1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی انتخابات: مخلوط حکومت کا دور پھر سے واپس

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
5 جون 2024

بھارت کے 71 سالہ انتخابی سفر میں 32 برسوں تک مخلوط حکومتیں دیکھی گئی ہیں اور دس برس کے بعد مخلوط حکومت کا دور پھر سے واپس آ گیا ہے۔ لیکن ایسی حکومت میں وزارتوں کی تقسیم اور پالیسیوں کے حوالے سے کافی پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔

نریندر مودی
نریندر مودی کے لیے یہ پہلا موقع ہو گا، جب گجرات کے وزیر اعلی ہونے سے لے کر وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے تک، مخلوط حکومت کی قیادت کرنی ہو گی، جو آسان کام نہیں ہوتا ہےتصویر: RAJAT GUPTA/EPA

بھارت میں حکومت سازی کے لیے کسی بھی جماعت یا اتحاد کو لوک سبھا کی کم از کم 272 نشستیں حاصل کرنا ضروری ہے لیکن اس بار مودی کی قیادت والی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) صرف 240 نشستیں ہی حاصل کر پائی ہے۔ اس لیے اسے حکومت سازی کے لیے اب اپنی حلیف جماعتوں کے تعاون پر انحصار کرنا پڑے گا۔

بھارت: قومی انتخابات اختتام پذیر، مودی کے لیے فیصلہ کن مرحلہ

بی جے پی نے انتخابات میں اتحاد کے لیے تین درجن سے زیادہ جماعتوں کو اپنے ساتھ جمع کیا تھا، تاہم مخلوط حکومت کے لیے اسے چندرا بابو نائیڈو کی علاقائی جماعت تیلگو دیشم پارٹی اور نتیش کمار کی جماعت جنتا دل یونائیٹیڈ کی حمایت درکار ہو گی۔ ان دونوں نے بالترتیب 16 اور 12 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے اور مرکز میں حکومت سازی کے لیے ان کی حمایت اہم ہے۔

بھارت: کانگریس نریندر مودی کے مراقبے کی مخالف کیوں ہے؟

 اس کے علاوہ دیگر حلیف جماعتیں، جیسے چراغ پاسوان کی جن شکتی اور پنجاب میں اکالی دل بہت چھوٹی جماعتیں ہیں، جنہوں نے صرف چار پانچ سیٹیں حاصل کی ہیں۔

بھارتی انتخابات کا آخری سے قبل کا مرحلہ، سخت گرمی میں ووٹنگ

بی جے پی کے تمام اتحادی رہنما انتخابی نتائج کے دوسرے دن بدھ کے روز دہلی پہنچے ہیں اور حکومت سازی کے سلسلے میں بے جے پی کے رہنماؤں سے ملاقات کر رہے ہیں۔ امکان ہے کہ اس میٹنگ میں وزارتوں کی تقسیم اور کابینہ کے عہدوں کے حوالے سے بات چیت پر توجہ دی جائے گی۔

بھارتی انتخابات میں بی جے پی کی سبقت

01:41

This browser does not support the video element.

پاکستانی لیڈر کی راہول اور کیجریوال کی حمایت سنگین معاملہ ہے، مودی

دوسری جانب کانگریس کی قیادت والے اتحاد 'انڈیا' کے اتحاد میں شامل بھی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما دہلی میں صلاح و مشورہ کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق انڈیا اتحاد کی بھی کوشش ہے کہ وہ حکومت سازی کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے اور اگر ممکن ہو تو وہ بھی اس سمت میں پہل کرے۔

کیا پاکستان مخالف بیان بازی بھارت کے انتخابات کو متاثر کرے گی؟

بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کی سیاسی تاریخ کے مدنظر فی الحال کوئی حتمی نتیجہ نکالنا درست نہیں ہو گا، کیونکہ بی جے پی جن دو بڑی حلیف جماعتوں پر انحصار کر رہی ہے وہ ماضی میں اپوزیشن کانگریس کے ساتھ اتحاد کر چکی ہیں۔

بھارتی انتخابات: پانچویں مرحلے میں انچاس سیٹوں کے لیے پولنگ

تاہم اب یہ بات تقریباً واضح ہو چکی ہے کہ مودی تیسری بار وزیر اعظم بننے کے لیے تیار ہیں اور ان کی حلیف جماعتیں ان کی حمایت کے لیے بھی تیار ہیں۔ خبروں کے مطابق وہ آٹھ جون کے روز وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔

مخلوط حکومت کا نیا دور

بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اپنی مخلوط حکومت کے دور میں ''مخلوط دھرم'' کی ایک اصطلاح ایجاد کی تھی اور اب ان کے سیاسی وارث نریندر مودی کو تیسری بار حکومت بنانے پر اسی مخلوط دھرم کے اصول پر عمل کرنا ہو گا۔

سن 2014 سے قبل تک بھارتی عوام تقریبا ًتین دہائیوں تک ایک جماعت کی اکثریت کے بجائے بکھرا ہوا مینڈیٹ فراہم کرتی رہی تھی، جس کی وجہ سے مخلوط حکومت ایک معمول کی روایت رہی۔

سن 80، 90 اور رواں صدی کی پہلی دہائی میں کسی بھی پارٹی کو لوک سبھا میں اکثریت نہیں ملی۔ تاہم سن 2014 میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کو واضح اکثریت ملی اور نریندر مودی نے مخلوط حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے دہلی کے تخت پر براجمان ہوئے۔

دو ہزار انیس میں بھی بی جے پی کو 303 سیٹیں حاصل ہوئیں اور حکومت سازی کے لیے بی جے پی کو اپنے اتحادیوں کا محتاج ہونا نہیں پڑا۔ نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) مودی حکومت کا حصہ رہی تاہم بی جے پی کو اس دوران اپنے شراکت داروں کو مطمئن کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔

بھارت میں سن 1951 میں ہونے والے پہلے انتخابات کے بعد سے 73 برس کے انتخابی دور میں تقریباً 32 سالوں میں مخلوط حکومت رہی ہے اور اقتدار کے 31 سالوں میں واضح اکثریت والی حکومتیں رہی ہیں۔ اس میں وزیر اعظم نریندر مودی کے بھی 10 برس بھی شامل ہیں۔

 بی جے پی گو کہ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے، لیکن وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر 272 کا جادوئی نمبر عبور کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مرکز میں حکومت چلانے کے لیے اسے این ڈی اے میں شامل علاقائی جماعتوں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔

نریندر مودی کے لیے یہ پہلا موقع ہو گا، جب گجرات کے وزیر اعلی ہونے سے لے کر وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے تک، مخلوط حکومت کی قیادت کرنی ہو گی۔ تاہم مخلوط حکومت چلانا ایک مشکل کام ہے، جس میں توازن کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

اٹل بہاری واجپائی مخلوط حکومت چلانے کے مثالی رہنما سمجھے جاتے ہیں، جنہوں نے شعلہ بیان سیاست دان ممتا بنرجی کو اچھی طرح سے سنبھالنے کا کام کیا تھا۔ لیکن اس کے بعد کانگریس پارٹی نے بھی سن 2004 سے 2009 تک اور پھر 2009 سے 2014 تک وزیر اعظم منموہن سنگھ کی قیادت والی یوپی اے کی مخلوط حکومتیں اچھے انداز سے چلائیں۔

’زخم دہلی نے دیے ہیں اور مرہم بھی وہیں سے آئے گا‘

07:19

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں