہاڑوں پر بھی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور وہاں کا قدرتی ماحول تبدیل ہونے لگا ہے۔ برف اور گلیشیئر نے غائب ہونا شروع کر دیا ہے اور اس باعث زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہے۔
تصویر: Photoshot/picture alliance
برف کا پگھلاؤ
اگر ماحولیاتی تبدیلیوں کا سلسلہ جاری رہا اور ضرر رساں گیسوں کا اخراج موجودہ مقدار کے مطابق فضا میں منتقل ہوتا رہا تو رواں صدی کے اختتام تک پہاڑوں اور دوسرے علاقوں میں اسی فیصد برف کم ہو سکتی ہے۔ گلیشیئرز کے حجم بھی کم ہونے لگے ہیں۔ ایسی منفی صورت حال یورپی پہاڑی سلسلہ الپس کے علاوہ دوسرے براعظموں کے پہاڑوں پر بھی دکھائی دے رہی ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں نے زمین کے آبی نظام کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ پہلے گلیشیئر سے پانی دریاؤں تک پہپنچتا تھا لیکن اب ان کے پگھلنے کا عمل تیز ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ سے دریا میں پانی کا بہاؤ بھی زیادہ ہو چکا ہے۔ کئی پہاڑی سلسلوں میں گلیشیئرز کی جسامت برف پگھلنے سے سکٹر گئی ہے، جیسا کہ پیرو کے پہاڑوں کی صورت حال ہے۔
تصویر: Wigbert Röth/imageBROKER/picture alliance
بائیوڈائیورسٹی: تبدیل ہوتا نشو و نما کا ماحول
ماحولیاتی تبدیلیوں نے پہاڑوں کی جنگلاتی حیات میں جانوروں، پرندوں اور جڑی بوٹیوں کی افزائش کے قدرتی ماحول کو بھی بہت حد تک تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ جنگل بردگی نے پہاڑوں کی ترائیوں کے جنگلات میں کمی کر دی ہے۔ اس کی وجہ سے ان علاقوں کے جنگلی جانوروں نے بلندی کا رخ کر لیا ہے اور یہ ایک مشکل صورت حال ہے۔
گلیشیئرز کے پگھلنے اور پہاڑوں کی مستقل منجمد مقامات سے برف کے کم ہونے سے پہاڑی درے اور راستے غیر مستحکم ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے برفانی تودوں کے گرنے، لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔ مغربی امریکی پہاڑوں میں برف بہت تیزی سے پگھل رہی ہے۔ اس کے علاوہ گلیشیئرز کے پگھلنے سے ان میں موجود بھاری دھاتوں کا بھی اخراج ہونے لگا ہے۔ یہ زمین کی حیات کے لیے شدید نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
دنیا کی قریب دس فیصد آبادی پہاڑی علاقوں میں رہتی ہے۔ ان لوگوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے معاشی مشکلات کا جہاں سامنا ہے اب وہاں قدرتی آفات کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ پہاڑوں کے جمالیاتی، روحانی اور ثقافتی پہلوؤں کو بھی مجموعی طور پر تنزلی کا سامنا ہے۔ اب نیپال کی منانگی کمیونٹی کو لیں، جن کی شناخت گلیشیئرز سے ہے، اِن کے پگھلنے سے اُن کے حیاتیاتی ماحول کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
پہاڑٰی علاقوں میں درجہ حرارت کے بڑھنے سے وہاں کی معیشت کو شدید منفی صورت حال کا سامنا ہے۔ ماحول کے گرم ہونے سے پہاڑوں کی سیاحت اور پانی کی فراہمی بھی متاثر ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ بلند علاقوں میں کی جانے والی زراعت بھی زبوں حالی کی شکار ہو گئی ہے۔ پہاڑوں میں قائم بنیادی ڈھانچے جیسا کہ ریلوے ٹریک، بجلی کے کھمبوں، پانی کی پائپ لائنوں اور عمارتوں کو لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات کا سامنا ہو گیا ہے۔
تصویر: Rodrigo Abd/picture alliance
سرمائی سیاحت
ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کم برف گرنے سے پہاڑوں پر برف کا لطف اٹھانے کا سلسلہ بھی متاثر ہو چکا ہے۔ اسکیئنگ کے لیے برف کم ہو گئی ہے۔ اسکیئنگ کے لیے قائم پہاڑی تفریحی مقامات پر مصنوعی برف کا استعمال کیا جانے لگا ہے جو ماحول کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔ بولیویا کی مثال لیں، جہاں گزشتہ پچاس برسوں میں نصف گلیشیئرز پانی بن چکے ہیں۔
گلیشیئرز کے سکڑنے سے دریاؤں میں پانی کم ہو گیا ہے اور اس باعث وادیوں میں شادابی و ہریالی بھی متاثر ہوئی ہے۔ ان علاقوں کے کسانوں کو کاشتکاری سے کم پیداوار حاصل ہونے لگی ہے۔ نیپال میں کسانوں کو خشک کھیتوں کا سامنا ہے۔ ان کے لیے آلو کی کاشت مشکل ہو گئی ہے۔ کئی دوسرے ایسے ہی پہاڑی ترائیوں کے کسانوں نے گرمائی موسم کی فصلوں کو کاشت کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Paolo Aguilar/EFE/dpa/picture-alliance
9 تصاویر1 | 9
ایک پریشان کن منظر نامہ
اس میں صداقت ہے کہ زمین کے دس فیصد حصے پر برف کی موٹی چادر پھیلی ہوئی ہے۔ اس برف کے ٹوٹنے اور پگھلنے کے منفی اثرات پیدا ہو رہے ہیں۔ ذرا غور کیجیے کہ برف کے پگھلنے سے بننے والا تازہ پانی سمندروں کے نمکیات کی شدت کم کر دے گا۔ اس عمل سے سمندری روؤں کا قدرتی نظام متاثر ہو جائے گا۔
یہ ساری صورت حال زیادہ سمندری طوفانوں کو جنم دینے کا باعث بنے گی۔ زیادہ سمندری طوفانوں سے زمین پر زیادہ بارشیں اور زوردار سیلابوں کے پیدا ہونے کے امکانات اور بحر اوقیانوس کے اطراف میں خوراک کی قلت یقینی ہو جائے گی۔ یہ منظر نامہ انسانی بستیوں کے لیے سنگین حالات کا باعث ہو گا۔
قطبین (قطب منجمد شمالی اور قطب منجمد جنوبی) کو زمین کا ایئر کنڈیشن بھی کہا جاتا ہے۔ کلائمیٹ چینج کے حوالے سے مسلسل بُری اطلاعات سامنے آتی جا رہی ہیں۔ زمین کے منجمد براعظموں پر ماحول کے گرم ہونے اور درجہ حرارت کے بڑھنے سے گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
دنیا کے چھ شہروں کے 2050ء تک مستقل زیر آب آ جانے کا خطرہ
بڑھتے ہوئے زمینی درجہ حرارت کے باعث 2050ء تک دنیا کے چند بڑے ساحلی شہر مسلسل زیر آب آ جانے کا خطرہ ہے۔ نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جو شدید سیلاب پہلے ایک صدی میں ایک بار آتے تھے، کچھ شہروں میں آئندہ ہر سال آنے لگیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Toedt
شنگھائی (چین)
چین میں 93 ملین انسان ایسے زمینی علاقوں میں رہتے ہیں، جو 2050ء تک زیر آب آ جائیں گے۔ امریکی تحقیقی تنظیم کلائمیٹ سینٹرل کی ریسرچ کے مطابق اس کا سبب بڑھتا ہوا زمینی درجہ حرارت ہو گا اور ساحلی علاقوں میں سالانہ سیلابوں کی بڑھتی ہوئی اوسط بھی۔ چین کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر شنگھائی بھی سمندری سیلابوں کے خطرے سے دوچار ہے کیونکہ وہاں ایسے سیلابوں سے تحفظ کے لیے کوئی ساحلی دفاعی نظام موجود ہی نہیں۔
تصویر: Reuters/A. Song
ہنوئے (ویت نام)
ویت نام میں 31 ملین سے زائد شہری یا ملکی آبادی کا تقریباﹰ ایک چوتھائی حصہ اس وقت ایسی زمین پر آباد ہے، جس کے 2050ء تک ہر سال کم از کم ایک مرتبہ شدید حد تک زیر آب آ جانے کا خطرہ ہے۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ تب تک ہر سال آنے والے سمندری سیلابوں سے خاص طور پر میکانگ ڈیلٹا کے بہت گنجان آباد خطے اور ویت نام کے دارالحکومت ہنوئے کے ارد گرد شمالی ساحلی خطے میں خاص طور پر شدید خطرات لاحق ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/DUMONT Bildarchiv
کولکتہ (بھارت)
بھارت میں 2050ء تک جتنی زمین بڑھتی ہوئی سطح سمندر کی وجہ سے ہر سال زیر آب آنے لگے گی، اس خطہ زمین پر تقریباﹰ 36 ملین انسان آباد ہیں۔ ریاست مغربی بنگال کا شہر کولکتہ بالخصوص خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ کوئی سمندری سیلاب کسی ساحلی شہر کو کس حد تک زیر آب لا سکتا ہے، اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہاں ساحلی علاقے میں آبی ریلوں سے حفاظت کے انتظامات کیسے ہیں۔
تصویر: DW/S. Bhowmick
بنکاک (تھائی لینڈ)
تھائی لینڈ کے 10 فیصد سے زیادہ باشندے اس وقت ایسے زمینی علاقوں میں رہتے ہیں، جو 2050ء تک باقاعدگی سے سیلابوں کی زد میں آ سکتے ہیں۔ تھائی دارالحکومت بنکاک کی یہ تصویر 2011ء میں آنے والے سیلاب کی ہے۔ یہ شہر سطح سمندر سے صرف ڈیڑھ میٹر بلند ہونے کی وجہ سے خاص طور پر خطرے میں ہے۔ ماہرین کے مطابق تھائی لینڈ کی 94 فیصد آبادی 2100ء تک سیلابوں کی وجہ سے بے گھر یا نقل مکانی پر مجبور ہو سکتی ہے۔
تصویر: AP
بصرہ (عراق)
کلائمیٹ سینٹرل کے ماڈلز کے مطابق عراق کا دوسرا سب سے بڑا شہر بصرہ بھی ساحلی سیلابوں کا شکار ہو جانے کے خطرے سے دوچار ہے اور 2050ء تک زیادہ تر پانی میں ڈوب سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کے اثرات عراق کی قومی سرحدوں سے باہر تک محسوس کیے جائیں گے کیونکہ سطح سمندر میں اضافے کے نتیجے میں نقل مکانی سے نئے علاقائی اور سیاسی تنازعات پیدا ہوں گے اور جو تنازعات پہلے سے موجود ہوں گے، ان میں شدت آ جائے گی۔
تصویر: Hussein Faleh/AFP/Getty Images
اسکندریہ (مصر)
ساحلی علاقوں میں آئندہ سیلاب ثقافتی میراث کی تباہی کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ مصر کے شہر اسکندریہ کی بنیاد دو ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے اسکندر اعظم نے رکھی تھی، مگر بحیرہ روم کے کنارے واقع پانچ ملین کی آبادی والے اس شہر کا بڑا حصہ نشیبی ہے۔ سیلابوں کی روک تھام کے انتظامات اور شہری آبادی کی ممکنہ نئی آباد کاری کے قبل از وقت تیار کردہ منصبوں کے بغیر اس شہر کا زیادہ تر حصہ 2100ء تک زیر آب آ سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Toedt
6 تصاویر1 | 6
یہ امر اہم ہے کہ گرم ہوتا ماحول صرف برف ہی نہیں پگھلا رہا بلکہ ماحولیاتی ہوائی نظام کو بھی بتدریج کمزور کرتا چلا جا رہا ہے۔ ان منجمد براعظموں کی برف حقیقت میں سورج کی حدت کو زمین پر پہنچنے سے قبل واپس لوٹا دیتی ہے اور جوں جوں قطبین کی برف کی چادر کمزور ہوتی جائے گی توں توں سورج کی حدت زمین میں جذب ہوتی جائے گی اور انجذاب کا یہ عمل سمندروں کا مرہون منت ہوگا۔
سمندروں میں سورج کی حدت کے جذب ہونے سے سمندری حیات ناپید ہونا شروع ہو جائے گی۔ سمندری نباتات، مچھلیاں، سمندری پرندے، برفانی ریچھ بتدریج ناپید ہوتے چلے جائیں گے۔ سن 2018 میں الاسکا کے پہلو میں واقع بحر بیرنگ پر جمنے والی برف گزشتہ پانچ ہزار سالوں میں سب سے کمزور اور باریک تہہ والی تھی۔
یہ ایک مایوس کن صورت حال ہے۔ اگر زمین کا اوسط درجہ حرارت اسی رفتار کے ساتھ بڑھتا رہا تو اختتام صدی تک زمین کی مستقل برفانی چادر کا چالیس فیصد پگھل سکتا ہے۔
برف کے پگھلنے سے سمندروں کی سطح بلند ہوتی چلی جائے گی اور یہ امکان ہے کہ جب قطبین کی برف پگھل جائے گی تو زمین کے سمندروں کی بالائی سطح ساٹھ میٹر تک بلند ہو جائے گی۔ یہ قیامت سے کم نہیں ہو گا۔ اس صورت میں زمین کے بڑے بڑے ساحلی شہر جیسا کہ لندن، وینس، ممبئی اور نیویارک سٹی وغیرہ ہیں، وہ گہرے پانی کے نیچے چلے جائیں گے۔
دنیا بھر میں شدید گرمی کے ریکارڈ ٹوٹتے ہوئے
چاہے فن لینڈ ہو، کینیڈا، پاکستان یا پھر بھارت، اس سال موسم گرما کا درجہ حرارت غیر معمولی حد تک زیادہ ہے۔ دوسری جانب نیوزی لینڈ کو گزشتہ ایک صدی میں گرم ترین موسم سرما کا سامنا ہے۔
تصویر: BC Wildfire Service/AFP
لِٹن، کینیڈا: آگ اور انتہائی درجہ حرارت
کینیڈا کے شہر لِٹن میں دو جولائی کو ریکارڈ توڑ گرمی دیکھنے میں آئی، جب درجہ حرارت تقریبا 50 ڈگری سیلسیئس تک جا پہنچا۔ چند دن بعد ہی جنگلاتی آگ نے اس پورے دیہات کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ ماہرین کے مطابق عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے شمالی امریکا میں اس طرح کے واقعات اب معمول کا حصہ ہو سکتے ہیں۔
تصویر: BC Wildfire Service/AFP
کیووو، فن لینڈ: شمالی یورپ میں ریکارڈ گرمی
فن لینڈ کے شمالی علاقے لیپ لینڈ میں سن 1914 کے بعد یہ گرم ترین جولائی تھا۔ برف سے ڈھکے رہنے والے اس علاقے میں بھی درجہ حرارت تقریبا چونتیس سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔ اسکینڈے نیویا کے دوسرے حصوں میں بھی درجہ حرارت اوسطاﹰ دس سے پندرہ ڈگری زیادہ ہے۔ ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ شمالی یورپ میں ریکارڈ درجہ حرارت کا تعلق بھی شمالی امریکا میں گرمی کی لہر سے ہے۔
تصویر: Otto Ponto/Lehtikuva/AFP/Getty Images
جیکب آباد، پاکستان: دنیا کا ایک گرم ترین علاقہ
جیک آباد پاکستان کے صوبہ سندھ میں واقع ہے اور وہاں کی آبادی تقریبا دو لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ جون کے آواخر میں اس شہر کا درجہ حرارت باون سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا، جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ حکام نے لوگوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت جاری کر دی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
نئی دہلی، بھارت: گرمی سے اموات اور مون سون
بھارت کو بھی اس سال غیرمعمولی گرمی کی لہر کا سامنا ہے۔ جولائی کے آغاز میں دہلی کا درجہ حرارت نو سال بعد تینتالیس سینٹی گریڈ تک پہنچا۔ مون سون کے سیزن میں تاخیر ہوئی جبکہ گرمی کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد چھ ہزار سے زائد رہی۔
تصویر: Adnan Abidi/REUTERS
نژنییا پیشا، روس: پیرما فراسٹ سے میتھین جاری
سائبیریا میں بھی رواں سال گرمی میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ خشک سالی اور تیز درجہ حرارت کے باعث شمالی روس کے جنگلات میں آگ بھڑک اٹھی۔ پیرما فراسٹ یا منجمد زمین والے علاقے سے میتھین کا اخراج ہونا شروع ہو گیا تھا۔
تصویر: Thomas Opel
نیوزی لینڈ کی سردیاں بھی گرم
نصف کرے کے آرپار ہونے کی وجہ سے پاکستان میں گرمیاں ہوں تو نیوزی لینڈ میں سردیوں کا موسم چل رہا ہوتا ہے۔ گزشتہ ماہ وہاں سخت سردی ہونی چاہیے تھی لیکن وہاں بائیس سینٹی گریڈ تھا۔ نیوزی لینڈ کی 110 سالہ تاریخ میں یہ گرم ترین جون تھا۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت نیوزی لینڈ کی زراعت کے لیے بھی خطرہ بن چکا ہے۔
تصویر: kavram/Zoonar/picture alliance
میکسیی کالی، میکسیکو: ڈرامائی خشک سالی
جون میں درجہ حرارت اکاون سینٹی گریڈ سے بھی اوپر چلا گیا تھا اور یہ اس ملک میں اب تک کی شدید ترین گرمی تھی۔ ان دنوں میکسیکو کو گزشتہ تیس برسوں کی بدترین خشک سالی کا بھی سامنا ہے۔ میکسیکو سٹی کے قریب آبی ذخائر میں بھی پانی کی سطح نیچے گر رہی ہے۔
تصویر: Fernando Llano/AP/dpa/picture alliance
غدیمس، لیبیا: شمالی افریقہ میں صحرائی حرارت
جزیرہ نما عرب اور شمالی افریقہ میں بھی یہ سال خاص طور پر گرم رہا۔ لیبیا کے مغرب میں جون کے اواخر میں معمول کے برعکس دس ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت زائد رہا۔ غدیمس کا شمار دنیا کے گرم ترین علاقوں میں ہوتا ہے اور وہاں کا درجہ حرارت جون میں چھیالیس ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔
تصویر: DW/Valerie Stocker
8 تصاویر1 | 8
گھبرائیں مت۔ ایسا مستقبل قریب میں ظاہر نہیں ہونے والا ہے۔ ابھی تک ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ بعض ریسرچر نے اس کا امکان ظاہر کیا ہے کہ صدی کے اختتام تک سمندروں کی سطح دو میٹر تک بلند ہو سکتی ہے۔ یہ بھی ایک خطرناک منظر کی آئنہ دار ہے۔ ایسی صورت میں لاکھوں افراد کو موجودہ سمندری ساحلی علاقوں سے مہاجرت کرنا پڑے گی۔
زمین کی مستقل برف کی چادر کو بچانا اشد ضروری ہو چکا ہے۔ اس کا سب سے آسان حل کاربن گیسوں کے اخراج کو بند کر کے ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے میں پوشیدہ ہے۔