بی جے پی کے منشور میں آرٹیکل 370 اور 35a کے خاتمے اور کانگریس کے منشور میں ’آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ‘ میں ترمیم کا اعلان کیا گیا ہے۔ بظاہر سیکولرزم اور ہندوتوا کے دوراہے پر نو سو ملین بھارتی ووٹر حواس باختہ کھڑے ہیں۔
اشتہار
کانگریس کی جانب سے ’آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ‘ (افسپا) اور شورش زدہ علاقوں کے خصوصی ایکٹ (1976) میں ترمیم کے انتخابی وعدے کی انسانی حقوق کے کارکنوں اور جمہوریت پسند حلقوں نے پذیرائی کی ہے لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی اور ہندوتوا کا پرچار کرنے والی تنظیموں نے اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کانگریس کے منشور کے مطابق ’افسپا‘ میں ترمیم کی جائے گی تاکہ ’سکیورٹی فورسز کے اختیارات اور شہریوں کے انسانی حقوق کے مابین توازن قائم ہو اور جبری گمشدگیوں، جنسی تشدد اور ماورائے قانون جسمانی تشدد کے حوالے سے سکیورٹی فورسز کو حاصل، قانون سے بالاتر اختیارات کا خاتمہ ہو سکے‘۔
بھارتی وزیر دفاع نرملا سیتھارامن نے ایک پریس کانفرنس میں اس اعلان کو ’قوم دشمنی اور علیحدگی پسندوں سے دوستی‘ کا مظہر قرار دیا۔ بی جے پی کے صدر امیت شاہ کے الفاظ میں، ’’کانگریس دہشت گردوں اور بھارت مخالف قوتوں کو تقویت پہنچا رہی ہے۔‘‘
چھتیس گڑھ کے انتخابی جلسے سے وزیراعظم نریندر مودی نے کہا، ’’کانگریس دہشت گردوں کو چھوٹ دینے کے لیے چناؤ لڑ رہی ہے اور ہم انہیں سزا دینے کے لیے۔ کانگریس نے دہشت گردوں کے خلاف لڑنے والی بہادر فوج کے محافظ قانون کے خاتمے کا اعلان کیا ہے۔‘‘
سن 1954میں بھارتی صدر راجندر پرشاد کے صدارتی فیصلے کے تحت بھارت کے آئین میں آرٹیکل 35a شامل کیا گیا تھا جو بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور کشمیر کے لیڈر شیخ عبدللہ کے مابین مذاکرات کا نتیجہ تھا۔
اس شق کے تحت 1921 میں بنائے گیے قانون کو قائم رکھا گیا تھا کہ ریاست کشمیر میں کوئی غیر کشمیری جائیداد نہیں خرید سکتا، سرکاری نوکری نہیں کر سکتا اور ووٹ نہیں ڈال سکتا۔ اسی طرح مواصلات، دفاع اور خارجہ امور کے سوا تمام معاملات میں کشمیر کی ریاستی اسمبلی کو بااختیار قرار دیا گیا تھا۔ اس موقع پر پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے، پنڈت جواہر لعل نہرو کا کہنا تھا، ’’اتفاق رائے کے مطابق، کشمیر کی اسمبلی کو ریاست کے مستقل شہریوں کے حقوق اور مراعات کی تعریف متعین کرنے کا اختیار ہو گا خصوصا جائیداد کی خرید، سرکاری ملازمتوں کے حصول اور اس نوعیت کے دیگر معاملات کے حوالے سے۔‘‘
’یہ ایک تاریخی غلطی ہو گی‘
ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو کرتے ہوئے برسلز میں کشمیریوں کی تنظیم ’کشمیر کونسل یورپی یونین‘ کے سربراہ علی رضا سید نے بی جے پی کے اعلان کی مذمت کرتے ہوئے کہا،’’اس وقت بھارت نواز سیاسی راہنما بھی اس اعلان کی شدید مخالفت کر رہے ہیں، فاروق عبدللہ نے کہا ہے کہ اس کے خاتمے سے کشمیر کا بھارت سے الحاق ختم ہو جائے گا جب کہ محبوبہ مفتی نے تنبیہ کی ہے کہ بھارت آگ سے مت کھیلے۔‘‘
جموں کے معروف انگریزی روزنامہ، کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر اور انسانی حقوق کی کارکن انورادھا بھسین نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر میں بی جے پی کی حمایت کرنے والے طبقے بھی اس تبدیلی کی مخالفت کریں گے۔ ان کا کہنا تھا، ’’حقیقت یہ ہے کہ یہ پسماندہ پہاڑی علاقہ ہے اور تعلیم کی شرح اچھی نہیں ہے۔ یہاں کھلا مقابلہ مقامی لوگوں کے لیے بہت نقصان دہ ہو گا۔‘‘ انورادھا بھسین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’کانگریس نے افسپا اور اس جیسے دیگر قوانین کے خاتمے کا اعلان کر کے اور ہندتوا کی فورسز کے خلاف معذرت خواہانہ رویہ ترک کر کے بھارت کے جمہوریت پسند اور امن پسند حلقوں کی نمائندگی کی ہے‘۔
اسی حوالے سے ڈی ڈبلیو کے سوال کا جواب دیتے ہوئے، یورپی پارلیمنٹ کے رکن سجاد حیدر کریم کا کہنا تھا، ’’بی جے پی کا یہ اعلان ایک تاریخی غلطی ہے۔ اس سے جنوبی ایشیا میں امن کے امکانات کو ضعف پہنچے گا اور کشمیریوں کے جان و مال کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔‘‘ انہوں نے کانگریس کی جانب سے افسپا میں ترمیم کے وعدہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا، ’’یہ قانون انسانی حقوق کی شدید پامالیوں کا سبب بن رہا ہے۔‘‘
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
10 تصاویر1 | 10
سری نگر میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور ’جموں و کشمیر سول سوسائٹی اتحاد‘ کے سربراہ خرم پرویز نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’بی جے پی1990 سے اپنے تمام انتخابی منشوروں میں آرٹیکل370 کے خاتمے اور کشمیریوں کی جدوجہد کو نیست و نابود کرنے کا وعدہ کر رہی ہے جو ابھی تک محض ایک انتخابی نعرہ ثابت ہوا ہے۔ انہیں علم ہے کہ ایسی کسی کوشش کے نتیجہ میں کشمیری عوام بھارتی حکمرانی کے خلاف نکل کھڑے ہوں گے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ کانگریس نے پہلی مرتبہ افسپا میں ترمیم کا اعلان کیا ہے۔ ’’یہ ایک خوش آئند بات ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ محض ایک انتخابی نعرہ ہے یا ایک سنجیدہ فیصلہ کیوں کہ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران کشمیر کی ابتر صورت حال کی بنیادی ذمہ داری کانگریس ہی پر عائد ہوتی ہے۔‘‘
سیکولرازم یا ہندوتوا: ایک فیصلہ، ایک دوراہا
بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں ایک ’خوشحال، محفوظ، مضبوط اور خود اعتماد‘ بھارت کا وعدہ کیا ہے جو دہشت گردی اور دہشت گردوں سے کسی قسم کی رعایت نہیں کرے گا اور انہیں ان کے ’گھر میں گھس کر‘ قرار واقعی سزا دے گا۔
بی جے پی، عام خیال کے مطابق، پلوامہ واقعہ کے بعد پیدا ہونے والی قوم پرستی کی لہر کو اپنی انتخابی حکمت عملی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے قوم سازی کے ایک ایسے تصور کا پرچار کر رہی ہے جو، بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک سیکولر بھارت کے لیے سزائے موت کا اعلان ہو گا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے منشور میں ملکی فوج کو ’فری ہینڈ‘ دینے کے فیصلے کا اعادہ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ’دور رس مقاصد کے حصول کے لیے بھارت کو اندرونی اور بیرونی جارحیت سے محفوظ بنانا ضروری ہے۔‘ علاوہ ازیں بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں ایک مرتبہ پھر رام مندر کی تعمیر کا وعدہ بھی کیا ہے۔
دوسری جانب کانگریس کے منشور میں افسپا اور غداری ایکٹ میں ترمیم کے ساتھ ساتھ نیشنل سیکیورٹی ایکٹ، پبلک سیکیورٹی ایکٹ اور غنڈہ ایکٹ سمیت اس نوعیت کے کئی قوانین میں ترامیم کا اعلان کیا ہے۔ علاوہ ازیں بلدیاتی، صوبائی اور قومی سطح پر خواتین کی تینتیس فیصد نمائندگی، معلومات کے حصول کا حق، صحافیوں کے تحفظ کے خصوصی قوانین، بپھرے ہجوم کے ہاتھوں بے گناہوں کے قتل عام کے خلاف قانون سازی اور مذہبی منافرت پر مبنی جرائم کے خلاف پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس میں قانون سازی کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔
منشور کے پیش لفظ میں راہل گاندھی نے لکھا ہے، ’’سوال یہ ہے کہ کیا بھارت شہری آزادیوں کا حامل ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہو گا یا بھارت پر ایک ایسے خطرناک نظریے کی حکمرانی ہو گی جو لوگوں کے حقوق، ملکی اداروں، مثبت سماجی قدروں اور اس صحت مند اختلاف رائے کو پامال کردے گا جو ہمارے ثقافتی اور مذہبی تنوع کا خاصہ ہے۔‘‘
’’بھارت کشمیر پر اپنا اخلاقی جواز کھو بیٹھا ہے‘‘
اسلام آباد میں ہونے والے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس کا مقصد پاکستان کی جانب سے دنیا کو لائن آف کنٹرول پر جنگی کیفیت اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیری مظاہرین پر تشدد کے بارے میں آگاہ کرنا بتایا گیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس
وزیر اعظم، سینیئر سیاسی قائدین اور اپوزیشن کے اراکین اجلاس میں شریک ہوئے۔ پاکستان کے سکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے اجلاس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور لائن آف کنٹرول کی صورت حال پر سیاست دانوں کو بریفنگ دی۔ اجلاس میں شریک سیاسی قائدین نے مسئلہ کشمیرپرحکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
نان اسٹیٹ ایکٹرز کو برداشت نہیں کریں گے
پارلیمانی اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو بھی شریک ہوئے۔ اجلاس کے اختتام پر میڈیا سے گفتگو میں بلاول بھٹو نے کہا،’’ بھارت کشمیر پر اخلاقی جواز کھو چکا ہے، کشمیر کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں کا موقف ایک ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا،’’ دنیا کو بتانا ہے کہ ہم نان اسٹیٹ ایکٹرز کو برداشت نہیں کریں گے۔‘‘
تصویر: DW/R. Saeed
سیاسی رہنماؤں کی تجاویز کی روشنی حکمت عملی طے کی جائے گی
مولانا فضل الرحمان نے اس موقع پر کہا،’’ مشکل وقت میں قومی اتحاد وقت کا تقاضہ ہے۔‘‘ وزیر اعظم نواز شریف نے اجلاس میں تمام سیاسی رہنماؤں کی رائے کو سنا۔ نواز شریف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کی تجاویز کی روشنی حکمت عملی طے کی جائے گی۔
تصویر: DW/R. Saeed
’کشمیر پر بھارت کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں‘
اس اجلاس کے اعلامیہ میں لکھا گیا ہے،’’بھارت سرحد پار دہشت گردی کا معاملہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے اٹھا رہا ہے، کشمیر پر بھارت کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔‘‘ اعلامیہ میں لکھا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے آپس میں بات چیت کرنے کے مواقعوں کو ضائع کرنے کے عمل کی مذمت کرتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
کشمیر ایک متنازعہ علاقہ
اعلامیہ میں لکھا گیا ہے کہ بھارت نے خود اقوام متحدہ میں تسلیم کر رکھا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ بھارت بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے اور کلبھوشن یادو جیسے ’را‘ کے ایجنٹ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرر ہے ہیں۔ اعلامیہ میں بھارت کے پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے کو بھی مسترد کیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
لائن آف کنٹرول پر کشیدگی جاری
پاکستانی فوج کے شعبہء تعلقات عامہ کی جانب سے آج صبح ایک بیان جاری کیا گیا جس کے مطابق بھارتی فوج کی جانب سے نیزہ پیر سیکٹر پر’’بلا اشتعال فائرنگ‘‘ کی گئی۔ اس سے قبل پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ لائن آف کنٹرول کے قریب افتخار آباد سیکٹر میں بھارت کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔ ان واقعات کے بعد آئی ایس پی آر کے ایک اور بیان میں کہا گیا کہ کیلار سیکٹر میں بھی بھارت کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کا ایک اہل کار ہلاک
پاکستان اور بھارت کی افواج کے مابین فائرنگ کا سلسلہ اس واقعے کے چند گھنٹے بعد ہی پیش آیا ہے جس میں عسکریت پسندوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے بارہ مولا سیکٹر میں بھارتی فوج کے ایک کیمپ پر حملہ کر دیا تھا۔ اس حملے میں بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کا ایک اہل کار ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا ہے۔
تصویر: REUTERS/M. Gupta
‘اڑی حملے میں پاکستان ملوث ہے‘
واضح رہے کہ 18 ستمبر کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اڑی سیکٹر پر عسکریت پسندوں کی جانب سے ہونے والے حملے میں 19 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ بھارت نے الزام عائد کیا تھا کہ حملہ آور پاکستان سے سرحد پار کرکے بھارت داخل ہوئے تھے۔ پاکستان نے ان الزامات کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Mughal
’سرجیکل اسٹرائیک‘
دونوں ممالک میں کشیدگی مزید اس وقت بڑھی جب چند روز قبل بھارتی افواج کی فائرنگ سے پاکستان کی فوج کے دو سپاہی ہلاک ہو گئے۔ بھارت نے دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ایک ’سرجیکل اسٹرائیک‘ کی۔ پاکستان نے بھارت کا یہ دعویٰ مسترد کر دیا ہے۔