بھارتی فوج کے سربراہ نے گزشتہ روز دعویٰ کیا تھا کہ بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول پر بھاری فائر کے ذریعے پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں 'دہشت گردی کے کیمپ‘ تباہ کر دیے ہیں۔ پاکستانی فوج نے اس کی تردید کی ہے۔
اشتہار
بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بِپن راوت نے اتوار 20 اکتوبر کو نئی دہلی میں صحافیوں کو بتایا کہ پاکستان کی جانب سے 'بلا اشتعال فائرنگ‘ کے نتیجے میں بھارتی زیر انتظام کشمیر کے علاقے کپواڑہ میں دو بھارتی فوجی اور ایک عام شہری مار ا گیا۔ جنرل راوت کے مطابق ان کے فوجیوں نے بھاری توپخانے سے جوابی کارروائی کرتے ہوئے سرحد پار 'دہشت گردی کے کیمپوں‘ کو نشانہ بنایا۔
بھارتی خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق ملکی فوجی سربراہ نے صحافیوں کے بتایا، ''ہمارے پاس ان کیمپوں کے بارے میں قطعی معلومات اور کورآڈینیٹس موجود ہیں اور ہماری فورسز کی جوابی کارروائی میں ہم نے دہشت گردی کے ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔‘‘
جنرل بپن راوت کا مزید کہنا تھا کہ شیلنگ کے بعد سے بھارتی فورسز نے پاکستانی جانب سے 'کوئی بھی موبائل رابطہ کاری نہیں سنی‘ جس کا مطلب ہے کہ ''وہاں ہلاکتیں اور نقصان ہوا ہے جسے پاکستانی فوج چھپانا چاہتی ہے‘‘۔
بھارتی فوجی سربراہ کا دعویٰ مایوس کن ہے، پاکستانی فوج
پاکستانی فوج نے بھارتی آرمی چیف کے دعوے کو رد کرتے ہوئے اسے 'مایوس کن‘ قرار دیا ہے۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ نے اپنے ایک ٹوئیٹر پیغام میں لکھا، ''بھارتی فوج کے سربراہ کی طرف سے اے جے کے میں تین مبینہ کیمپوں کی تباہی کا دعویٰ مایوس کن ہے کیونکہ ان کے پاس ایک انتہائی ذمہ دارانہ عہدہ ہے۔ ان کو نشانہ بنانے کا دعویٰ تو درکنار وہاں ایسا کوئی کیمپ ہی نہیں ہے۔ پاکستان میں موجود بھارتی ایمبیسی کا خیر مقدم کیا جائے گا اگر وہ کسی غیر ملکی سفارت کار یا میڈیا کے ذریعے زمین پر اپنے اس دعوے کو ثابت کرنا چاہے۔‘‘
ڈی جی آئی ایس پی آر کے ٹوئیٹ میں مزید کہا گیا ہے، ''بھارتی فوجی لیڈر شپ کی طرف سے خاص طور پر پلوامہ حملے کے بعد، کیے جانے والے غلط دعوے علاقائی امن کے لیے نقصان دہ ہیں۔ بھارتی فوج کے ایسے دعوے داخلی فوائد حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ یہ پیشہ ورانہ فوجی اخلاقیات کے خلاف ہے۔‘‘
دو طرفہ فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 10 ہلاکتیں
دوسری طرف کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر پاکستان اور بھارت کے درمیان گولہ باری میں فوجیوں سمیت کم از کم دس لوگوں کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔ بھارتی حکام نے گزشتہ روز بتایا تھا کہ پاکستانی فائرنگ کے نتیجے میں دو فوجیوں سمیت تین افراد مارے گئے تھے۔ دوسری طرف اسلام آباد نے بھارتی فورسز پر بلا اشتعال فائرنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے نتیجے میں چھ عام شہری مارے گئے جبکہ ایک پاکستانی فوجی بھی اس فائرنگ سے مارا گیا۔
تاہم پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ کی طرف سے جاری ٹوئیٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی جوابی کارروائی سے بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بھارتی فوج زخمیوں اور مرنے والوں کو وہاں سے نکالنے کے لیے سفید جھنڈے بلند کر رہی ہے۔
ا ب ا / ع ا (اے ایف پی، پی ٹی آئی)
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