بھارت کی پانچ ریاستوں میں ہوئے انتخابات میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کو زبردست دھچکا لگا ہے اور کانگریس پارٹی کی ساکھ بحال ہوتی نظر آتی ہے۔ اس پیش رفت کے ملکی سیاست اور آئندہ سال کے عام انتخابات پر اثرات یقینی ہیں۔
اشتہار
گوکہ ابھی حتمی نتائج سامنے نہیں آئے تاہم ووٹوں کی گنتی میں ابتدائی رجحانات اور اب تک اعلان شدہ نتائج سے یہ بات تقریباً طے ہے کہ کانگریس پارٹی مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں حکومت بنانے جا رہی ہے۔ ان تینوں ریاستوں میں اب تک ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت تھی۔
عام انتخابات سے قبل ’سیمی فائنل‘ سمجھے جانے والے ان علاقائی انتخابات کے نتائج آئندہ سال ہونے والے لوک سبھا کے انتخابات پر بھی زبردست اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔کانگریس پارٹی نے عملاً سیمی فائنل جیت لیا ہے اس لیے فائنل کے لیے اس کی انتخابی مہم مزید جارحانہ ہو سکتی ہے اور وہ اپوزیشن اتحاد کی قیادت کا دعویٰ کرنے میں پوری طرح حق بجانب ہو گی۔ دوسری طرف وزیر اعظم مودی کی حکمران جماعت بی جے پی کی کامیابی کا جو سلسلہ 2014ء میں شروع ہوا تھا، وہ اب رکتا نظر آ رہا ہے اور اس پارٹی کو اب اپنی انتخابی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔
ان انتخابات میں شمال مشرقی ریاست میزورم میں علاقائی جماعت میزو نیشنل پارٹی کو بڑی کامیابی ملی ہے۔ یہاں پہلے کانگریس کی حکومت تھی۔ تاہم بی جے پی کا شمال مشرق کی تمام ساتوں ریاستوں میں اپنی حکومتیں بنانے کا خواب پورا نہیں ہو سکا۔ تلنگانہ میں حکمراں تلنگانہ راشٹریہ سمیتی (ٹی آر ایس) کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ چندر شیکھر راؤ کی قبل از وقت اسمبلی تحلیل کر کے الیکشن کرانے کی حکمت عملی کامیاب رہی ۔ ٹی آر ایس دو تہائی اکثریت حاصل کرتی نظر آرہی ہے۔ اس نے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ساتھ مل کر الیکشن لڑا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان اسمبلی انتخابات کے نتائج اگر متعلقہ حکومتوں کی کارکردگی اور اس کارکردگی کے خلاف کانگریس کی مؤثر انتخابی مہم کی ترجمانی کرتے ہیں، تو یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ کانگریس آئندہ سال بھی عوام کی ’حکومت سے بیزاری‘ کو ہی کیش کرانے پر اپنا سارا زور لگائے گی۔
بھارت میں ماضی کا فیض آباد، آج آیودھیا میں تبدیل
02:20
ایسے میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی اگر کانگریس کی یلغار کا سامنا کرنے کے لیے ایک بار پھر فرقہ وارانہ پلیٹ فارم ہی استعمال کرتی ہے اور نتیجہ ایک بار پھر تبدیلی کے حق میں ہوا، تو قومی سیاسی منظر نامہ یکسر بدل بھی سکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مودی حکومت کرسچین مشیل، وجے مالیہ اور دوسرے ’بھگوڑوں‘ کو واپس لا کر اور بدعنوانی کے دیگر معاملات میں پکڑ دھکڑ کے اقدامات کے ذریعے کس حد تک ووٹروں کو متاثر کر پاتی ہے۔
بی جے پی کو جن صوبوں میں شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے، وہ بنیادی طور پر زرعی ریاستیں کہلاتی ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان ریاستوں میں بی جے پی کی ہزیمت اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ ان ریاستوں کے بدحال کسانوں نے اپنی ناراضگی کا اظہار حکومت کے خلاف ووٹ کی شکل میں کیا ہے اور بی جے پی وعدوں اور نعروں سے ووٹروں کو لبھانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
انتخابی نتائج کا ایک حیرت انگیز پہلو یہ بھی رہا کہ کانگریس نے تلنگانہ میں وسیع تر اتحاد کے ذریعے کامیابی کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن نہ صرف اس بڑے اتحا د کو شکست جھیلنا پڑی بلکہ کانگریس کے ایک سے زیادہ سینئر رہنماؤں کو بھی انتخابات میں شکست ہوئی۔ بی جے پی نے بھی تلنگانہ میں کامیابی کے لیے تمام حربے اپنائے تھے۔ اس نے ہندو مسلم کارڈ بھی کھیلنے کی کوشش کی۔
زہریلا سموگ، نئی دہلی میں پرائمری اسکول بند
بھارتی دارالحکومت ميں سموگ کے سبب آج تمام پرائمری اسکول بند رکھنے کے احکامات جاری کيے گئے ہيں۔ نئی دہلی اس وقت عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ’محفوظ‘ قرار دی جانی والی آلودگی کی سطح سے ستر فيصد زيادہ آلودگی کی زد ميں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain
نئی دہلی کی ہوا میں آلودگی کی شرح میں ’خطرناک حد‘ تک اضافے کے باعث پبلک ہیلتھ کے شعبے میں ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا گیا ہے۔ محمکہ صحت سے وابستہ ماہرین نے شہریوں کو تاکید کی ہے کہ وہ غیر ضروری طور پر گھروں سے باہر نہ نکلیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain
اس دھند میں کاربن مونو آکسائیڈ ، سلفر اور نائٹروجن جیسے زہریلے ذروں کی مقدار بہت زیادہ ہے۔ اس لیے اس دھند کو تکنیکی طور پر ’سموگ‘ کہا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain
بھارتی سینٹرل پولوشن کنٹرول بورڈ کے مطابق یہ صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب ہوا میں نمی کی مقدار میں اضافہ ہو جائے اور چلنے والی ہواؤں کی رفتار انتہائی سست ہو جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Faget
شہر کے ڈاکٹروں نے اسے ’پبلک ہيلتھ ايمرجنسی‘ قرار ديا ہے جبکہ کئی متعلقہ ايجنسيوں نے خبردار کيا ہے کہ آنے والے دنوں ميں صورتحال مزيد بگڑ سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain
بھارتی دارالحکومت ميں پرائمری اسکول کے طلباء کی تعداد لگ بھگ دو ملين ہے۔ علاوہ ازيں شہر بھر کے کُل چھ ہزار اسکولوں ميں باہر کی تمام تر سرگرمياں بھی بند رکھنے کا اعلان کيا گيا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain
انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن نے پیر کے دن ہی مطالبہ کیا تھا کہ فضا میں ضرر رساں ذرات میں اضافے میں کمی کی خاطر فوری طور پر اقدامات اٹھائے جائیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Singh
ڈاکٹروں کی تنظیم انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن نے بتایا نئی دہلی کے باسیوں کو آنکھوں میں جلن اور حلق میں تکلیف کی شکایت کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/S. Khandelwal
گزشتہ برس عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک جائزہ کے مطابق نئی دہلی دنیا کے آلودہ ترین شہروں مں سے ایک ہے۔
تصویر: Reuters/S. Khandelwal
نئی دہلی میں ہر سال بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کی وجہ سے ماسک اور فلٹرز کا کاروبار بھی عروج پکڑ رہا ہے۔ لیکن ہر کوئی ایسے ماسک خریدنے کی سکت نہیں رکھتا۔ غریب عوام زیادہ تر بغیر ماسک یا فلٹر کے ہی گزارا کرتے ہیں۔
تصویر: Imago/Hindustan Times
مختلف ماحولیاتی تنظمیوں کی طرف سے عوام میں سموگ سے بچاو کے لیے آگاہی مہم بھی چلائی گئی ہے۔ نجی سطح پر اسکولوں میں بھی بچوں کو اس حوالے سے معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔
تصویر: Imago/Hindustan Times
جنوبی ایشیا میں ماحولیاتی آلودگی کی یہ شرح ایک ایسے وقت میں زیادہ ہوئی ہے، جب جرمن شہر بون میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس COP 23 کا آغاز ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup
11 تصاویر1 | 11
یو پی کے شعلہ بیان وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ نے تلنگانہ میں انتخابی جلسوں میں کہا تھا کہ اگر ان کی پارٹی جیت گئی، تو حیدر آباد کا نام بدل کر بھاگیہ نگر رکھ دیا جائے گا اور اسدالدین اویسی (مسلم مجلس اتحادالمسلمین کے صدر) کو تلنگانہ چھوڑ کر بھاگنے کے لیے اسی طرح مجبور ہونا پڑے گا، جیسے حیدر آباد کے نظام بھاگے تھے۔
اسمبلی انتخابات کے نتائج اپوزیشن کانگریس میں نئی روح پھونکنے کا کام کریں گے۔ آئندہ عام انتخابات سے پہلے کانگریس پارٹی کے صدر راہول گاندھی کے لیے یہ سب سے بڑی جیت ہے۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ راہول گاندھی کے کانگریس کی کمان سنبھالنے کے ٹھیک ایک سال بعد پارٹی کو یہ کامیابی ملی ہے۔ راہول گاندھی 11دسمبر 2017ء کو پارٹی کے صدر منتخب ہوئے تھے۔
ان نتائج کا اثر ملکی پارلیمان کے آج منگل گیارہ دسمبر کو شروع ہوئے سرمائی اجلاس پر بھی پڑے گا۔ آئندہ لوک سبھا الیکشن سے قبل یہ پارلیمان کا آخری اجلاس ہے اور حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج سے واضح ہو گیا ہے کہ مودی حکومت کو اہم بل منظور کرانے میں کافی دشواری پیش آ سکتی ہے۔ ان میں تین طلاق کا بل بھی شامل ہے، جس میں تین طلاقوں کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ رافیل جنگی طیارہ سودے، سی بی آئی میں جاری چپقلش اور ریزرو بینک کے گورنر کے استعفے جیسے امور پر اپوزیشن پارٹیاں مودی حکومت پر سخت حملے کر سکتی ہیں۔ بھارتی پارلیمان کے ایوان بالا میں بی جے پی کو اکثریت حاصل نہیں ہے۔
انتخابات کے رجحانات اور نتا ئج سامنے آنے کے ساتھ ہی دونوں بڑی جماعتوں بی جے پی اور کانگریس کی اعلیٰ سطحی میٹنگوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔
بھارت کو روسی دفاعی میزائل نظام کی ضرورت کیوں ہے؟
امریکی پابندیوں کی فکر کیے بغیر بھارت روس سے 5.2 ارب ڈالر مالیت کا ایس چار سو ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم خرید رہا ہے۔ آخر بھارت ہر قیمت پر یہ میزائل سسٹم کیوں خریدنا چاہتا ہے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
تعلقات میں مضبوطی
دفاعی میزائل نظام کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد نریندری مودی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ نئی دہلی اور ماسکو کے مابین تعلقات ’مضبوط سے مضبوط تر‘ ہوتے جا رہے ہیں۔ رواں برس دونوں رہنماؤں کے مابین یہ تیسری ملاقات تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/Y. Kadobnov
ایس چار سو دفاعی نظام کیا ہے؟
زمین سے فضا میں مار کرنے والے روسی ساختہ S-400 نظام بلیسٹک میزائلوں کے خلاف شیلڈ کا کام دیتے ہیں۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے اسے دنیا کا زمین سے فضا میں مار کرنے والا لانگ رینج دفاعی نظام بھی تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
بھارت کی دلچسپی
بھارت یہ دفاعی میزائل چین اور اپنے روایتی حریف پاکستان کے خلاف خرید رہا ہے۔ یہ جدید ترین دفاعی میزائل سسٹم انتہائی وسیع رینج تک لڑاکا جنگی طیاروں، حتیٰ کہ اسٹیلتھ بمبار ہوائی جہازوں کو بھی نشانہ بنانے اور انہیں مار گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
کئی مزید معاہدے
بھارت روس سے کریواک فور طرز کی بحری جنگی کشتیاں بھی خریدنا چاہتا ہے۔ اس طرح کا پہلا بحری جنگی جہاز روس سے تیار شدہ حالت میں خریدا جائے گا جب کہ باقی دونوں گوا کی جہاز گاہ میں تیار کیے جائیں گے۔ بھارت کے پاس پہلے بھی اسی طرح کے چھ بحری جہاز موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
امریکی دھمکی
امریکا نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو ممالک بھی روس کے ساتھ دفاع اور انٹیلیجنس کے شعبوں میں تجارت کریں گے، وہ امریکی قانون کے تحت پابندیوں کے زد میں آ سکتے ہیں۔ روس مخالف کاٹسا (CAATSA) نامی اس امریکی قانون پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس اگست میں دستخط کیے تھے۔ یہ قانون امریکی انتخابات اور شام کی خانہ جنگی میں مداخلت کی وجہ سے صدر پوٹن کو سزا دینے کے لیے بنایا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Lamarque
بھارت کے لیے مشکل
سابق سوویت یونین کے دور میں بھارت کا اسّی فیصد اسلحہ روس کا فراہم کردہ ہوتا تھا لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے نئی دہلی حکومت اب مختلف ممالک سے ہتھیار خرید رہی ہے۔ امریکا کا شمار بھی بھارت کو ہتھیار فراہم کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ گزشتہ ایک عشرے کے دوران بھارت امریکا سے تقریباﹰ پندرہ ارب ڈالر مالیت کے دفاعی معاہدے کر چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed
بھارت کے لیے کوئی امریکی رعایت نہیں
گزشتہ ماہ امریکا نے چین پر بھی اس وقت پابندیاں عائد کر دی تھیں، جب بیجنگ حکومت نے روس سے جنگی طیارے اور ایس چار سو طرز کے دفاعی میزائل خریدے تھے۔ امریکی انتظامیہ فی الحال بھارت کو بھی اس حوالے سے کوئی رعایت دینے پر تیار نظر نہیں آتی۔ تاہم نئی دہلی کو امید ہے کہ امریکا دنیا میں اسلحے کے بڑے خریداروں میں سے ایک کے طور پر بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرے گا۔