بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی ’اجارہ داری‘ کا خاتمہ ضروری، رپورٹ
7 اکتوبر 2020
امریکا کی بہت بڑی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی کاروباری اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ ایوان نمائندگان کی انصاف سے متعلقہ ایک کمیٹی نے انہیں کنٹرول میں لانے کی کی تجویز پیش کی ہے۔
اشتہار
امریکی ایوان نمائندگان کی انصاف سے متعلقہ امور کی کمیٹی نے اپنی ایک رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ چند بڑے بڑے کاروباری اداروں نے امریکی بزنس مارکیٹوں میں اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔
ان اداروں میں فیس بک، گوگل، ایپل اور ایمیزون خاص طور پر نمایاں ہیں۔ کمیٹی کے مطابق اجارہ داری کے اس سلسلے کو ختم کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اس کمیٹی نے ان چار بڑے اداروں پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے اپنی اجارہ داری سے کاروباری حلقوں کو اپنے مقاصد کا تابع بنا رکھا ہے۔
امریکی کانگریس کے ایوان زیریں کے مطابق ملک میں کاروبار کے لیے پہلے سے موجود عدم اعتماد سے متعلق ضوابط میں بڑی تبدیلیاں لائی جانا چاہییں۔ اس کمیٹی کی یہ رپورٹ پندرہ ماہ کی چھان بین کے بعد مرتب کی گئی اور اس کا اجراء منگل چھ اکتوبر کو عمل میں آیا۔
رپورٹ کے مطابق گوگل نے سرچ انجن سے منسلک کاروباری سرگرمیوں کو پوری طرح اپنے زیرِ اثر کر رکھا ہے۔ فیس بک نے سوشل نیٹ ورکنگ مارکیٹ پر مکمل اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔
ان کے ساتھ ساتھ ایپل نے سارے امریکا میں اہم اور پائیدار موبائل آپریٹنگ سسٹم اور دوسری کمپیوٹنگ ایپلیکیشنز کے ساتھ اسی نوعیت کی کاروباری سرگرمیوں کو زیرِ اثر کیا ہوا ہے۔ اسی طرح ایمیزون اپنے قابلِ اعتبار آن لائن کاروبار سے مسلسل اپنے کاروباری حجم کو بڑھاتا جا رہا ہے۔
اشتہار
’یہ ادارے ریاستی ڈھانچے کو چیلنج کرنے لگے ہیں‘
ساڑھے چار سو صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اب ان بڑی بڑی کمپنیوں نے ریاستی ڈھانچے کو بھی چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ ماضی میں ایسی اجارہ داری کا دور اس وقت دیکھا گیا تھا، جب تیل کی صنعت سے وابستہ بڑے بڑے کاروباری افراد اور ریل ٹریک کے بزنس سے منسلک تاجر برادری نے اپنا ایک حلقہٴ اثر قائم کر لیا تھا۔
ایپل کی مالیاتی قدر دو ٹریلین ڈالر سے بڑھ گئی
کورونا کی وبا پھیلنے کے بعد سے لوگوں کی طرف سے ایک دوسرے کے ساتھ رابطوں میں رہنے کے لیے ایپل کی مصنوعات کا استعمال بڑھ گیا ہے، جس کا نتیجہ اس امریکی ٹیکنالوجی کمپنی کے مارکیٹ حصص کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں نکلا۔
تصویر: picture-alliance/newscom/J. Angelillo
دو ٹریلین کا سنگ میل عبور کرنے والی دوسری کمپنی
امریکا کی اولین ایک ٹریلین ڈالر مالیاتی قدر والی کمپنی بننے کے محض ایک سال بعد ہی ایپل نے ایک اور چوٹی سر کر لی ہے۔ آئی فون بنانے والی ایپل کمپنی امریکا کی پہلی ایسی پبلک کمپنی بن گئی ہے جس نے دو ٹریلین یا دو کھرب کی مالیاتی قدر کا سنگ میل عبور کر لیا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا کے دوران باہمی رابطوں کے لیے لوگوں نے ایپل کی مصنوعات کی خریداری بڑے پیمانے پر کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Kataoka
