بھارتی بچوں کے لیے مفت کھانا،اب چھٹیوں میں بھی
13 مئی 2016![](https://static.dw.com/image/17788440_800.webp)
یہ حکم ملک میں جاری اس خشک سالی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے دیا گیا ہے جو بھارت میں آنے والی اب تک کی خشک سالیوں میں سب سے بد ترین شمار کی جا رہی ہے۔
تمام بھارت میں قریب 120 ملین طالب علم مفت کھانے کے منصوبے سے مستفید ہوتے ہیں،لیکن انہیں یہ سہولت تعطیلات کے دوران حاصل نہیں ۔ یہ دنیا بھر میں اسکولوں کی سطح پر خوراک کی فراہمی کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔
تاہم ملک کی آبادی کے چوتھائی حصے کو شدید قحط کا سامنا ہے۔ اسی تناظر میں کسانوں کے خود کشی کرنے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے جبکہ بیشتر کسان گزر بسر کے لیے یومیہ مزدوری کی تلاش میں بڑے قصبوں اور دیہاتوں کا رخ کر رہے ہیں۔
بھارت کی عدالت عظمی نے ایک درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے ایسے احکامات جاری کیے ہیں کہ قحط سے متاثرہ بچوں کو حکومتی منصوبوں کے تحت ہفتے میں چھ دن کھانا فراہم کیا جائے، جس میں دودھ یا انڈے بھی شامل ہوں۔
بارشوں کی قلت کی وجہ سے حکومت انتہائی اقدامات کررہی ہے جیسے کہ پانی کے بے جا استعمال پر پابندی، پانی کے ذخیروں پر مسلح گارڈز کی تعیناتی اور خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں ٹرینوں کے ذریعے پانی کی ترسیل۔
بھارتی حکومت پر قحط کے مسئلے کے حل کے لیے شدید دباؤ ہے اور وزیراعظم نریندر مودی نے حال ہی میں کم سے کم تین ریاستوں کے وزرائے اعلی سے اس بارے میں بات کی ہے۔
خوراک کی مفت ترسیل کا منصوبہ بھارت میں قومی سطح پر 2001 ء میں شروع کیا گیا تھا جس کا مقصد غریب اور کمزور بچوں کو گھروں میں بھوکا بیٹھنے یا پیسے کمانے میں والدین کی مدد کرنے کے بجائے اسکول آنے کی ترغیب دینا تھا۔
2015 ء کے گلوبل ہنگر انڈیکس یا 'جی ایچ اّئی' کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت بیسویں نمبر پر ہے جس پر عالمی بینک کا کہنا یہ ہے کہ دنیا بھر میں بچوں میں غذائی قلت کی یہ سب سے زیادہ شرح ہے،جو ذیلی صحارائی افریقہ کی شرح کا تقریبا دو گنا ہے۔
قحط زدہ علاقوں کے بچوں میں خوراک کی کمی کے معاملے کو سپریم کورٹ میں اٹھانے والے یوگیندرا یادو نے اس فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ اس پر جلد از جلد عمل درآمد کرایا جائے۔