بھارتی آرمی کے بعد اب انڈین نیوی میں بھی سینارٹی کی جنگ چھڑ گئی ہے۔ وائس ایڈمرل بمل ورما جونیئر وائس ایڈمرل کرم بیر سنگھ کو بھارتی بحریہ کا نیا سربراہ مقرر کرنے کے حکومت کے فیصلے کے خلاف میدان میں آ گئے ہیں۔
اشتہار
وائس ایڈمرل بمل ورما آج اکیس مئی کو ایک بار پھر آرمڈ فورسیز ٹریبونل(اے ایف ٹی) کا دروازہ کھٹکھٹانے والے ہیں۔ بھارتی وزارت دفاع نے وائس ایڈمرل کرم بیر سنگھ کو بھارتی بحریہ کا نیا سربراہ مقرر کرنے کے نریندر مودی حکومت کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی ورما کی عرضی تین روز قبل مسترد کردی تھی۔ ورما کے وکیل انکور چھبر نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،’’تازہ پیش رفت کے مدنظر ہم اے ایف ٹی میں آج (منگل کو) نئی درخواست پیش کریں گے اور ہمیں امید ہے کہ اس پر اگلے دن ہی سماعت ہو جائے گی۔‘‘
یہ تنازعہ اس وقت پیدا ہوا جب گزشتہ 23 مارچ کو مودی حکومت نے نیوی افسر ورما کی سینارٹی کو نظر انداز کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ایڈمرل سنیل لامبا کی سبکدوشی کے بعد وائس ایڈمرل کرم بیر سنگھ بھارتیہ بحریہ کی کمان سنبھالیں گے۔ ایڈمرل لامبا 31 مئی کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہورہے ہیں۔
بحریہ کے سابق سربراہ نرمل ورما کے بھائی وائس ایڈمرل بمل ورما نے حکومت کے اس فیصلے کے خلاف اے ایف ٹی میں عرضی دائر کرتے ہوئے یہ معلوم کرنا چاہا کہ اس طرح کے اعلٰی ترین عہدوں پر تقرری کا پیمانہ کیا ہے؟ انہوں نے اسی کے ساتھ کرم بیر سنگھ کی تقرری کو منسوخ کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ تاہم ایک دن بعد ہی انہوں نے اپنی عرضی اس وقت واپس لے لی جب اے ایف ٹی نے اس معاملے میں انہیں وزارت دفاع سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔
اس کے بعد ورما نے 10 اپریل کو وزارت دفاع میں ایک ’قانونی شکایت‘ درج کرائی اور دس دنوں کے اندر اس کا ازالہ کرنے کی درخواست کی۔ دس دن کا وقت گزر جانے کے باوجود جواب نہ ملنے پر ورما نے 23 اپریل کو ایک بار پھر اے ایف ٹی کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ٹریبونل نے ان کی درخواست پر غور کرتے ہوئے وزارت دفاع کو تین ہفتہ کے اندر ورما کی شکایت کا ازالہ کرنے کا حکم دیا۔ 19مئی کو وزارت دفاع کی طرف سے جواب موصول ہونے کے بعد ورما اب ایک بار پھر ٹریبونل کا رخ کررہے ہیں۔
ورما کی درخواست کے جواب میں وزارت دفاع نے کہا ہے کہ مسلح افواج کے سربراہوں کی تقرری میں سینارٹی ایک اہم معیار ہے لیکن یہ واحد پیمانہ نہیں ہے، جس کی بنیاد پر انتخاب کیا جا سکے۔ اس سے پہلے بھی ہوئی تقرریوں میں ایسا ہوچکا ہے۔ وزارت دفاع نے اپنے حکم نامہ میں کہا ہے،’’وفاقی حکومت نے بحریہ کے سربراہ کا انتخاب نہایت احتیاط سے کیا ہے۔
حکومت نے وائس ایڈمرل ورما کی میرٹ کو بھی دیکھا ہے۔ سلیکشن کے سلسلے میں مسلسل طریقہ کار اور اس کے پیمانوں پر بھی انہیں پرکھا ہے۔ اس کے بعد کی گئی جانچ پڑتال میں ایڈمرل ورما کو سب سے سینیئر ترین افسر تسلیم کیا گیا۔ لیکن بحریہ کے سربراہوں کی تقرری کے لیے دیگر پیمانوں کے لحاظ سے وہ مناسب نہیں پائے گئے۔‘‘
وزارت دفاع کی جوائنٹ سکریٹری رچاشرما کا کہنا ہے کہ حکومت اپنے فیصلے سے مطمئن ہے۔ حکومت نے وائس ایڈمرل کرم بیر سنگھ کی تقرری میں تمام پہلووں پر غور کرنے کے بعد ہی فیصلہ کیا ہے۔ بحریہ کے موجود ہ سربراہ سنیل لامبا31 مئی کو سبکدوش ہورہے ہیں، ان کے بعد ایڈمرل کرم بیر سنگھ بھارتی بحریہ کے اگلے سربراہ ہوں گے۔کرم بیر سنگھ اس وقت ایسٹرن نیول کمان میں فلیگ آفیسر کمانڈنگ ان چیف ہیں۔ وہ بھارتیہ بحریہ کے سربراہ بننے والے پہلے ہیلی کاپٹر پائلٹ ہوں گے۔
