بھارت:منشی پریم چند کا مجبورکسان آج بھی زندہ
12 اکتوبر 2020بھارت میں آج بھی کسان اسی طرح قرضوں کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔ مانا کہ ملک میں اب قحط نہیں پڑتے ہیں۔ 1943ء کے بنگال کے قحط میں دو ملین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ 1960ء کی دہائی میں آئے سبز انقلاب نے ملک کو خوراک میں خود کفیل بنا دیا۔ سرکاری گودام اب اس قدر بھرے ہوئے ہیں کہ مزید اناج کے لیے جگہ ہی نہیں ہے۔ مگر پھر بھی 46.6 ملین بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اور افراط اناج کے باوجود کسان قرضوں کے شکنجے میں اسی طرح جکڑا ہے، جس طرح منشی پریم چند کی کہانیوں میں ہوتا تھا۔
نیشنل کرائم ریکاڈ بیور وکے مطابق 1995ء سے 2016 ء تک تقریباً تین لاکھ کسانوں نے قرضوں کے جال سے تنگ آ کر خودکشیاں کر لی تھیں۔ ماحولیات سے متعلق جریدے ڈاون ٹو ارتھ Down To Earthکے اعداد وشمار کے مطابق 2019میں ہی 10,281کسانوں نے خود کشی کر لی۔ حیرت تو یہ ہے کہ ان میں سب سے زیادہ یعنی 3,927کسانوں کا تعلق ملک کے سب سے ترقی یافتہ صوبہ مہاراشٹر سے تھا، جس کا دارلحکومت ملک کی اقتصادی راجدھانی عروس البلاد کہلانے والا شہر ممبئی ہے۔
کورونا وائرس کی مار اور ٹڈیوں کے حملوں سے پریشان، بھارت کے کسان
خودکشی کرنے والے لاکھوں بھارتی کسانوں کی پریشان حال بیوائیں
بھارت میں صنعتوں کے ایک وسیع جال کے بچھنے کے باوجود ابھی بھی ملک کی 60 فیصد سے زیادہ آباد ی کا دارومدار زراعت پر ہی ہے۔برطانوی راج سے لے کر وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت تک، کسان کی حالت میں شاید ہی کوئی فرق پڑا ہو۔ہاں ایک فرق ہے منشی پریم چند کا کسان قحط اور اناج کی کمی جھیلنے کے باوجود خود کشی نہیں کرتا تھا۔ اب تو کسانوں کو مستقل طور پر کاشتکاری ترک کرنے، شہروں کی طرف ہجرت کرنے اور فیکٹریوں میں کام کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے، جس کا فائدہ براہ راست کارپوریٹ سیکٹر اور بڑے صنعتکاروں کو پہنچتا ہے۔ اس طرح لاکھوں نوجوان فیکٹریوں اور ملوں کے باہر دو وقت کی روٹی کے لئے کم سے کم اجرت پرکام کرنے کے لئے لمبی قطار میں کھڑے ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے، تاکہ صنعتوں کے لیے کم اجرت والے مزدور مہیا ہوں۔ستم ظریفی تو یہ ہے کہ یہ روایت برطانوی دور سے ہی چلی آ رہی ہے۔ بنگال کے قحط کے بعد، بہت سے کسان مجبوراً برطانوی فوج میں شامل ہوگئے تھا، تاکہ بھوکا مرنے سے بچاجاسکے۔ دو وقت کی روٹی کیلئے ان مجبور اور بے کس کسانوں نے عالمی جنگ میں برطانیہ کی فوجی نفری ضرورت پوری کی۔
حال ہی میں، بھارتی پارلیمنٹ نے ایک ایسا قانون منظور کیا، جس کی رو سے اب صنعت کاروں اور کارپوریٹ سیکٹر کاشت کاروں سے براہ راست غلہ یا اناج خرید سکیں گے۔ سطحی طور پر لگتا ہے کہ کسانوں کے پاس موجود غلے کے خریدنے کا سامان مہیا ہو گیا ہے۔ مگر بین السطور جب اس قانون کا جائزہ لیا جائے، تو پتہ چلتا ہے کہ کسانوں کے اناج خریدنے کے لیے پہلے جو کم از کم معاونی قیمت Minimum Support Price حکومت مقرر کرتی تھی، جس سے کوئی بیوپاری غریب کسان کا استحصال کرکے کم دام میں اس سے اناج نہ خریدسکتا تھا، اس شق کو ہی ختم کر دیا گیا ہے۔ میں نے جب اس سلسلے میں کئی زرعی ماہرین سے بات کی تو معلوم ہوا کہ کم سے کم اسپورٹ قیمت طے نہ کرنے سے آئندہ چند سالوں میں، کسان اپنی پیداوار صنعتکاروں کو کم قیمت پر بیچنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ دوسری طرف حکومت نے جس طرح سے یہ بل بغیر کسی بحث و مباحثے کے، اپوزیشن جماعتوں کی رائے لیے بغیرپاس کرایا، اس سے مزید شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔
آب پاشی کے بہتر نظام کی وجہ سے کئی دہائیوں سے صوبہ پنجاب، بھارت کے لیے اناج کے پیالہ کے طور پر مشہور ہے۔ اس صوبہ کا کسان باقی ملک کے مقابلے کسی حد تک خوشحال بھی ہے۔ اس نئے کسان قانون کے خلاف سب سے زیادہ بلند آواز بھی اسی صوبہ سے اٹھی ہے۔ ہوتا یہ تھا کہ اناج کی پیداوار کے بعد کسان اپنے ٹریکٹر یا بیل گاڑی پر گندم یا چاول لاد کر نزدیک کی منڈی میں جاکر آڑھتی کو بیچ کر رقم وصول کرتا تھا۔ چھوٹے کسانوں کے لیے آڑھتی ایک زندگی کی لکیر کی طرح کا کام کرتا تھا۔ ایک تو وہ فصل حکومت کے طے کردہ دام سے کم قیمت میں نہیں خرید سکتا تھا، دوسرا چونکہ اس کا کسان کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہوتا تھا، وہ اس کی خوشی اور غمی کے اوقات میں بھی مدد کرتا تھا۔ اب اس قانون میں تو ان منڈیوں کو ہی ختم کر دیا گیا۔ ماہرین سوال کرتے ہیں کہ جو رشتہ آڑھتی اور کسان کا ہوتا تھا، کیا اسی طرح کوئی رشتہ کارپوریٹ سیکٹر کا منیجر یا ملازم بنا پائے گا؟ اور کیا کسان ان بڑے صنعتی گھرانوں اور ڈیپارٹمنٹل اسٹوروں کے مالکان کے ساتھ قیمتوں کے سلسلے میں تکرار کر سکتا ہے؟ منشی پریم چند کے افسانوں کے برعکس آج کے کسان کا مسئلہ قلت اناج کا نہیں بلکہ فاضل مقدار کا ہونا ہے۔ دیہی علاقوں میں کولڈ اسٹوریج نہ ہونے سے اسکو ہر دم اناج، پھل اور سبزیوں کے خراب ہونے کا اندیشہ لگا رہتا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر کا ملازم اس کا فائدہ اٹھا کر نہایت ہی کم دام میں یہ چیزیں خریدے گا۔
اس لیے بطور احتجاج پنجاب کی سیاسی پارٹی اکالی دل، جو دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی یعنی بی جے پی کی زیرقیادت نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کا حصہ رہی، نے بھی اس معاملے پرحکومت سے اپنی حمایت واپس لے لی۔ اگرچہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو اس سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے، مگر اس سے دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ کارپوریٹ سیکٹر کے مفاد کے لیے، بی جے پی نے پارلیمانی جمہوریت کے تمام اصولوں کو نظرانداز کردیا، اپوزیشن تو دور کی بات، اپنے اتحادیوں اور وزیروں سے بھی صلاح مشورہ نہیں کیا اور دوسری طرف بھولے بھالے کسانوں کو کارپوریٹ سیکٹر کے مگر مچھوں کے سامنے بطور چارہ ڈال دیا ہے۔
اہم مسئلہ یہ ہے کہ دوسری صنعتوں کی طرح کسان بھی اپنی پیداوار کی قیمت کا فیصلہ خود کیو ں نہیں کر سکتے ہیں؟ایک طرف جہاں بڑے صنعتکار بینکوں سے کئی بلین روپے کا قرض ادا کرنے میں ناکام ہوتے ہیں، تو حکومت اس کو ناقابل وصول قرضہ قرار دے کر نظر انداز کرتی ہے۔ مگرکسان کے پاس ایسی کوئی سہولت موجود نہیں ہے۔ اگر وہ قرضہ ادا کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے تو اس کا گھر، کھیت و کھلیان ضبط ہو جاتے ہیں۔ لاکھوں کسانوں نے ملک کے طول و عرض میں خو د اپنی جانیں لی ہیں۔ کیا ہم نے کبھی یہ سنا ہے کہ قرض کے بوجھ سے ڈوبے کس صنعت کار نے خود کشی کی ہو؟ یہ الگ بات ہے کہ صنعت کار قرض واپس کرنے سے اگر قاصر ہوتے ہیں، تو وہ بیرون ملک پناہ لیتے ہیں۔ پھر حکومت کی ان کو واپس لانے کی لاکھ کوششیں ان ملکوں کی عدالتی غلام گردشوں کی نظر ہو جاتی ہیں۔
اس کے علاوہ، وقتا فوقتا ہر حکومت کارپوریٹ سیکٹر کو قرضوں سے نجات دلانے کے لیے سبسڈی دینے کا بھی کا اعلان کرتی رہتی ہے، جس کو گروتھ مراعات کا خوبصورت لباس پہنایا جاتا ہے۔ ایک طرف، 1997 سے، حکومت کی طرف سے طے شدہ بنیادی تنخواہ (Basic Pay) میں 120 سے 150 گنا اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی الاؤنس (Dearness Allowance)میں 220 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔کسانوں کی آمدنی میں صرف 19 گنا اضافہ ہوا ہے۔اکنامک سروے کے مطابق، 17 ریاستوں کے کسانوں کی اوسطاً سالانہ آمدنی محض بیس ہزار روپے یعنی 270 امریکی ڈالر ہے۔ اس رقم سے، کسان کو نہ صرف اپنے کنبے کی پرورش کرنا ہوگی، بلکہ اگلی فصل کے لئے وسائل بھی اکٹھا کرنا ہوں گے۔ ایسی صورتحال میں کسان کے پاس صرف دو ہی متبادل باقی رہ جاتے ہیں۔ یا تو وہ خود کشی کرکے زندگی سے آزاد ہو یا کھیتی سے توبہ کرکے اپنی نوجوان نسل سرمایہ داروں کے حوالے کردے۔ یعنی منشی پریم چند کے کہانیوں کے کردار آج بھی زندہ ہیں۔ بس سود خور مہاجن کا کردار اب حکومت خود ادا کر رہی ہے۔