بھارت:مدارس میں رامائن اور گیتا پڑھانے کا متنازعہ فیصلہ
8 مارچ 2021بھارت کی مرکزی وزارت تعلیم کی جانب سے مدارس میں ہندوؤں کی مذہبی کتابیں رامائن اور گیتا کوبھی نصاب میں شامل کیے جانے کے فیصلے کی مسلم مذہبی رہنماؤں اور دانشوروں نے سخت مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مدارس کے قیام کا بنیادی مقصد اسلامی تعلیمات فراہم کرنا ہے اور حکومت کو مدارس کے نصاب میں مداخلت کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
ہندوتوا کے سانچے میں ڈھالنے کا ایجنڈا
مسلم دانشوروں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کا یہ فیصلہ بھارت کو ہندوتوا کے سانچے میں ڈھالنے کے ایجنڈے کے حوالے سے متعدد دیگر حکومتی اقدامات کا حصہ ہے۔
بھارتی صحافی اور روزنامہ جدید خبر کے ایڈیٹر معصوم مرادآبادی نے ڈی ڈبلیواردو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا ”یوں تو بھارت کے تمام کلیدی شعبوں کو بھگوا رنگ میں رنگا جارہا ہے، لیکن اس مشن میں تعلیم اور تدریس کے شعبوں کو خاص اہمیت دی جارہی ہے تاکہ طلباء کی ایک خاص نہج پر ذہن سازی کی جاسکے اور انہیں ہندوتوا میں ضم کیا جاسکے۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کا سیکولر نظام تعلیم تو پہلے سے ہی ہندوتوا کے زیراثر ہے، اب دینی تعلیم کے ان مدرسوں کی باری ہے جو اسلامی علوم اور شریعت کی تعلیم کے لیے مخصوص ہیں اور جہاں انہیں بھارتی آئین کی دفعہ 25 کے تحت حاصل حق کے تحت اسلام کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ” لیکن موجودہ حکومت اپنے بھگوا ایجنڈے کے تحت اقلیتوں کو حاصل دستوری تحفظ کو ختم کرمرکزی وزارت تعلیم پر آمادہ ہے۔"
معاملہ کیا ہے؟
بھارت کے مرکزی وزیر تعلیم رمیش پوکھریال نے اسکول کی سطح پر فاصلاتی تعلیم کے قومی ادارے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ(این آئی او ایس) کا تعلیمی مواد گزشتہ دنوں جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نصاب میں بھارتی علوم و فلسفہ کو آسان اور عام فہم زبان میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس سے طلبہ میں قدیم علوم کے ساتھ وطن پرستی کے جذبات بھی فرو غ پائیں گے۔ بھارتی وزیر تعلیم کا کہنا تھا، ”ہم اس نصاب کے فائدوں کو مدرسوں تک بھی پہنچائیں گے اور بھارتی ثقافت، ورثے، فلسفہ اور قدیم علوم کوجدید سیاق و سباق کے ساتھ نئی نسل تک پہنچانے کی این آئی او ایس کی یہ کوشش سنگ میل ثابت ہوگی۔"
اس نصاب میں رامائن اور گیتا کو پڑھانے کے علاوہ ہندو طریقہ علاج پتنجلی، یوگا کی مشقیں، سوریہ نمسکار شامل ہیں جبکہ عملی مشق کے تحت گائے چَرانے، گؤ شالوں کی صفائی ستھرائی وغیرہ جیسی چیزیں شامل کی گئی ہیں۔
این آئی او ایس کے چیئرمین سروج شرما نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا تھا کہ بھارتی ثقافت کو نئی نسل تک پہنچانے کی کوششوں کے تحت اس نصاب کو فی الحال 100 مدرسوں میں شروع کیا جارہا ہے جن میں پچاس ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں اور مستقبل میں اسے مزید500 مدرسوں میں توسیع دی جائے گی۔
یہ سلسلہ پرانا ہے
