1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتیہ جنتا پارٹی مسلم امیدواروں کو ٹکٹ کیوں نہیں دیتی؟

جاوید اختر، نئی دہلی
23 فروری 2022

وزیر اعظم مودی کی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی نے اترپردیش کے اسمبلی انتخابات میں اس مرتبہ بھی کسی مسلمان کو امیدوار نہیں بنایا۔ حالانکہ اس ریاست میں 36 نشستیں ایسی ہیں جہاں مسلمان اپنے بل بوتے پر جیت سکتے ہیں۔

Indien Indische Muslime bei einem gesellschaftlichen Treffen
تصویر: Javed Akhtar/DW

’سب کا ساتھ، سب کی ترقی اور سب کا اعتماد‘ وزیر اعظم مودی کا مشہور نعرہ ہے۔ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت یوں تو بلا تفریق مذہب ہر بھارتی شہری کو ساتھ لے کر چلنے اور زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے دعوے کرتی ہے، لیکن عملی طور پرنہ تو اس کا کوئی ثبوت نظر آتا ہے اور نہ ہی زمینی حقائق اس دعوے کی تصدیق کرتے ہیں۔

اس کی تازہ مثال ملک میں سیاسی لحاظ سے سب سے اہمیت کی حامل ریاست اترپردیش کے اسمبلی انتخابات ہیں۔ جہاں بی جے پی نے  ایک بھی سیٹ کے لیے کسی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا جبکہ یہاں مسلمانوں کی تعداد 20 فیصد ہے۔ سن 2017 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بھی اس نے کسی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا تھا۔

امیت شاہ نے اس کی وجہ بتائی

صرف بی جے پی ہی نہیں بلکہ اس کی مربی تنظیم آر ایس ایس اکثر کہتی رہی ہے کہ بھارت میں ہندو اور مسلمانوں کا نہ صرف ڈی این اے ایک ہے بلکہ مسلمان بھائی کی طرح ہیں۔

 اس کے باوجود بی جے پی الیکشن میں کسی مسلمان کو امیدوار کیوں نہیں بناتی؟ یہ سوال جب بی جے پی کے سینیئر رہنما اور بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ سے پوچھا گیا توانہوں نے کہا کہ یہ کوئی سیاسی مجبوری نہیں بلکہ سیاسی اخلاقیات کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے ایک ٹی وی شو کے دوران کہا، ''الیکشن میں یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ ووٹ کون دیتا ہے۔ مسلمانوں کو ٹکٹ نہیں دینا سیاسی مجبوری نہیں بلکہ سیاسی اخلاقیات ہے۔‘‘

انہوں نے کہا،''ایک پارٹی ہونے کے ناطے الیکشن جیتنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ حکومت آئین کی بنیاد پر چلتی ہے اور حکومت کو عوام منتخب کرتی ہے۔ فیصلہ ووٹروں کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور سیاسی نمائندگی بھی اسی سے وابستہ ہے۔‘‘

اس سوال کے جواب میں کہ بی جے پی کا مسلمانوں کے ساتھ کیا رشتہ ہے، امیت شاہ کا کہنا تھا کہ حکومت اور ایک ذمہ دار سیاسی جماعت ہونے کی حیثیت سے جو رشتہ ہونا چاہیے وہی رشتہ ہے۔ الیکشن جیتنے کے بعد اگر ان کی فلاح و بہبود میں کوئی تفریق ہو تب الزام لگایا جاسکتا ہے۔

یوگی، مودی اور امیت شاہ(بائیں سے)تصویر: IANS

80 بمقابلہ 20 کیا ہے؟

اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی ادیتیہ ناتھ نے حالیہ اسمبلی انتخابات کو  80 فیصد بمقابلہ 20 فیصد قرار دیا ہے۔

جب امیت شاہ سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے کہنے کا مطلب ہندو بمقابلہ مسلمان تھا تو انہوں نے کہا،''مجھے ایسا نہیں لگتا۔ ان (یوگی) کا اشارہ شاید ووٹ فیصد کی طرف ہو۔ الیکشن میں صف بندی تو ہے لیکن یہ غریبوں کی صف بندی ہے۔‘‘

مسلمانوں کے ووٹ چاہیے امیدوار نہیں

اترپردیش کی 403 اسمبلی سیٹوں میں سے 107 سیٹوں پر مسلمان اہم رول ادا کرتے ہیں۔36 سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلمان اپنے بل بوتے پر جیت سکتے ہیں۔ بعض حلقوں میں مسلم ووٹروں کی تعداد 45 فیصد ہے،73 حلقوں میں مسلم ووٹروں کی تعداد  20 تا 30 فیصد اور40 حلقوں میں 30 فیصد سے زیادہ۔

سال 2017 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے 57 مسلم اکثریتی حلقوں میں سے 37 میں کامیابی حاصل کی تھی جب کہ مجموعی طورپر 172مسلم امیدواروں میں صرف 24 کامیاب ہوسکے تھے، جو اب تک کی سب سے کم تعداد تھی۔

سیاسی بیداری کے لیے سرگرم تنظیم مسلم پالیٹیکل کاونسل آف انڈیا کے صدرڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی کہتے ہیں کہ تمام نام نہاد سیکولر اور دیگر سیاسی جماعتیں ہی نہیں بلکہ بی جے پی بھی مسلمانوں کا ووٹ تو چاہتی ہے لیکن وہ مسلمانوں کو سیاسی طور پر بااختیار دیکھنا نہیں چاہتیں۔ یہی وجہ ہے کہ اول تو وہ مسلم امیدواروں کوٹکٹ نہیں دیتیں اورجن سیٹوں پر مسلم امیدواروں کی کامیابی یقینی ہے وہاں بھی ایک سے زائد مسلم امیدوار کھڑے کردیتی ہیں، جس سے ووٹ تقسیم ہوجاتاہے اور مسلم امیدوار کامیاب نہیں ہوتے ہیں۔

ووٹوں کی تقسیم کی ایک واضح مثال دیوبند اسمبلی حلقہ ہے۔ 70 فیصد مسلم آبادی والے دیوبند میں مسلم ووٹروں کی تعداد 40 فیصد سے زیادہ ہے اس کے باوجود پچھلے الیکشن میں یہاں سے بی جے پی کے برجیش سنگھ راوت کامیاب ہوئے۔ وہ اس مرتبہ بھی میدان میں ہیں۔

بی جے پی ہی نہیں دیگر سیاسی جماعتیں بھی مسلمانوں کا ووٹ تو چاہتی ہیں ہے لیکن مسلمانوں کو سیاسی طور پر بااختیار دیکھنا نہیں چاہتیںتصویر: Reuters/A. Fadnavis

مسلمانوں سے تفریق نہیں، بی جے پی

یوگی ادیتیہ ناتھ نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ ان کا رشتہ وہی ہے جو مسلمانوں کا ان کے ساتھ ہے۔

یوگی دعوی کرتے ہیں کہ بی جے پی مسلمانوں سے کوئی تفریق نہیں کرتی۔ وہ کہتے ہیں، ''اتر پردیش میں ایک مسلم (ڈپٹی)وزیر ہیں، مرکزی حکومت میں بھی ایک مسلم وزیر ہیں۔اس کے علاوہ اور بھی مسلم چہرے ہیں۔ عارف محمد خان کیرالا کے گورنر کے طورپر خدمات انجام دے رہے ہیں۔‘‘

یوگی کا مزید کہنا تھا،''میں کسی شخص، ذات یا مذہب کا مخالف نہیں ہوں۔ جو بھارت سے پیا رکرتا ہے ہم اس سے پیا رکرتے ہیں۔ جو بھارت کی قدروں اور اصولوں کو چاہتا ہے ہم اسے گلے لگاتے ہیں اور عزت بھی دیتے ہیں۔‘‘

ایسے کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں جو ظاہر کریں کہ مسلمان بی جے پی کو ووٹ دیتے ہیں یا نہیں یا کتنے فیصد مسلمان اسے ووٹ دیتے ہیں۔ تاہم 'اسٹڈیز ان انڈین پالیٹیکس‘  کے عنوان سے سال 2017 اور 2018 کے درمیان ہونے والے انتخابات کے ایک جائزے کے مطابق اترپردیش میں مسلم اکثریتی اور کم آبادی والے دونوں ہی طرح کے حلقوں میں بی جے پی ووٹ اورسیٹ دونوں ہی لحاظ سے دیگر جماعتوں کے مقابلے میں آگے تھی۔

بھارتی مسلمانوں میں خوف اور بے بسی، بہت افسوس ناک بات ہے، منور رانا

09:36

This browser does not support the video element.

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں