بھارت میں ہونے والے عام انتخابات کے چوتھے مرحلے میں کشمیر کے مختلف علاقوں میں ووٹنگ کا تناسب قدرے کم رہا۔ ماہرین کے خیال میں یہ رجحان سیاسی عمل پر عوام کے بھروسے کے فقدان کا عکاس ہے۔
اشتہار
بھارتی کشمیر میں علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے انتخابی عمل کے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق کلگام۔اننتناگ کے حقلے میں ایک بھی ووٹ کاسٹ نہیں ہوا ۔ کچھ عرصہ قبل کشمیر کے علاقائی انتخابات میں بھی یہی رجحان دیکھا گیا تھا۔
علیحدگی پسند تنظیموں کا موقف ہے کہ نئی دہلی حکومت کشمیریوں کے خلاف فوجی طاقت استعمال کر رہی ہے اور اسی وجہ سے انتخابات کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔
چھبیس سالہ عصمہ فردوس کا تعلق سری نگر سے ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے اپنا ووٹ نہیں ڈالا،’’ ہم خود کو بھارتی شہری تصور نہیں کرتے اور نہ ہی بھارتی ہمیں اپنا مانتے ہیں۔ تو پھر میں ووٹ کیوں دوں؟‘‘
ماہرین کے مطابق 2014ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے کشمیریوں کی مایوسی میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی ملکی آئین کے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے میں بھی تبدیلی چاہتے ہیں۔
بھارتی آئین کی دفعہ 35A کشمیریوں کو خصوصی مراعات دیتی ہے۔ یہ دفعہ جموں وکشمیر کے باہر کے افراد کے ریاست میں غیر منقولہ جائیدادیں خریدنے پر پابندی لگاتی ہے۔ یہ ان خواتین کو جائیداد میں حق سے بھی محروم کرتی ہے جنہوں نے ریاست کے باہر کے کسی شخص سے شادی کی ہو۔ اس کے علاوہ مذکورہ دفعہ کے سبب ریاست کے باہر کے لوگوں کو نہ تو حکومتی ملازمتیں مل سکتی ہیں اورنہ ہی انہیں حکومتی اسکیموں کا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔
زیادہ تر کشمیریوں کا کہنا ہے کہ بے جی پی کی حکومت کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرتے ہوئے اسے ہندوؤں کے حق میں کرنا چاہتی ہے۔ جموں و کشمیر کے علاقے کی آبادی تقریباً بارہ ملین ہے اور ان میں سے لگ بھگ ستر فیصد مسلمان ہیں۔
سری نگر میں سیاسی امور کے ماہر شیخ شوکت حسین کا ماننا ہے کہ کشمیر میں ووٹنگ کا تناسب کم ہونا نئی دہلی حکام اور وزیراعظم نریندر مودی کے لیے واضح پیغام ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے باتین کرتے ہوئے کہا،’’ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کشمیر میں غیریت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ لوگ انتخابی عمل سے دور ہو گئے ہیں۔‘‘
’’بھارت کشمیر پر اپنا اخلاقی جواز کھو بیٹھا ہے‘‘
اسلام آباد میں ہونے والے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس کا مقصد پاکستان کی جانب سے دنیا کو لائن آف کنٹرول پر جنگی کیفیت اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیری مظاہرین پر تشدد کے بارے میں آگاہ کرنا بتایا گیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس
وزیر اعظم، سینیئر سیاسی قائدین اور اپوزیشن کے اراکین اجلاس میں شریک ہوئے۔ پاکستان کے سکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے اجلاس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور لائن آف کنٹرول کی صورت حال پر سیاست دانوں کو بریفنگ دی۔ اجلاس میں شریک سیاسی قائدین نے مسئلہ کشمیرپرحکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
نان اسٹیٹ ایکٹرز کو برداشت نہیں کریں گے
پارلیمانی اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو بھی شریک ہوئے۔ اجلاس کے اختتام پر میڈیا سے گفتگو میں بلاول بھٹو نے کہا،’’ بھارت کشمیر پر اخلاقی جواز کھو چکا ہے، کشمیر کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں کا موقف ایک ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا،’’ دنیا کو بتانا ہے کہ ہم نان اسٹیٹ ایکٹرز کو برداشت نہیں کریں گے۔‘‘
تصویر: DW/R. Saeed
سیاسی رہنماؤں کی تجاویز کی روشنی حکمت عملی طے کی جائے گی
مولانا فضل الرحمان نے اس موقع پر کہا،’’ مشکل وقت میں قومی اتحاد وقت کا تقاضہ ہے۔‘‘ وزیر اعظم نواز شریف نے اجلاس میں تمام سیاسی رہنماؤں کی رائے کو سنا۔ نواز شریف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کی تجاویز کی روشنی حکمت عملی طے کی جائے گی۔
تصویر: DW/R. Saeed
’کشمیر پر بھارت کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں‘
اس اجلاس کے اعلامیہ میں لکھا گیا ہے،’’بھارت سرحد پار دہشت گردی کا معاملہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے اٹھا رہا ہے، کشمیر پر بھارت کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔‘‘ اعلامیہ میں لکھا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے آپس میں بات چیت کرنے کے مواقعوں کو ضائع کرنے کے عمل کی مذمت کرتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
کشمیر ایک متنازعہ علاقہ
اعلامیہ میں لکھا گیا ہے کہ بھارت نے خود اقوام متحدہ میں تسلیم کر رکھا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ بھارت بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے اور کلبھوشن یادو جیسے ’را‘ کے ایجنٹ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرر ہے ہیں۔ اعلامیہ میں بھارت کے پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے کو بھی مسترد کیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
لائن آف کنٹرول پر کشیدگی جاری
پاکستانی فوج کے شعبہء تعلقات عامہ کی جانب سے آج صبح ایک بیان جاری کیا گیا جس کے مطابق بھارتی فوج کی جانب سے نیزہ پیر سیکٹر پر’’بلا اشتعال فائرنگ‘‘ کی گئی۔ اس سے قبل پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ لائن آف کنٹرول کے قریب افتخار آباد سیکٹر میں بھارت کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔ ان واقعات کے بعد آئی ایس پی آر کے ایک اور بیان میں کہا گیا کہ کیلار سیکٹر میں بھی بھارت کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کا ایک اہل کار ہلاک
پاکستان اور بھارت کی افواج کے مابین فائرنگ کا سلسلہ اس واقعے کے چند گھنٹے بعد ہی پیش آیا ہے جس میں عسکریت پسندوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے بارہ مولا سیکٹر میں بھارتی فوج کے ایک کیمپ پر حملہ کر دیا تھا۔ اس حملے میں بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کا ایک اہل کار ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا ہے۔
تصویر: REUTERS/M. Gupta
‘اڑی حملے میں پاکستان ملوث ہے‘
واضح رہے کہ 18 ستمبر کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اڑی سیکٹر پر عسکریت پسندوں کی جانب سے ہونے والے حملے میں 19 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ بھارت نے الزام عائد کیا تھا کہ حملہ آور پاکستان سے سرحد پار کرکے بھارت داخل ہوئے تھے۔ پاکستان نے ان الزامات کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Mughal
’سرجیکل اسٹرائیک‘
دونوں ممالک میں کشیدگی مزید اس وقت بڑھی جب چند روز قبل بھارتی افواج کی فائرنگ سے پاکستان کی فوج کے دو سپاہی ہلاک ہو گئے۔ بھارت نے دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ایک ’سرجیکل اسٹرائیک‘ کی۔ پاکستان نے بھارت کا یہ دعویٰ مسترد کر دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Channi Anand
9 تصاویر1 | 9
ماہرین کے مطابق کئی دہائیوں سے جاری بھارت مخالف یہ تحریک اب مسلم شدت پسندی کی جانب بڑھ رہی ہے کیونکہ جہادی تنظیمں اسی غیریت اور رو گردانی کو اپنے حق میں استعمال کر رہی ہیں۔ پولینڈ کے شہر کراکو سے تعلق رکھنے والی کشمیری امور کی ماہر اگنیئشیکا کوزفسکا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ 1980ء کے دہائی کی افغان جنگ کی وجہ سے خطے میں اسلامی شدت پسندی میں اضافہ ہوا اور اس کا اثر کشمیر تنازعے پر بھی پڑا۔ بھارت مخالف اس تحریک میں 1990ء کی دہائی میں اس وقت اسلامی شدت پسندی بڑھی جب پاکستان سے تربیت یافتہ شدت پسند اس میں شامل ہوئے۔‘‘
’پاکستان اور بھارت کشمیر تک اقوام متحدہ کو رسائی دیں‘