بھارت:ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
15 مئی 2020بھارت میں کورونا وائرس نے اس تلخ حقیقت کو بھی اجاگر کیا ہے کہ بڑے بڑے صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کی نگاہ میں مزدوروں کی حیثیت ایک ادنٰی غلام سے بھی کمتر ہے۔
لاک ڈاؤن کے بعد بے روزگار ہوجانے والے مہاجر مزدوراکیلے یا اپنی بیوی بچوں کو لے کر پیدل ہی گاؤں پہنچنے کے لیے نکل پڑے ہیں۔ 25 مارچ کولاک ڈاؤن کے اچانک اعلان کے بعد سے اب تک ملک بھر کے اہم قومی شاہراہوں پر ان کی طویل قطاریں دیکھی جاسکتی ہیں۔ اس دوران درجنوں مزدور اور ان کے لواحقین سڑک حادثات اور بیماری کی وجہ سے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
مہاجر مزدوروں کی بہبود کے لیے سرگرم رضاکار تنظیم SWAN (اسٹرینڈیڈ ورکرز ایکشن نیٹ ورک) نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ مہاجر مزدوروں کی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے لیکن حکومت نہ صرف عوام بلکہ عدلیہ کو بھی گمراہ کررہی ہے۔ حکومت نے سپریم کورٹ میں دائر اپنے حلف نامے میں دعوی کیا تھا کہ مہاجر مزدوروں کا پورا خیال رکھا جارہا ہے۔ لیکن سوان کا کہنا ہے کہ ان کے سروے کے مطابق 97 فیصد مزدوروں کو حکومت کی طرف سے کسی طرح کی امداد نہیں ملی ہے۔
مہاجر مزدوروں کے حقوق کی لڑائی لڑنے والے اور اس حوالے سے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے والے پروفیسر جگدیش چوکرنے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے افسوس ظاہر کیا کہ مہاجر مزدوروں کی کسی کوفکر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ”ابھی بھی لاکھوں کی تعداد میں مہاجر مزدور برے حالات میں ہیں اور مجھے یہ کہتے ہوئے دکھ ہوتا ہے کہ وہ ابھی انہی حالات میں رہیں گے کیوں کہ ایسا لگتا ہے کہ کسی کو ان کی فکر نہیں ہے۔“
سپریم کورٹ کے وکیل اور سماجی کارکن اے رحمان نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے پچھلے دنوں جو تقریر کی اس میں مزدوروں پر گذر نے والی غیر انسانی بپتا کا زکر تک نہیں تھا۔ حالانکہ یہ وہی مزدور ہیں جن کے بل بوتے پر موصوف نے ’میک ان انڈیا‘ کے بلند بانگ دعوے کیے تھے اور جن کے بغیر ملک کو خود کفیل بنانے کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔”ایسی سفاک اور سنگدلانہ بے توجہی اور بے حسی کی مثال ماضی قریب میں تو ایک ہی ملتی ہے اور وہ ہے جوزف اسٹالن جس نے سن 1932 سے سن1933 تک ایک سال کے عرصے میں منصوبہ بند طریقے سے 'ہولوڈو مور‘ کے ذریعہ ڈیڑھ کروڑ یوکرائنی باشندوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔" انہوں نے بتایا کہ'ہولوڈومور‘ کے لغوی معنی ہیں بھوک مسلط کرکے قتل کردینا۔
اے رحمان نے مزید کہا کہ اسٹالن اور مودی کے معاملے میں فرق صرف اتنا ہے کہ ”اچانک اور بغیر کسی وارننگ یا مہلت لاک ڈاؤن کے اعلان سے مزدوروں کے لیے ایک نہایت مشکل صورت حال پیدا کرکے انہیں حالات کے رحم و کرم پر ہی نہیں چھوڑ دیا گیا بلکہ کسی قسم کی مدد پہنچانا تو دور، ابتدا میں ان کے راستے اور وسائل مسدود کرنے کی کوشش کی گئی۔ اور اب بھی حکومت ان کی پرسان حال نہیں ہے۔“
سماجی کارکن اے رحمان کہتے ہیں کہ ہزاروں مزدوروں نے صورت حال اور سرکاری بے عملی سے متنفر ہوکر اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے آبائیعلاقوں اور بستیوں میں رہ کر بھوکا مرنا پسند کریں گے لیکن واپس ’کام‘ پر نہیں آئیں گے۔ اے رحمان کہتے ہیں ”اگرایسا ہوا اور ایک اندازے کے مطابق اسی فیصد مزدور اپنے کام پر واپس نہیں لوٹے تو ملک کو خود کفیل بنانا تو کجا معیشت کو واپس پٹری پر لانے کے لالے پڑجائیں گے۔"
بھارت کے سابق چیف اکنامک ایڈوائزرکوشک باسو نے حکومت کو مشور ہ دیا ہے کہ بھارت کو غریبوں اور مہاجر مزدوروں پر فوری توجہ دینے اور ان تک پہنچنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ ہم سب کی اجتماعی ناکامی ہوگی۔
ماہر اقتصادیات کوشک باسو نے ایک سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ان لاکھوں کروڑوں افراد پر فوراً توجہ دینی ہوگی جو بھک مری اور انتہائی غربت کا شکار ہونے والے ہیں۔”جو لوگ اپنے گھروں کو پہنچنے کے لیے سینکڑوں میل کا پیدل سفر کررہے ہیں وہ حالانکہ گروپ کی شکل میں جارہے ہیں لیکن حقیقت میں تنہا ہیں۔ ان کا ذہن اس بات سے پریشان ہے کہ ان کے بچوں اور گھر والوں کا کیا ہوگا۔ ہمیں ان پر فوری توجہ دینا ہوگی کیوں کہ ان کی امیدیں دم توڑنے لگی ہیں۔“
جاویداختر، نئی دہلی / کشور مصطفیٰ