گو کہ بھارتی مسلح افواج میں سب سے سینیئر ترین افسر کو سربراہ بنانے کی روایت رہی ہے تاہم گزشتہ چند برسوں سے یہ روایت ٹوٹتی دکھائی دے رہی ہے۔ دسمبر 2016 میں جب مودی حکومت نے جنرل بپن راوت کو موجودہ آرمی چیف بنایا تھا تو اس وقت بھی سینیارٹی کے اصول اور دو سینیئر لفٹننٹ جنرلوں پروین رنجن اور پی ایم حارث کو نظر انداز کردیا گیا تھا۔
اس وقت کے وزیر دفاع منوہر پاریکر کا یہ جملہ کافی مشہور ہوا تھا کہ اگر سینارٹی ہی واحد پیمانہ ہے تو افواج کے سربراہوں کے انتخاب کا یہ کام تاریخ پیدائش کی بنیاد پر کمپیوٹر بڑی آسانی سے کرسکتا ہے۔ اس کے لیے مہینوں تک چلنے والے طریقہ کار، امیدواروں کے بارے میں انٹیلی جنس بیورو کی رپورٹوں پر غور وخوض کرنے اور کابینہ کی تقرریوں سے متعلق کمیٹی کی منظوری لینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ایم حارث جنرل بپن راوت سے کہیں زیادہ تجربہ کار تھے اور اگر انہیں انڈین آرمی کا سربراہ بنایا جاتا تو انہیں بھارت کے پہلے مسلم آرمی چیف بننے کا اعزاز حاصل ہوجاتا۔ البتہ ایئر چیف مارشل ادریس حسن لطیف کو بھارتیہ فضائیہ کا پہلا مسلم سربراہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
صرف مودی حکومت ہی نہیں ماضی میں کانگریس کی قیادت والی متحدہ ترقی پسند اتحاد حکومت نے بھی سن 2014 میں ایک سینیئر افسر کو نظر انداز کر کے ایڈمرل روبن دھون کو بحریہ کا سربراہ بنایا تھا۔
کس ملک کے پاس کتنے طیارہ بردار بحری بیڑے ہیں؟
دنیا میں اب تک 168 طیارہ بردار بحری بیڑے بنائے جا چکے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں محض 19 بحری بیڑے زیر استعمال ہیں۔ پکچر گیلری میں جانیے کس ملک نے کتنے بحری بیڑے تیار کیے اور کتنے آج زیر استعمال ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/Zumapress
تھائی لینڈ
تھائی لینڈ کے پاس ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے جسے 1997 میں تیار کیا گیا تھا۔ یہ بحری بیڑہ اب بھی ملکی بحریہ کے استعمال میں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
ہالینڈ
چالیس کی دہائی کے اواخر میں ہالینڈ نے برطانیہ سے دو طیارہ بردار بحری بیڑے خریدے تھے۔ 1968 میں ان میں سے ایک ارجیٹینا کو فروخت کر دیا گیا تھا جو اب قابل استعمال نہیں ہے۔ دوسرا بحری بیڑہ سن 1971 میں اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/arkivi
ارجنٹائن
ہالینڈ سے خریدے گیا بحری بیڑا سن 1969 سے لے کر 1999 تک ارجنٹائن کی بحریہ کے زیر استعمال رہا۔ علاوہ ازیں اے آر اے انڈیپینڈینسیا بحری بیڑا 1959 سے لے کر 1969 تک زیر استعمال رہنے کے بعد اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters
برازیل
برازیل کے پاس اس وقت ایک فرانسیسی ساختہ طیارہ بردار بحری بیڑہ موجود ہے جو سن 2000 سے زیر استعمال ہے۔ اس کے علاوہ ساٹھ کی دہائی میں خریدا گیا ایک اور بحری بیڑہ بھی سن 2001 تک برازیل کی بحریہ کا حصہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/ dpa/A. Zemlianichenko
اسپین
خوان کارلوس نامی بحری بیڑہ سن 2010 سے ہسپانوی بحریہ کا حصہ ہے جب کہ ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ریزرو میں بھی موجود ہے۔ جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے دو ہسپانوی بحری بیڑے متروک بھی ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/P. Dominguez
آسٹریلیا
آسٹریلیا کے پاس مختلف اوقات میں تین ایسے جنگی بحری بیڑے تھے، جو لڑاکا طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان میں سے دو پچاس کی دہائی کے اواخر جب کہ تیسرا سن 1982 تک آسٹریلوی بحریہ کے استعمال میں رہے۔
تصویر: picture-alliance/epa/J. Brown
کینیڈا
گزشتہ صدی کے وسط میں کینیڈا کے پاس جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے پانچ بحری بیڑے تھے جنہیں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اسکریپ کر دیا گیا تھا۔ اس وقت کینیڈا کے پاس ایسا ایک بھی بحری بیڑہ موجود نہیں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/MC3 K.D. Gahlau
بھارت
آئی این ایس وکرمادتیا نامی روسی ساخت کا طیارہ بردار بحری بیڑہ سن 2013 سے بھارتی بحریہ کے استعمال میں ہے۔ جب کہ کوچین شپ یارڈ میں ورکرنت نامی ایک اور بحری بیڑے کی تعمیر جاری ہے۔ ویرات نامی بحری بیڑہ سن 2016 تک استعمال میں رہنے کے بعد اب ریزرو میں شامل کیا جا چکا ہے جب کہ ایک بحری بیڑہ سن 1961 سے لے کر 1997 تک زیر استعمال رہنے کے بعد اسکریپ کیا جا چکا ہے۔
تصویر: Imago/Hindustan Times/A. Poyrekar
روس
اس وقت روسی فوج کے زیر استعمال صرف ایک ایسا بحری بیڑہ ہے جو جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد روس نے نوے کی دہائی کے پہلے پانچ برسوں کے دوران چار طیارہ بردار بحری بیڑوں میں سے تین اسکریپ کر دیے تھے جب کہ ایک کی تجدید کے بعد اسے بھارت کو فروخت کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-lliance/AP Photo
جاپان
دوسری عالمی جنگ سے قبل جاپان کے پاس بیس طیارہ بردار جنگی بحری بیڑے تھے جن میں سے اٹھارہ عالمی جنگ کے دوران امریکی حملوں کے باعث تباہ ہو کر سمندر برد ہو گئے تھے۔ دیگر دو کو جاپان نے سن 1946 میں ڈی کمیشن کرنے کے بعد اسکریپ کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/Handout/P. G. Allen
فرانس
فرانسیسی بحریہ کے تصرف میں اس وقت ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے جب کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے گزشتہ صدی کے اختتام تک کے عرصے میں فرانس نے سات طیارہ بردار بحری بیڑے اسکریپ کر دیے تھے۔
تصویر: dapd
جرمنی
جرمنی نے بیسویں صدی کے آغاز سے لے کر دوسری عالمی جنگ تک کے عرصے کے دوران آٹھ طیارہ بردار بحری بیڑے تیار کرنے کے منصوبے بنائے تھے جو مختلف وجوہات کی بنا پر مکمل نہ ہو سکے۔ اس وقت جرمن بحریہ کے پاس ایک بھی ایسا بحری بیڑہ نہیں ہے جو جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
تصویر: picture alliance/akg-images
برطانیہ
اس وقت برطانوی نیوی کے زیر استعمال کوئی طیارہ بردار بحری بیڑہ نہیں ہے لیکن لندن حکومت گزشتہ چند برسوں سے دو بحری بیڑوں کی تیاری جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ صدی میں برطانیہ کے تصرف میں چالیس ایسے بحری بیڑے تھے جو جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان میں سے چار دوسری عالمی جنگ کے دوران تباہ ہوئے جب کہ دیگر کو اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Marine Nationale
اٹلی
اطالوی بحریہ کے پاس اس وقت دو طیارہ بردار بحری بیڑے ہیں جن میں سے ایک سن 1985 سے جب کہ دوسرا سن 2008 سے زیر استعمال ہے۔ اٹلی کا ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ سن 1944 میں ڈوب گیا تھا جب کہ ایک کو پچاس کی دہائی میں اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: DW/B. Riegert
چین
چین نے تیرہ مئی 2018 کے روز مکمل طور پر ملک ہی میں تیار کردہ پہلے طیارہ بردار بحری بیڑے کو تجرباتی بنیادوں پر سمندر میں اتارا۔ اس سے قبل چینی بحریہ کے پاس ایک روسی ساختہ طیارہ بردار بحری بیڑہ موجود ہے جسے سن 1998 میں یوکرائن سے خریدا گیا تھا اور اسے بحال کر کے سن 2012 میں قابل استعمال بنا لیا گیا تھا۔
امریکی فوج کے پاس اس وقت دس طیارہ بردار بحری بیڑے زیر استعمال ہیں جب کہ ایک ریزرو میں بھی موجود ہے۔ امریکی بحری بیڑے طیاروں کی پرواز اور لینڈنگ کے حوالے سے بھی نہایت جدید ٹیکنالوجی کے حامل ہیں اور انہیں جوہری توانائی سے چلایا جاتا ہے۔ امریکا گزشتہ صدی کے دوران 56 بحری بیڑے اسکریپ کر چکا ہے۔