1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: حکومت اور کسان اپنے اپنے موقف پرڈٹے ہوئے، تعطل برقرار

جاوید اختر، نئی دہلی
9 دسمبر 2020

بھارت میں حکومت کے متنازعہ زرعئی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج کا آج چودہواں دن ہے۔ فریقین اپنے اپنے موقف پر مُصر ہیں جس کی وجہ سے مذاکرات کے پانچ ادوار کے باوجود تعطل برقرار ہے۔

Indien Demonstration gegen Landwirtschaftgesetze
تصویر: Mohsin Javed

متنازعہ زرعئی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج سے پیدا شدہ صورت حال کا حل تلاش کرنے کی حکومت کی اب تک کی تمام کوششیں ناکام رہی ہیں۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ 'سیاہ قوانین‘ کی واپسی سے کچھ بھی کم پر راضی نہیں ہوں گے جب کہ حکومت کا کہنا ہے کہ قوانین واپس نہیں لیے جائیں گے البتہ ان میں بعض ترامیم کی جاسکتی ہیں۔

امیت شاہ کے ساتھ میٹنگ ناکام

حکومت اور کسانوں کے درمیان آج مجوزہ میٹنگ سے قبل کل کسانوں کی ملک گیر ہڑتال کے بعد شام کو وزیر داخلہ امیت شاہ نے کسانوں کے ساتھ اچانک میٹنگ طلب کرلی تاہم یہ میٹنگ ناکام ثابت ہوئی اور میٹنگ طلب کرنے کے حوالے سے بھی حکومت کے رویے پرکسانو ں نے ناراضگی کا اظہار کیا۔

 بھارتی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر کے ساتھ آج کسانوں کی مجوزہ میٹنگ منسوخ کردی گئی۔ کسانوں کے احتجاج شروع ہونے کے بعد سے حکومت کے ساتھ ان کی یہ چھٹی میٹنگ تھی۔ آج کی میٹنگ کیبجائے حکومت نے کسانوں کو ایک تجویز ارسال کی ہے۔ کسانوں کے رہنما اس تجویز پرتبادلہ خیال کررہے ہیں۔

’یہ کسانوں کے وقار کا معاملہ ہے‘

صنعت و تجارت کے نائب وزیر سوم پرکاش نے ایک ٹوئٹ کرکے ذریعے بتایا کہ وزیر داخلہ امیت شاہ نے کل(منگل) کو کسان تنظیموں سے قانون میں ممکنہ ترامیم کے سلسلے میں بات کی تھی۔ کسانوں نے جن ترامیم کا مطالبہ کیا ہے انہوں نے ان سب میں ترمیم کی بات کہی ہے۔ آج حکومت کسانوں کو تحریری تجویز پیش کررہی ہے۔ کسان اس پر غور و خوض کرکے حکومت کو بتائیں گے۔ ہر ایک کو یہ سمجھنا چاہئے کہ جو بھی ہو وہ ملک اور کسانوں کے مفاد میں ہو۔"

کسانوں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انہوں نے حکومت سے پہلے ہی کہا تھا کہ اگر وہ تحریری طور پر تجویز پیش کریں تو کسان اس پر غور کرسکتے ہیں۔ آل انڈیا کسان سبھا کے جنرل سکریٹری حنان ملّا نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا ایک وسیع تر کمیٹی اس پر غور و خوض کرے گی۔

بھارتیہ کسان یونین کے ترجمان راکیش ٹکیت نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی میٹنگ میں مرکز ی حکومت کی تجویز پر غور کریں گے اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے۔ ٹکیت کا کہنا تھا ”کسان واپس نہیں جائیں گے۔ یہ ان کے وقار کا معاملہ ہے۔ کیا حکومت قوانین واپس نہیں لے گی؟ کیا حکومت کا ظلم جاری رہے گا؟ اگر حکومت ہٹ دھرمی پر آمادہ ہے تو کسان بھی ضدی ہیں۔ قانون واپس لینا ہی ہوگا۔"

حکومت پر کسانوں میں پھوٹ ڈالنے کا الزام

وزیر داخلہ امیت شاہ کے ساتھ میٹنگ کے بعد کسان رہنماؤں نے حکومت پر کسانوں میں پھوٹ ڈالنے کا الزام عائد کیا ہے۔ دراصل امیت شاہ کے ساتھ کسانوں کی میٹنگ کو کافی اہم قرار دیا جارہا تھا۔ کسانوں کو پہلے امیت شاہ کے گھر پر مدعو کیا گیا لیکن بعد میں انہیں ایگری کلچرل ہاوس پہنچادیا گیا اور کہا گیا کہ میٹنگ ورچوئل ہوگی۔ اس پر کسان ناراض ہوگئے۔

دوسری طرف حکومت نے صرف چودہ کسا ن رہنماوں کو ہی مدعو کیا تھا، جب کہ اس سے قبل تقریباً تین درجن رہنما میٹنگوں میں حصہ لیتے رہے تھے۔کسان رہنماؤں نے حکومت کے اس رویے کو کسانوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش قرار دیا۔

اپوزیشن رہنماؤں کی بھارتی صدر سے ملاقات

 آج اپوزیشن جماعتوں کے چوبیس رہنما بھارتی صدر رام ناتھ کووند سے ملاقا ت کرنے والے ہیں۔ ان میں کانگریس کے رہنما راہول گاندھی، سابق مرکزی وزیر شرد پوار اور بائیں بازو کے رہنما سیتا رام یچوری شامل ہیں۔ حالانکہ کووڈ ضابطے کی وجہ سے صرف پانچ رہنماؤں کو ہی ملاقات کی اجازت ملے گی۔

قابل ذکر امر یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمان میں ان زرعی قوانین کی مخالفت کی تھی اور صدر کووند سے ان پر دستخط نا کرنے کی اپیل کی تھی۔ اپوزیشن کا کہنا تھا کہ یہ قوانین غیر جمہوری طریقے سے منظور کرائے گئے ہیں لیکن بھارتی صدر نے ان اعتراضات کو نظر انداز کرتے ہوئے قانون کی توثیق کردی تھی۔

اب تک پانچ کسانوں کی موت

ہزاروں کسان سردی کے باوجود پچھلے چودہ دنوں سے دہلی کے سرحدی علاقوں میں  مسلسل دھرنا دے رہے ہیں۔ انہوں نے قومی دارالحکومت میں داخل ہونے والے تقریباً تمام سرحدوں کا محاصرہ کررکھا ہے۔

سردی کی وجہ سے کل ایک اور کسان کی موت ہوگئی۔ دھرنا شروع ہونے کے بعد سے یہ پانچویں کسان کی ہلاکت تھی۔ ذرائع نے بتایا کہ 32 سالہ اجے مورے نامی ہریانہ کا یہ کسان دس روز قبل دھرنے میں شامل ہوا تھا۔ منگل کے روز وہ اپنے ٹریکٹر میں مردہ پایا گیا۔

جاوید اختر/ ک م

کورونا بحران، چینی کسانوں کے کاروبار کرنے کے انوکھے طریقے

03:50

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں