1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قلیوں کی زندگی کی گاڑی پٹڑی پر کب چڑھے گی!

جاوید اختر، نئی دہلی
28 اپریل 2020

کورونا وائرس کی روک تھام کے اقدامات کے تحت بھارت میں جاری چالیس روزہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ٹرینیں بھی بند ہیں، اس کے سبب لاکھوں قلیوں کو دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑ گئے ہیں۔

Indien | Coronavirus | Lockdown | Kalkutta | Bahnhof
تصویر: DW/Prabhakar

آمدنی کے متبادل ذریعے سے محروم قلی بھارت بھر میں مختلف ریلوے اسٹیشنوں پر اس دن کے شدت سے منتظر ہیں جب ٹرینیں دوباہ چلنی شروع ہوں گی تاکہ ان کی زندگی کی گاڑی بھی پٹڑی پر آ سکے۔

بھارت میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے تمام ٹرینیں بند ہیں اور اسی کے ساتھ قلیوں کی روزی روٹی بھی چھن گئی ہے۔ ملک کے تمام بڑے شہروں کے ریلوے اسٹیشنوں پر جہاں قلیوں کو پہلے فرصت کا موقع نہیں ملتا تھا، آج وہاں سناٹا ہے اور قلی مایوسی کے عالم میں اسٹیشنز پر ٹرینوں کی سیٹیوں کی آوازیں سننے کے لیے کان لگائے بیٹھے ہیں۔

کولکاتا کے ہوڑہ ریلوے اسٹیشن پر گزشتہ 22 برسوں سے قلی کا کام کرنے والے رام آسرے کہتے ہیں،”ہم نسل در نسل دنیا کا بوجھ اٹھارہے ہیں۔ ہمارے باپ دادا بھی ہوڑہ اسٹیشن پر کام کرتے تھے لیکن اب مہینے بھر سے ہماری آمدنی پوری طرح ٹھپ ہے۔ ہم نے تو کبھی خواب میں بھی ایسے دن کا تصور نہیں کیا تھا۔“

رام آسرے کے بقول پہلے روزانہ سا ت آٹھ سو روپے کی آمدنی آسانی سے ہوجاتی تھی۔ اپنا خرچ نکال کر جو بچتا تھا اسے بہار میں بیگو سرائے میں اپنے گھر بھیج دیتے تھے۔ اسی سے گاؤں میں نو افراد پر مشتمل ان کے کنبہ کا خرچ چلتا تھا۔ لیکن جب اپنا پیٹ بھرنا مشکل ہورہا ہے تو گھر والوں کی خبر کیسے لیں؟

بے روزگار ہوچکے تمام قلی کبھی ریلوے یا پھر غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے فراہم کیے جانے والے کھانے پر کسی طرح سے گزارا کررہے ہیں۔ لیکن انہیں  انہیں روزانہ کھانا ملنے کی کوئی ضمانت بھی نہیں۔ ان میں سے تو کچھ قلیوں کو تو کسی کسی دن صرف پانی پی کر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے۔

گزشتہ بیس برس سے قلی کا کام کرنے والے بھولا پاسوان بتاتے ہیں،”ایک ماہ سے تو ایک پیسے کی بھی آمدنی نہیں ہوئی ہے۔ اب تو جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں بچی۔“

تصویر: DW/Prabhakar

کہا جاتا ہے کہ ان قلیوں کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان میں بچت کی عادت نہیں ہوتی۔ یہ جو کچھ بھی کماتے ہیں، دو چار ہفتے میں کسی کے ہاتھوں اپنے گھر بھیج دیتے ہیں۔ دراصل لاک ڈاؤن کی وجہ سے جو صورت حال پیدا ہوئی ہے اس کا کسی نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ بھولا پاسوان کے والد کیدار بتاتے ہیں کہ انہیں سن 1974میں ریلوے کی سب سے بڑی ہڑتال یاد ہے۔ لیکن وہ بھی صرف بیس دن تک چلی تھی۔ جب کہ اس مرتبہ تو لاک ڈاؤن کے ختم ہونے کے آثار ہی نظر نہیں آرہے ہیں۔کیدار کہتے ہیں، ”ہمارا مستقبل غیر یقینی ہوگیا ہے۔ معلوم نہیں آگے کیا ہوگا۔ کورونا سے بچ بھی گئے تو شاید بھوکے مرجائیں۔“

یوں تو وفاقی حکومت نے غیر منظم شعبوں سے وابستہ مزدوروں کے لیے راحت پیکج کا اعلان کیا ہے لیکن قلیوں تک اب تک یہ امداد نہیں پہنچی ہے۔ رام آسرے کہتے ہیں، ”ہمیں معلوم ہوا ہے کہ مرکزی حکومت نے کئی راحتی منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ لیکن ہمیں تو اب تک کوئی مدد نہیں ملی ہے۔“

قلیوں نے حکومت سے خصوصی پیکج یا متبادل روزگار کا مطالبہ کیا ہے۔ مغربی بنگال میں قلیوں کی تنظیم کے رہنما دیواشیش سانیال کہتے ہیں، ”قلیوں کی آمدنی بند ہوگئی ہے۔  ان میں سے بہت سے لوگ یہاں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتے ہیں ایسے میں انہیں کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سب کچھ بند ہوجانے کی وجہ سے ان کے لیے اپنے گاؤں جانا بھی ناممکن ہوگیا ہے۔ ایسے میں ان کی حالت نہ گھر کا نہ گھاٹ کا والی ہوگئی ہے۔“

بھارتی ریلوے دنیا کا چوتھا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔ ملک بھر میں اسٹیشنوں کی تعداد  7321 ہے۔ بھارتی ریلوے روزانہ 20 ہزار سے زائد پسنجر ٹرینیں چلاتی ہے، جن کے ذریعہ تقریباً 23 ملین مسافر روزانہ سفر کرتے ہیں۔ ان کا سامان ڈھونے والے رجسٹرڈ قلیوں کی تعداد پچاس ہزار سے زائد ہے تاہم لاکھوں غیر رجسٹرڈ قلی بھی ریلوے اسٹیشنوں پر کام کرتے ہیں۔

جاوید اختر/ پربھاکر ، نئی دہلی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں