بھارت میں انتخابی مہم کے دوران عوامی مسائل کے بجائے اب بہت زیادہ زور ’چوکیدار‘ پر ہے۔ اپوزیشن ’چوکیدار چور ہے‘ کا نعرہ لگا رہی ہے اور وزیر اعظم مودی جواباﹰ ہر ایک سے ’میں بھی چوکیدار بنوں گا ‘ کی اپیل کر رہے ہیں۔
اشتہار
بھارت میں آئندہ پارلیمانی انتخابات کے پیش منظر میں ’چوکیدار‘ کا یہ انتخابی نعرہ لگا کر اقتدار حاصل کرنے کی خواہش مند سیاسی جماعتیں اپنی اپنی انتخابی مہم تو جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن ان میں سے کسی بھی پارٹی کی توجہ اصل چوکیداروں کے حالت زار پر نہیں ہے۔
’چوکیدار ہونا ایک جذبہ ہے‘
وزیر اعظم نریندر مودی نے دعوی کیا ہے کہ ’چوکیدار نہ تو کوئی سسٹم ہے، نہ ہی یونیفارم میں ملبوس کوئی مخصوص شناخت کا حامل کوئی فرد بلکہ چوکیدار ہونا تو محض ایک جذبہ ہے، ایک عمل ہے اور میں ایک چوکیدار کے طور پر اپنی ذمہ داری نبھاؤں گا۔‘‘ وزیر اعظم مودی کا مزید کہنا تھا، ’’میں بھی چوکیدار کی سوچ دراصل مہاتما گاندھی کے ٹرسٹی شپ کے اصول پر مبنی ہے۔ پڑھے لکھے، ان پڑھ، کسانوں، مزدوروں اور ملازمت پیشہ افراد سے لے کر اس ملک کے ہر شہری تک، ہر آدمی چوکیدار ہے اور اب جب ہر شخص چوکیدار ہے، تو پھر چور کہاں بچیں گے۔ عوام چوکیدار کو پسند کرتے ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ چوکیدار کا جذبہ مسلسل پھیل رہا ہے۔‘‘
’چوکیدار چور ہے‘
دراصل ’چوکیدار‘ کا معاملہ رافیل جنگی طیاروں کی خریداری میں ہوئی مبینہ بدعنوانی کے الزام سے شروع ہوا تھا۔ کانگریس پارٹی کے صدر راہول گاندھی نے رافیل طیاروں کی خریداری میں مبینہ گھپلوں کی تفصیلات جب عوام کے سامنے رکھنا شرو ع کیں، تو انہوں نے کچھ ایسے ٹھوس شواہد کے ساتھ یہ الزامات لگائے، کہ عوام کو یقین ہونے لگا کہ رافیل طیاروں کی خریداری میں کہیں نہ کہیں دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ اس الزام کے توڑ کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے عوامی جلسوں میں کہنا شروع کیا کہ وہ ملک کے ’چوکیدار‘ ہیں اور ملک کو کانگریس کے ہاتھوں برباد نہیں ہونے دیں گے۔
دوسری طرف راہول گاندھی نے جوابی حملہ کرتے ہوئے اپنے جلسوں میں عوام سے پوچھنا شروع کیا، ’’اگر چوکیدار ہی چور ہو، تو ملک کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟‘‘ اس کے ساتھ ہی ملک بھر میں ’چوکیدار چور ہے‘ کا نعرہ بھی پھیلنا شروع ہو گیا۔ نعرے بازی کی اس مہم سے وزیر اعظم مودی کے امیج کو نقصان پہنچا۔ لوگوں میں یہ پیغام گیا کہ وزیر اعظم مودی خود تو ایماندار ہو سکتے ہیں لیکن ان کے بعض سرمایہ کار دوستوں نے ملک کی دولت ضرور لوٹی ہے۔ ایسے میں جب ہزاروں کروڑ روپے کے گھپلے کے ملزمان وجے مالیا، نیرو مودی اور میہول چوکسی جیسے بڑے تاجر ملک سے فرار ہو گئے، تو عوام کا شبہ یقین میں بدلنے لگ گیا تھا۔
بھارت کے سیاسی افق کا نیا ستارہ، پریانکا گاندھی
پریانکا گاندھی واڈرا بھارت کے ایک ایسے سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، جس کے تین افراد ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ انہوں نے اب باضابطہ طور پر عملی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R.K. Singh
جواہر لال نہرو
برصغیر پاک و ہند کی تحریک آزادی کے بڑے رہنماؤں میں شمار ہونے والے جواہر لال نہرو پریانکا گاندھی کے پڑدادا تھے۔ وہ آزادی کے بعد بھارت کے پہلے وزیراعظم بنے اور ستائیس مئی سن 1964 میں رحلت تک وزیراعظم رہے تھے۔ اندرا گاندھی اُن کی بیٹی تھیں، جو بعد میں وزیراعظم بنیں۔
تصویر: Getty Images
اندرا گاندھی
پریانکا گاندھی کی دادی اندرا گاندھی اپنے ملک کی تیسری وزیراعظم تھیں۔ وہ دو مختلف ادوار میں بھارت کی پندرہ برس تک وزیراعظم رہیں۔ انہیں اکتیس اکتوبر سن 1984 میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اُن کے بیٹے راجیو گاندھی بعد میں منصبِ وزیراعظم پر بیٹھے۔ راجیو گاندھی کی بیٹی پریانکا ہیں، جن کی شکل اپنی دادی اندرا گاندھی سے ملتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/united archives
راجیو گاندھی
بھارت کے چھٹے وزیراعظم راجیو گاندھی سیاست میں نو وارد پریانکا گاندھی واڈرا کے والد تھے۔ وہ اکتیس اکتوبر سن 1984 سے دو دسمبر سن 1989 تک وزیراعظم رہے۔ اُن کو سن 1991 میں ایک جلسے کے دوران سری لنکن تامل ٹائیگرز کی خاتون خودکش بمبار نے ایک حملے میں قتل کر دیا تھا۔ اُن کے قتل کی وجہ سن 1987 میں بھارت اور سری لنکا کے درمیان ہونے والا ایک سمجھوتا تھا، جس پر تامل ٹائیگرز نے ناراضی کا اظہار کیا تھا۔
تصویر: Imago/Sven Simon
سونیا گاندھی
پریانکا گاندھی واڈرا کی والدہ سونیا گاندھی بھی عملی سیاست میں رہی ہیں۔ وہ انیس برس تک انڈین کانگریس کی سربراہ رہی تھیں۔ اطالوی نژاد سونیا گاندھی بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں لوک سبھا کی رکن رہتے ہوئے اپوزیشن لیڈر بھی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/R. Shukla
راہول گاندھی
بھارتی سیاسی جماعت انڈین کانگریس کے موجودہ سربراہ راہول گاندھی ہیں، جو پریانکا گاندھی واڈرا کے بڑے بھائی ہیں۔ انہوں نے سولہ دسمبر سن 2017 سے انڈین کانگریس کی سربراہی سنبھال رکھی ہے۔ وہ چھ برس تک اسی پارٹی کے جنرل سیکریٹری بھی رہے تھے۔ راہول گاندھی بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان لوک سبھا کے رکن بھی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. White
پریانکا گاندھی واڈرا
راجیو گاندھی کی بیٹی پریانکا بارہ جنوری سن 1972 کو پیدا ہوئی تھیں۔ وہ شادی شدہ ہیں اور دو بچوں کی ماں بھی ہیں۔ انہوں نے سینتالیس برس کی عمر میں عملی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ وہ بھارتی سیاسی جماعت کانگریس کی عملی سیاست کا فروری سن 2019 میں حصہ بن جائیں گی۔
تصویر: Reuters/P. Kumar
سیاسی مہمات میں شمولیت
مختلف پارلیمانی انتخابات میں پریانکا گاندھی واڈرا نے رائے بریلی اور امیتھی کے حلقوں میں اپنے بھائی اور والد کی انتخابی مہمات میں باضابطہ شرکت کی۔ عام لوگوں نے دادی کی مشابہت کی بنیاد پر اُن کی خاص پذیرائی کی۔ گزشتہ کئی برسوں سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ عملی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کر سکتی ہیں اور بالآخر انہوں نے ایسا کر دیا۔
تصویر: DW/S. Waheed
عملی سیاست
پریانکا گاندھی واڈرا نے بدھ تیئس جنوری کو انڈین کانگریس کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔ کانگریس پارٹی کی جانب سے برسوں انہیں عملی سیاست میں حصہ لینے کی مسلسل پیشکش کی جاتی رہی۔ امید کی جا رہی ہے کہ وہ مئی سن 2019 کے انتخابات میں حصہ لے سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
کانگریس پارٹی کی جنرل سیکریٹری
انڈین نیشنل کانگریس پارٹی کی پریس ریلیز کے مطابق پریانکا گاندھی کو پارٹی کی دو نئی جنرل سیکریٹریز میں سے ایک مقرر کیا گیا ہے۔ اس پوزیشن پر انہیں مقرر کرنے کا فیصلہ پارٹی کے سربراہ اور اُن کے بھائی راہول گاندھی نے کیا۔ وہ اپنا یہ منصب اگلے چند روز میں سبھال لیں گی۔
بی جے پی کی تنقید
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے پریانکا گاندھی کو کانگریس پارٹی کی جنرل سیکریٹری مقرر کرنے پر تنقید کرتے ہوئے اسے خاندانی سیاست کا تسلسل قرار دیا۔
تصویر: DW/S. Wahhed
10 تصاویر1 | 10
’میں بھی چوکیدار‘
وزیر اعظم مودی نے ایسے میں ایک پینترہ بدلا۔ انہوں نے ٹوئٹر پر اپنے پیغامات میں خود کو ’چوکیدار نریندر مودی‘ لکھنا شروع کر دیا اور اپنی کابینہ اور پارٹی کے سینئر رہنماؤں، نیز بھارتیہ جنتا پارٹی کے صوبائی وزرائے اعلیٰ سے بھی اپنے نام سے پہلے’چوکیدار‘ لکھنے کی اپیل کر دی۔ یہ معاملہ یہیں پر نہ رکا بلکہ وزیر اعظم مودی نے عوامی جلسوں میں ’ہم سب چوکیدار ہیں‘ کے نعرے بھی لگوانا شروع کر دیے۔ آج حال یہ ہے کہ بی جے پی کے بیشتر رہنما اور کارکنان اپنے نام سے پہلے ’چوکیدار‘ لکھ رہے ہیں۔
’مودی سب کو چوکیدار کیوں بنا رہے ہیں؟‘
کانگریس کے ترجمان اور سابق رکن پارلیمان ایم افضل نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’وزیر اعظم مودی کا اب چل چلاؤ ہے۔ لیکن وہ ملکی عوام کو چوکیدار بنا رہے ہیں۔ آخر مودی عوام کو چوکیدار کیوں بنانا چاہتے ہیں؟ نوجوان روزگار کے بارے میں پوچھ رہے ہیں، کسان قرضوں کی معافی کے بارے میں سوال کر رہے ہیں، ملکی عوام پریشان ہیں لیکن مودی سب کو چوکیدار بنا رہے ہیں۔‘‘ ایم افضل کا مزید کہنا تھا، ’’اگر حکومت بے شرم ہو جائے تو کیا کیا جا سکتا ہے؟ رافیل طیاورں کی سودے بازی میں جو چوری ہوئی، اس کا جواب کون دے گا؟‘‘
دنیا کے کرپٹ ترین ممالک
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ’کرپشن پرسپشن انڈیکس 2017‘ میں دنیا کے ایک سو اسی ممالک کی کرپشن کے حوالے سے درجہ بندی کی گئی ہے۔ کرپٹ ترین ممالک پر ایک نظر
تصویر: picture-alliance/U.Baumgarten
1۔ صومالیہ
افریقی ملک صومالیہ 9 پوائنٹس حاصل کر کے 180ویں نمبر پر ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق سن 2016 میں صومالیہ کے دس پوائنٹس تھے جب کہ اس سے گزشتہ تین برسوں کے دوران بھی یہ ملک آٹھ کے اسکور کے ساتھ کرپٹ ترین ملک رہا تھا۔
2۔ جنوبی سوڈان
افریقی ملک جنوبی سوڈان بارہ کے اسکور کے ساتھ 179ویں نمبر پر رہا۔ سن 2014 اور 2015 میں جنوبی سوڈان کو پندرہ پوائنٹس دیے گئے تھے تاہم گزشتہ دو برسوں کے دوران اس افریقی ملک میں بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Negeri
3۔ شام
سب سے بدعنوان سمجھے جانے ممالک میں تیسرے نمبر پر شام ہے جسے 14 پوائنٹس ملے۔ سن 2012 میں خانہ جنگی شروع ہونے کے ایک سال بعد شام کا اسکور 26 تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
4۔ افغانستان
کئی برسوں سے جنگ زدہ ملک افغانستان ’کرپشن پرسپشین انڈیکس 2017‘ میں 15 کے اسکور کے ساتھ چوتھا کرپٹ ترین ملک قرار پایا۔ پانچ برس قبل افغانستان آٹھ پوائنٹس کے ساتھ کرپٹ ترین ممالک میں سرفہرست تھا۔
تصویر: DW/H. Sirat
5۔ یمن
خانہ جنگی کے شکار مشرق وسطیٰ کا ایک اور ملک یمن بھی 16 کے اسکور کے ساتھ ٹاپ ٹین کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں شامل رہا۔ سن 2012 میں یمن 23 پوائنٹس کے ساتھ نسبتا کم کرپٹ ملک تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Arhab
6۔ سوڈان
افریقی ملک سوڈان بھی جنوبی سوڈان کی طرح پہلے دس بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ سوڈان 16 کے اسکور حاصل کر کے یمن کے ساتھ عالمی درجہ بندی میں 175ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Chol
7۔ لیبیا
شمالی افریقی ملک لیبیا 17 پوائنٹس کے ساتھ کُل ایک سو اسی ممالک کی اس فہرست میں 171ویں نمبر پر رہا۔ سن 2012 میں لیبیا کا اسکور اکیس تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Malla
8۔ شمالی کوریا
شمالی کوریا کو پہلی مرتبہ اس انڈیکس میں شامل کیا گیا اور یہ ملک بھی سترہ پوائنٹس حاصل کر کے لیبیا کے ساتھ 171ویں نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/W. Maye-E
9۔ گنی بساؤ اور استوائی گنی
وسطی افریقی ممالک گنی بساؤ اور استوائی گنی کو بھی سترہ پوائنٹس دیے گئے اور یہ لیبیا اور شمالی کوریا کے ساتھ مشترکہ طور پر 171ویں نمبر پر رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Kambou
10۔ وینیزویلا
جنوبی امریکی ملک وینیزویلا 18 کے مجموعی اسکور کے ساتھ ایک سو اسی ممالک کی اس فہرست میں 169ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Barreto
بنگلہ دیش، کینیا اور لبنان
جنوبی ایشائی ملک بنگلہ دیش سمیت یہ تمام ممالک اٹھائیس پوائنٹس کے ساتھ کرپشن کے حوالے سے تیار کردہ اس عالمی انڈیکس میں 143ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A.M. Ahad
ایران، یوکرائن اور میانمار
پاکستان کا پڑوسی ملک ایران تیس پوائنٹس حاصل کر کے چار دیگر ممالک کے ساتھ مشترکہ طور پر 130ویں نمبر پر رہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/S. Coskun
پاکستان، مصر، ایکواڈور
پاکستان کو 32 پوائنٹس دیے گئے اور یہ جنوبی ایشیائی ملک مصر اور ایکواڈور کے ساتھ کل 180 ممالک میں میں مشترکہ طور پر 117ویں نمبر پر ہے۔ سن 2012 میں پاکستان کو 27 پوائنٹس دیے گئے تھے۔
تصویر: Creative Commons
بھارت اور ترکی
بھارت، ترکی، گھانا اور مراکش چالیس کے مجموعی اسکور کے ساتھ مشترکہ طور پر 81ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/M. Swarup
14 تصاویر1 | 14
اس کانگریسی رہنما نے سوال کرتے ہوئے کہا، ’’کانگریس پارٹی ساٹھ برس میں اپنا دفتر نہیں بنا سکی لیکن بی جے پی نے صرف دوسال میں پندرہ سو کروڑ روپے کا اپنا دفتر بنا لیا۔ بی جے پی نے ہر صوبے میں اپنے دفاتر بنائے۔ آخر ان سب کے لیے پیسے کہاں سے آئے؟ کیا بی جے پی کماتی ہے یا کوئی تجارت کرتی ہے؟بی جے پی کے صدر امیت شاہ کی آمدنی پانچ برسوں میں تین گنا زیادہ ہوگئی جب کہ ان کے بیٹے کا پچاس ہزار روپیہ اسی کروڑ روپے میں بدل گیا۔ تو کیا یہ سب کچھ ایمانداری سے ہوا؟ وزیر اعظم نے یہ کیسی چوکیداری کی ہے؟‘‘
’میں چوکیدار نہیں‘
’چوکیدار‘ بننے کی اس لہر میں تاہم خود بی جے پی میں بھی بعض مخالف آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ بی جے پی کے سینئر رہنما اور رکن پارلیمان سبرامنیم سوامی نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ’’میں اپنے نام سے پہلے چوکیدار نہیں لکھ سکتا۔ میں برہمن ہوں، برہمن چوکیدار نہیں ہو سکتا۔ میں چوکیداروں کو حکم دوں گا اور چوکیداروں کو اس پر عمل کرنا ہوگا۔ ہر کوئی چوکیدار سے یہی امید رکھتا ہے۔‘‘
معروف سماجی کارکن انیس درانی کا اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہنا تھا، ’’سبرامنیم سوامی کا یہ بیان ہندو دھرم میں پھیلی ہوئی ذات پات کی زہریلی جڑوں کی مضبوطی اور گہرائی کی نشاندہی کرتا ہے۔ سوامی کے بیان نے نہ صرف مودی کے نعرے ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کی قلعی اتار دی ہے بلکہ (بی جے پی کی مربی تنظیم) آرا یس ایس کی ذات پات کے زہرسے آلودہ ذہنیت کو بھی ننگا کر دیا ہے۔‘‘
ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیار، کون سا ملک کہاں کھڑا ہے؟
ٹیکنالوجی کی دنیا کی تیز رفتار ترقی ناممکن کو ممکن بنانے کی جانب گامزن ہے۔ امکانات کی اس عالمگیر دنیا میں جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوئے بغیر ترقی کرنا ناممکن ہو گا۔ دیکھیے کون سا ملک کہاں کھڑا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
آسٹریلیا، سنگاپور، سویڈن – سب سے آگے
دی اکانومسٹ کے تحقیقی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آئندہ پانچ برسوں کے لیے یہ تینوں ممالک ایک جتنے نمبر حاصل کر کے مشترکہ طور پر پہلے نمبر پر ہیں۔ سن 2013 تا 2017 کے انڈیکس میں فن لینڈ پہلے، سویڈن دوسرے اور آسٹریلیا تیسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: Reuters/A. Cser
جرمنی، امریکا، فن لینڈ، فرانس، جاپان اور ہالینڈ – چوتھے نمبر پر
یہ چھ ممالک یکساں پوائنٹس کے ساتھ چوتھے نمبر ہیں جب کہ امریکا پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل ہو پایا ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں جرمنی تیسرے اور جاپان آٹھویں نمبر پر تھا۔ ان سبھی ممالک کو 9.44 پوائنٹس دیے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
آسٹریا، سمیت پانچ ممالک مشترکہ طور پر دسویں نمبر پر
گزشتہ انڈیکس میں آسٹریا جرمنی کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا تاہم دی اکانومسٹ کی پیش گوئی کے مطابق اگلے پانچ برسوں میں وہ اس ضمن میں تیز رفتار ترقی نہیں کر پائے گا۔ آسٹریا کے ساتھ اس پوزیشن پر بیلجیم، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ممالک ہیں۔
تصویر: Reuters
کینیڈا، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، ایسٹونیا، نیوزی لینڈ
8.87 پوائنٹس کے ساتھ یہ ممالک بھی مشترکہ طور پر پندرھویں نمبر پر ہیں
تصویر: ZDF
برطانیہ اور اسرائیل بائیسویں نمبر پر
اسرائیل نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق کے لیے خطیر رقم خرچ کی ہے۔ 8.6 پوائنٹس کے ساتھ برطانیہ اور اسرائیل اس انڈیکس میں بیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Reuters
متحدہ عرب امارات کا تئیسواں نمبر
مشرق وسطیٰ کے ممالک میں سب سے بہتر درجہ بندی یو اے ای کی ہے جو سپین اور آئرلینڈ جیسے ممالک کے ہمراہ تئیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Imago/Xinhua
قطر بھی کچھ ہی پیچھے
گزشتہ انڈیکس میں قطر کو 7.5 پوائنٹس دیے گئے تھے اور اگلے پانچ برسوں میں بھی اس کے پوائنٹس میں اضافہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے باوجود اٹلی، ملائیشیا اور تین دیگر ممالک کے ساتھ قطر ستائیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/robertharding/F. Fell
روس اور چین بھی ساتھ ساتھ
چین اور روس کو 7.18 پوائنٹس دیے گئے ہیں اور ٹیکنالوجی کے عہد کی تیاری میں یہ دونوں عالمی طاقتیں سلووینیہ اور ارجنٹائن جیسے ممالک کے ساتھ 32ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Baker
مشرقی یورپی ممالک ایک ساتھ
ہنگری، بلغاریہ، سلوواکیہ اور یوکرائن جیسے ممالک کی ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیاری بھی ایک ہی جیسی دکھائی دیتی ہے۔ اس بین الاقوامی درجہ بندی میں یہ ممالک انتالیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Imago
بھارت، سعودی عرب اور ترکی بھی قریب قریب
گزشتہ انڈیکس میں بھارت کے 5.5 پوائنٹس تھے تاہم ٹیکنالوجی اختیار کرنے میں تیزی سے ترقی کر کے وہ اب 6.34 پوائنٹس کے ساتھ جنوبی افریقہ سمیت چار دیگر ممالک کے ساتھ 42 ویں نمبر پر ہے۔ سعودی عرب 47 ویں جب کہ ترکی 49 ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AP
پاکستان، بنگلہ دیش – تقریباﹰ آخر میں
بیاسی ممالک کی اس درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 77واں ہے جب کہ بنگلہ دیش پاکستان سے بھی دو درجے پیچھے ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں پاکستان کے 2.40 پوائنٹس تھے جب کہ موجودہ انڈیکس میں اس کے 2.68 پوائنٹس ہیں۔ موبائل فون انٹرنیٹ کے حوالے سے بھی پاکستان سے بھی پیچھے صرف دو ہی ممالک ہیں۔ انگولا 1.56 پوائنٹس کے ساتھ سب سے آخر میں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
11 تصاویر1 | 11
اصل چوکیداروں کا غم
’چوکیدار چور ہے‘ بمقابلہ ’میں بھی چوکیدار‘ کے نعروں پر کانگریس اور بی جے پی میں جاری مقابلہ کے عین بیچ میں کسی بھی سیاسی جماعت نے آج تک اصل چوکیداروں کو درپیش پریشانیوں پر کوئی توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور نہ ہی اپنے اپنے انتخابی منشور میں ان کا کبھی ذکر کیا ہے۔
بھارت میں صنعت وتجارت کی نمائندہ تنظیم فیڈریشن آف انڈین چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019ء میں سکیورٹی گارڈ یا چوکیدار مہیا کرنے کا ملکی کاروبار سالانہ تقریباً ایک لاکھ کروڑ روپے کا کاروبار ہے، جس کی مالیت 2020ء تک سوا لاکھ کروڑ روپے ہو جائے گی۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں تقریباً چوہتر لاکھ چوکیدار ہیں۔ ان کے لیے کام کے اوقات طے نہیں ہیں۔انہیں آٹھ سے بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی دینا پڑتی ہے۔ 80 فیصد چوکیداروں کو ہفتہ وار چھٹی بھی نہیں ملتی۔ انہیں ماہانہ صرف آٹھ سے بارہ ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے۔ چوکیداری کرنے والے 70 سے 80 فیصد لوگ نقل مکانی کرنے والے ہوتے ہیں۔ اس لیے ان میں سے بیشتر کے نام رائے دہندگان کی فہرست میں بھی درج نہیں ہوتے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ حقائق ثابت کرتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں ’چوکیدار‘ کے پیشے کا استعمال نعرے کے طور پر کر کے اپنا لیے فائدہ تو حاصل کر لیتی ہیں لیکن اصل چوکیداروں کے حقیقی مسائل سے انہیں کبھی کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔
الزامات کی زد میں آنے والے بالی ووڈ کے دس ستارے
بھارتی سپر اسٹار سلمان خان بالی ووڈ کے ایسے پہلے یا واحد اداکار نہیں جو قانون توڑنے کے باعث خبروں میں نظر آتے رہتے ہیں۔ ایسے کون کون سے اداکار ہیں جو وقتاﹰ فوقتاﹰ مبینہ قانون شکنی کی وجہ سے شہ سرخی بنے۔
تصویر: UNI
سلمان خان
سلمان خان کے خلاف 1998 میں جنگلی حیات کے تحفظ کے قانون کے تحت دو مقدمات درج کیے گئے تھے۔ ان پر اپنے ساتھی اداکاروں کے ساتھ نایاب ہرنوں کے شکار کا الزام تھا جس کے ثابت ہونے پر انہیں 5 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ان پر 2002 میں باندرا کے علاقے میں ایک بیکری کے باہر فٹ پاتھ پر سوئے افراد پر نشے کی حالت میں گاڑی چڑھانے کا الزام بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/H. Tyagi
جتیندر
ماضی کے مقبول اداکار جتیندر کے خلاف اس برس جنوری میں ان کی ایک کزن نے جنسی حملے کی رپورٹ درج کروائی۔
تصویر: imago/Hindustan Times
روینہ ٹنڈن
مارچ 2018 میں ایک مندر کے حکام نے شکایت درج کروائی کہ اداکارہ نے ایک اشتہار کی عکسبندی مندر کے اس علاقے میں کی ہے جہاں کیمرہ لے جانا ممنوع تھا۔
تصویر: AP
نواز الدین صدیقی
مارچ 2018 میں نواز الدین کی بیوی نے ان کے خلاف اپنی جاسوسی کرنے اور ٹیلی فون کالز کا ریکارڈ نکلوانے کا الزام عائد کیا۔
تصویر: imago/Hindustan Times
سنجے دت
بالی ووڈ کے سنجو بابا ،غیر قانونی طور پر ہتھیار رکھنے کے جرم میں سزا کاٹ چکے ہیں۔
تصویر: Eros International
شاہ رخ خان:
’کنگ خان‘ شاہ رخ خان کو بھی بھارت میں اپنی فلم رئیس کی شوٹنگ کے دوران کوٹا ریلوے اسٹیشن کی املاک کو نقصان پہنچانے اور ہنگامہ آرائی کرنے کے الزام کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ 2002 میں آئی پی ایل میچ کے دوران وانکھیڑے کرکٹ اسٹیڈیم ممبئی میں سکیورٹی حکام کے ساتھ بدتمیزی کے بعد اس اسٹیڈیم میں پانچ سال تک ان کے داخلے پر پابندی بھی عائد کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Poto/R.Kakade
سورج پنچولی
بالی ووڈ اداکار ادیتیہ پنچولی کے بیٹے سورج پنچولی پر اداکارہ جیا خان کی خودکشی میں اعانت کرنے اور اکسانے کا الزام ہے ۔
تصویر: Getty Images/AFP/Stringer
شائنی آہوجا
اپنے کرئیر کی ابتدا میں کامیابیاں سمیٹنے والے اس اداکار کو اپنی گھریلو ملازمہ سے زیادتی کرنے کے جرم میں جیل کی سزا بھگتنا پڑی۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Jaiswal
مدھر بھنڈارکر
ممبئی سے تعلق رکھنے والی ایک ماڈل نے ہدایت کار مدھر بھنڈارکر کے خلاف سن 2004 میں زیادتی کا مقدمہ درج کروایا تاہم 2007 میں اس ماڈل کو ہدایت کار کو قتل کرنے کی سازش کرنے کے جرم کا مرتکب پایا گیا۔
تصویر: STRDEL/AFP/Getty Images
گووندا
بالی ووڈ کے ڈانسنگ ہیرو گووندا پر اپنی فلم ‘ منی ہے تو ہنی ہے‘ کے سیٹ پر مداح کو تھپڑ مارنے کے الزام کا سامنا تھا ۔تاہم بھارتی سپریم کورٹ نے 2017 میں ان پر درج کیس کو خارج کر دیا۔