کشمیر: بھارتی جریدہ فوج کے مبینہ تشدد کی خبر ہٹانے پر مجبور
13 فروری 2024'دی کاروان' نامی جریدے نے گزشتہ ہفتے ایک طویل رپورٹ شائع کی تھی جس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دسمبر کے دوران فوجیوں پر باغیوں کے مہلک حملے کے بعد حراست میں لیے گئے تین شہریوں کے بارے میں تفصیلات عام کی گئی تھیں۔ اس میگزین کے مطابق انہیں منگل کے روز وزارت اطلاعات کی طرف سے ایک حکم نامہ موصول ہوا جس میں یہ رپورٹ چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر آف لائن کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
انہوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا، "آرڈر کا مواد خفیہ ہے اور ہم اس آرڈر کو چیلنج کریں گے۔" بھارتی وزارت اطلاعات نے ابھی تک اس بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
ہلاک شدگان کون تھے؟
باغیوں کے حملے کے بعد سکیورٹی فورسز نے ایک گروپ کو حراست میں لیا تھا اور ہلاک ہونے والے تینوں افراد اسی گروپ کا حصہ تھے۔ اس حملے میں تین بھارتی فوجی بھی مارے گئے تھے۔
زیر حراست افراد پر تشدد کی فوٹیج لیک ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر بھی شیئر کی گئی تھی۔ بعد ازاں ہلاکتوں کی خبریں عام ہونے کے بعد بھارتی فوج نے تفتیش کا وعدہ کیا تھا۔
آزادی صحافت پر قدغن
انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ بھارت میں پریس پر پابندیاں تیزی سے عام ہوتی جا رہی ہیں۔ خاص طور پر اس کے زیر انتظام کشمیر میں جہاں بھارت کی نصف ملین سے زیادہ فوج مستقل طور پر تعینات ہے۔
ایک مقامی ڈیجیٹل رائٹس گروپ انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کے پرتیک واگھرے نے اے ایف پی کو بتایا کہ کاروان کے خلاف حکم "بھارت میں انٹرنیٹ پر آزادی اظہار پر عائد بڑھتی ہوئی سنسرشپ کی عکاسی کرتا ہے۔" انہوں نے مزید کہا، "ہم حکومت کے لیے تکلیف دہ رپورٹنگ کے خلاف ایسی مزید کارروائیاں دیکھ رہے ہیں ہے۔"
رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے مرتب کردہ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں بھارت سن 2014 کے بعد سے اکیس درجہ گر کر 180 ممالک کی فہرست میں 161 نمبر پر آ گیا ہے۔
ع آ / ک م (اے ایف پی)