دنیا کی سب سے زیادہ مالیاتی قدر والی کمپنی
ایپل دنیا کی پہلی ایسی کمپنی نہیں ہے جس نے دو ٹریلین ڈالر کی مالیاتی قدر حاصل کی ہے۔ یہ فخر سعودی کمپنی آرامکو کو حاصل ہے جس نے گزشتہ برس دسمبر میں اپنی پبلک ٹریڈنگ کے دوسرے ہی روز دو کھرب ڈالر کی مالیاتی قدر حاصل کرنے والی اولین کمپنی کا ریکارڈ بنایا تھا۔ تاہم تیل پیدا کرنے والی یہ سعودی کمپنی عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کے سبب دنیا کی سب سے زیادہ قدر والی کمپنی کا اعزاز برقرار نہ رکھ سکی۔
تصویر: Reuters/H.I. Mohammed
جلد دیگر کمپنیاں بھی متوقع
توقع ہے کہ جلد دو دیگر امریکی کمپنیاں مائیکروسافٹ اور ایمیزون بھی دو ٹریلین ڈالر کی قدر حاصل کر لیں گی کیونکہ کورونا وبا کے دوران ان کے شیئرز کی قیمتیں بھی تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ مائیکروسافٹ کی مصنوعات گھر سے ہی کام کرنے والے افراد کے لیے مددگار ثابت ہو رہی ہیں تو ساتھ ہی آن لائن شاپنگ کے لیے ایمیزون پر لوگوں کا انحصار بڑھ رہا ہے۔ یہ دونوں کمپنیاں ڈیڑھ ٹریلین ڈالر کی قدر کا سنگ میل عبور کر چکی ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Moon
ارب پتی افراد کی فہرست میں ایک اور اضافہ
ایپل کمپنی کی مالیاتی قدر میں اضافے کا فائدہ اس کے سربراہ ٹِم کُک کو بھی پہنچا ہے۔ بلومبرگ کے مطابق وہ اب ارب پتی افراد کی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔ کک نے جب 2011ء میں کمپنی کی سربراہی سنبھالی تھی تو اس کی قدر 350 بلین ڈالر تھی۔ اس وقت یہ سوال بھی اٹھا کہ آیا وہ کمپنی کی اختراعات کی روایت کو برقرار رکھ بھی سکیں گے یا نہیں۔ کُک نے اپنی دولت کا زیادہ تر حصہ فلاحی اداروں کو دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/T. Avelar
ایک گیراج سے کمپنی شروع کرنے والے لیجنڈ
ایپل کمپنی کا آغاز اسٹیو جابز اور ان کے ہائی اسکول کے کلاس فیلو اسٹیو وزنیاک نے 1976ء میں کیا تھا۔ انہوں نے کام کا آغاز اسٹیو جابز خاندان کے گیراج میں کیا اور اسے پہلا کامیاب پرسنل کمپیوٹر بنانے والی کمپنی کا اعزاز ملا۔ اس کے چار سال بعد اسے پبلک کمپنی بنا دیا گیا۔ 1980ء کی دہائی کے آخر تک یہ کمپنی دو بلین ڈالر کی قدر کے ساتھ امریکی کارساز کمپنی فورڈ سے زیادہ مالیاتی قدر والی کمپنی بن چکی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Apple
ڈوبتے ڈوبتے بچنے والی کمپنی
اس کے بعد ایپل کا نیا کمپیوٹر میکن ٹوش تھا جس میں گرافیکل انٹرفیس استعمال ہوا۔ مگر ناکافی میموری اور بظاہر ایک کھلونے کی شکل والے اس کمپیوٹر کو زیادہ پذیرائی نہ ملی اور نتیجتاﹰ اسٹیو جابز کو 1985ء میں یہ کمپنی چھوڑنا پڑی۔ 1997ء میں جابز دوبارہ اس کے سربراہ بنے جب ایپل کمپنی دیوالیہ ہونے کے خطرات سے دوچار تھی۔ اس کے بعد ایپل نے صرف کامیابیاں ہی دیکھی ہیں۔
تصویر: imago/UPI Photo
آئی فون کا لمحہ
ایپل کی سب سے کامیاب پراڈکٹ ابھی بھی آئی فون ہی ہے۔ سب سے پہلے آئی فون میں میوزک پلیئر، ویب براؤزر اور ای میل کرنے کی صلاحیتوں کو یکجا کر دیا گیا تھا۔ 2007ء میں متعارف کرائے گئے اولین آئی فون نے اپنے تمام حریفوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ایپل کے لیے آج بھی کمائی کا سب سے بڑا ذریعہ آئی فون ہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Images/P. Sakuma
7 تصاویر1 | 7
اس خصوصی رپورٹ کی مناسبت سے ایوان نمائندگان کی متعلقہ کمیٹی کے سربراہ جیرالڈ نیڈلر اور اینٹی ٹرسٹ کمیٹی کے چیئرمین ڈیوڈ سیسلین کی جانب سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ان چار کاروباری اداروں نے اپنی قوت سے ملکی معیشت کے ایک بڑے حصے پر اپنی گرفت مستحکم بنا رکھی ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ کاروباری ادارے اپنی ساکھ اور قوت سے مارکیٹوں میں استحصالی رویے اپنائے ہوئے ہیں اور انہوں نے دوسرے اداروں کے لیے مسابقتی عمل کے دروازے بھی بند کر دیے ہیں۔
اس رپورٹ میں امریکی کانگریس سے کہا گیا ہے کہ وہ ایسی قانون سازی کرے، جس کے ذریعے ان اداروں کو ان کی مناسب حدود میں رکھنا ممکن ہو سکے۔ یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ ان ادروں کو حکم دیا جائے کہ وہ اپنے اپنے کاروبار کو تقسیم کریں اور دوسرے اداروں کو خرید سکیں۔ رپورٹ کے مطابق ایسی جامع قانون سازی کی ضرورت ہے جو کاروباری شعبے میں وسیع تر تبدیلیوں کی وجہ بن سکے۔
ع ح / م م (اے پی، اے ایف پی)
ایپل کے چالیس برس: ایک گیراج سے دنیا کے ہر کونے تک
چالیس برس پہلے امریکا کے تین نوجوانوں نے ایپل کمپیوٹر کمپنی کی بنیاد رکھی تھی۔ ایک گیراج سے شروع ہونے والی یہ کمپنی آج دنیا کی مہنگی ترین کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ اس کی تاریخ پر ایک نظر۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Apple
آغاز ایک گیراج سے
اس کا آغاز 1976ء میں اکیس سالہ سٹیو جابز (دائیں جانب) کے والدین کے گیراج سے کیلیفورنیا میں ہوا۔ سٹیو جابز نے اپنے دوستوں سٹیو وسنیاک(بائیں جانب) اور رونالڈ وین کے ساتھ ایپل کمپیوٹر کمپنی کی بنیاد رکھی۔ وین نے گیارہ دن بعد ہی اس کمپنی کا ساتھ چھوڑ دیا۔ انہوں نے اپنا حصہ تئیس سو امریکی ڈالر میں فروخت کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Apple
ٹیپ ریکارڈر کی تکنیک
سب سے پہلی پراڈکٹ کا نام ایپل ون رکھا گیا۔ یہ کمپیوٹر بنیادی طور پر ایک سرکٹ بورڈ، ایک کی بورڈ اور ایک مونیٹر پر مشتمل تھا۔ سی پی یو نما ایک ڈبہ علیحدہ خریدنا پڑتا تھا۔ اس میں ٹیپ ریکارڈر کی تکنیک استعمال کی گئی تھی۔ آوازوں کو محفوظ کیا جا سکتا تھا اور پھر اپ لوڈ بھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Ben Margot
دو سو سے دو ملین تک
1977ء میں ایپل ٹو مارکیٹ میں لایا گیا۔ ایپل ون کے صرف دو سو سیٹ فروخت ہوئے۔ ہر سیٹ کی قیمت 666 امریکی ڈالر تھی۔ یہ آمدنی ناکافی تھی۔ اسی سال ایپل کو ایک کارپوریشن میں تبدیل کر دیا گیا۔ امریکی تاجر مائیک مارکولا نے ڈھائی لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور کمپنی کے چھبیس فیصد حصص کے مالک بن گئے۔ انیس سو اکیاسی سے انیس سو تریاسی تک وہ کمپنی کے سربراہ رہے۔ اس دوران ایپل ٹو کے دو ملین کمپیوٹر فروخت ہوئے۔
تصویر: cc-by-2.0 Marcin Wichary
اسٹیو جابز کی بے دخلی
1983ء میں جان سکیلی (دائیں جانب) ایپل کے نئے سربراہ بنے۔ انہوں نے سٹیو جابز(بائیں جانب) کے ساتھ مل کر ماؤس والا پرسنل کمپیوٹر ’لیزا‘ پیش کیا۔ 1985ء میں دونوں کے مابین اختلافات پیدا ہوئے۔ جابز نے کمپنی چھوڑ دی اور نئی کمپیوٹر کمپنی نیکسٹ (NeXT) کی بنیاد رکھی۔
تصویر: Imago/United Archives International
ایپل بحران کا شکار
اسّی کی دہائی کے اواخر میں پہلا پورٹیبل کمپیوٹر پیش کیا گیا۔ 1990ء میں حریف کمپنی مائیکروسافٹ کی وجہ سے ایپل شدید دباؤ کا شکار ہو گئی۔ 1993ء میں ایپل کمپنی خسارے میں چلی گئی اور جان سکیلی کو جانا پڑا۔ 1996ء میں ایک بہتر آپریٹنگ سسٹم کی تلاش میں ایپل نے چار سو ملین کے عوض نیکسٹ کو خرید لیا۔ اس طرح سٹیو جابز کی واپسی ہوئی اور ایک سال بعد وہ ایپل کے سربراہ بن گئے۔
تصویر: Delsener
شاندار واپسی
1998ء میں ایپل نے نئے ڈیزائن کے ساتھ آئی میک لانچ کر دیا۔ ایپل کی اس کامیاب کمرشل واپسی نے مارکیٹ میں ایک ہلچل پیدا کر دی تھی۔ میک سے پہلے ’آئی‘ کا مطلب ’انٹرنیٹ، انفرادی، انفارم اور انسپائر پیش کیا گیا۔ یہ ایپل کی متعدد مصنوعات کی شناخت بنا۔
تصویر: Imago/UPI Photo
ایک نسل کی آواز
2001ء میں جان روبن سٹائن نے ایپل کے سی ای او جابز کو ایک اعشاریہ آٹھ انچ کی ڈسک کے ساتھ ایک ایم پی تھری پلیئر کا خیال پیش کیا۔ جابز نے فوری طور پر گرین سگنل دے دیا۔ اس کے بعد آئی پوڈ وجود میں آیا اور پھر آئی ٹیونز میوزک اسٹور۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ مصنوعات مارکیٹ پر چھا گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آئی فون نے مغربی دنیا فتح کر لی
2007ء میں ایپل نے آئی فون اور ایپل ٹی وی لانچ کر دیا۔ ایپل کپمنی پرسنل کمپیوٹرز کی مارکیٹ سے کہیں آگے جانا چاہتی تھی، یوں ’ایپل کمپیوٹر‘ کو ’ایپل انک‘ یعنی ایپل انکارپوریٹڈ کا نام دے دیا گیا۔ ٹچ سکرین والا فون دھماکہ خیز ثابت ہوا۔ 2015ء تک دنیا بھر میں 900 ملین آئی فون فروخت کیے جا چکے تھے۔
تصویر: picture alliance/AP Images/P. Sakuma
ایک عہد کا خاتمہ
2010ء میں سٹیو جابز نے اپنی کمپنی کی تازہ ترین ایجاد آئی پیڈ مارکیٹ میں پیش کی۔ ایک برس بعد طبی مسائل کی وجہ سے جابز نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ ٹِم کُک نئے سربراہ بنے۔ پانچ اکتوبر 2011ء کو کینسر کی وجہ سے سٹیو جابز وفات پا گئے۔
تصویر: cc-by William Avery/Matt Buchanan
ایجاد کس کی تھی؟
2011ء سے ایپل اور سام سنگ کے مابین رسہ کشی جاری ہے۔ ایپل کا الزام ہے کہ جنوبی کوریا کی کمپنی سام سنگ نے ان کی ٹیکنالوجی چرائی ہے۔ دونوں کے مابین عالمی سطح پر حقوق کی ملکیت کی جنگ جاری ہے۔ امریکا میں بدستور جاری مقدموں کو چھوڑ کر باقی زیادہ تر مقدمے اپنے اختتام کو پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دنیا کی سب سے مال دار کمپنی
2014ء میں ایپل کی مارکیٹ ویلیو 700 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔ اس حد کو عبور کرنے والی یہ دنیا کی واحد کمپنی تھی۔ ایک سال بعد ایپل واچ لانچ کرنے کی وجہ سے بھی یہ کپمنی سرفہرست رہی۔
تصویر: Reuters/S. Lam
نئے ساحلوں کی تلاش
2016ء کا آغاز ایپل کے لیے زیادہ اچھا نہیں رہا۔ ایپل کی جگہ گوگل کا ادارہ ’الفابیٹ‘ سب سے زیادہ مالیت والا ادارہ بن چکا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مغربی ملکوں میں سمارٹ فونز کی مارکیٹ سیر ہونے کو ہے۔ ایپل کو اپنی کامیابی کے لیے نئی اختراعات کے ساتھ مارکیٹ میں آنا ہو گا۔