بھارتی صحافی معصوم مراد آبادی کا کہنا ہے کہ مدارس کو ہندوتوا کے رنگ میں رنگنے کی حکومت کی یہ کوشش کوئی نئی نہیں ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں بی جے پی کی حکومت والی ریاست آسام میں گزشتہ دنوں منظور اس قانون کا حوالہ دیا جس کے تحت سرکاری امداد یافتہ مدرسوں کی روایتی تعلیم ختم کرکے ان میں جدید تعلیم کا نصاب نافذ کیا گیا تھا۔
اترپردیش میں یوگی ادیتہ ناتھ حکومت میں واحد جونیئر مسلم وزیر محسن رضا نے سن 2018 میں مدارس کے طلبہ کے لیے ایک ڈریس کوڈ کا اعلان کرکے تنازعہ کھڑا کردیا تھا۔
ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کا خیال ہے کہ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو بنیاد پرستی اور شدت پسندی کی تعلیم دی جاتی ہے لہذا انہیں اس سے نکال کر جدید تعلیم کی طرف لایا جائے تاکہ وہ 'باعزت‘ زندگی گزار سکیں اور جدید تعلیم دلاکر ان کی بے روزگاری کا مسئلہ بھی دور کیا جاسکتا ہے۔
معصوم مرادآبادی کہتے ہیں ” بظاہریہ سوچ بڑی دلکش ہے اور اس میں ایک خاص قسم کی جاذبیت بھی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو طاقتیں بھارت میں اسلام اور مسلمانوں کا نام ونشان مٹانا چاہتی ہیں، ان کی نظر میں مدرسے کانٹوں کی طرح چبھتے ہیں اور وہ پہلی فرصت میں انہیں ختم کرنا چاہتے ہیں۔"
مسلم مذہبی رہنماؤں کا اعتراض
مسلم مذہبی رہنماؤں نے بھی حکومت کے فیصلے پر سخت اعتراض کیا ہے۔ان کاکہنا ہے کہ این آئی او ایس کو مدارس کے نصاب کے سلسلے میں فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
بھارت میں اسلامی علوم کے معروف ادارے لکھنؤ کے دارالعلوم فرنگی محل کے چیئرمین اور مسلمانوں کی ملک گیر نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن مولانا خالد رشید فرنگی محلی کا کہنا تھا، ” بھارت میں دو طرح کے مدارس ہیں۔ ایک وہ جو مدرسہ بورڈ کے تحت ہیں دوسرے جنہیں مسلمان خود چلاتے ہیں۔ حکومت کے زیر نگرانی مدرسہ بورڈ کے تحت چلنے والے مدارس تو حکومتی پالیسیوں کو نافذ کرنے کے لیے مجبور ہیں لیکن آزاد مدارس اپنا فیصلہ خود کرتے ہیں اور این آئی او ایس کو ایسے آزاد مدارس کو کسی طرح کا حکم دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔"
مدرسہ سلطان المدارس کی مجلس منتظمہ کے رکن مولانا یعسوب عباس کا کہنا تھا کہ اگر حکومت مدارس میں گیتا اور رامائن پڑھانا چاہتی ہے تو وہ ہندوقوم پرست جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے تحت چلنے والے پاٹھ شالاوں میں قرآن کی تعلیم شروع کیوں نہیں کررہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ” اگر حکومت نے مدارس میں اس طرح کا کوئی فیصلہ نافذ کرنے کی کوشش کی تو اس کی سخت مخالفت کی جائے گی۔"
حکومت کی صفائی
ماہر تعلیم اور لکھنؤ یونیورسٹی کے سابق صدر شعبہ عمرانیات پروفیسر ندیم حسنین کا کہنا ہے کہ یوں تو مدارس میں گیتا اور رامائن جیسی کتابوں کی تعلیم دینے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب حکومت اسے زبردستی لازم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
اس تنازعے کے بعد این آئی او ایس نے صفائی دیتے ہوئے کہا کہ دیگر مضامین کے ساتھ رامائن اورگیتا کا یہ نصاب ہر ایک کے لیے دستیاب ہے لیکن فاصلاتی نظام تعلیم میں ہر طالب علم اپنی پسند کے مضمون کا انتخاب کرنے کے لیے آزاد ہے۔ اس لیے گیتا اور رامائن پڑھنا لازمی نہیں ہوگا البتہ کوئی طالب علم اگر پڑھنا چاہے تو اس کے لیے یہ سہولت دستیاب ہوگی۔